ہم ایک قوم ہیں

کہنے کو تو ہم ایک جمہوری ملک ہیں مگر عملی صورتحال اس سے بالکل مختلف ہے۔


نجمہ عالم January 26, 2018
[email protected]

ماشا اللہ ہمیں اپنا آزاد وخودمختار وطن حاصل کیے ستر برس ہوچکے ہیں، مگر ہم اتنے طویل عرصے میں بھی ایک قوم ایک ترقی یافتہ معاشرے میں نہ ڈھل سکے۔ ہم سے کم عرصے میں کئی اقوام و ممالک ترقی کی وہ منازل طے کرچکے جن کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ آخر ہماری موجودہ صورتحال کی کچھ نہ کچھ تو وجوہات ہوں گی۔ آخر ہم آج تک ایک قوم کیوں نہیں بن سکے؟ آج دنیائے سیاست میں ہم کس مقام پر کھڑے ہیں؟

اہل دانش کے ذہنوں میں کئی سوالات کلبلاتے ہیں کہ وطن، یہ سرزمین ہم نے آخر کس لیے طویل جد وجہد، قربانیوں اور مشکلات کے بعد حاصل کی تھی، پاکستانی بن کر رہنے کے لیے یا سندھی، پنجابی، بلوچ اور پختون کے لیے۔ یا پھر فقہی اور مسلکی بنیادوں میں بٹ کر بکھرنے کے لیے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کچھ طالع آزماؤں نے آزادی کی نعمت کو اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے بہترین موقع جانا۔

بانی پاکستان کو آزادی کے بعد اتنا موقع نہ مل سکا کہ وہ وطن عزیز کو مکمل خودمختاری اور ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتے، مگر اس مختصر سی مدت میں بھی ان کے خطابات بیانات ایک مکمل فلاحی ریاست کا خاکہ پیش کرتے ہیں، مگر افسوس کہ ہم نے ان کے خیالات کو بالائے طاق رکھ کر اپنی من مانی کی۔ بگڑتی ہوئی صحت کے باعث قاعد اعظم اپنے تصورات کو عملی جامہ نہ پہناسکے۔ غلطیاں اول روز سے سرزد ہوئیں۔ کاش ہم پہلے قانون ساز اجلاس میں جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کا اعلان کردیتے تو انگریزکی غلامی سے لے کر ان جاگیرداروں کے غلام نہ بنتے۔

کہنے کو تو ہم ایک جمہوری ملک ہیں مگر عملی صورتحال اس سے بالکل مختلف ہے۔ جمہوریت کی جو تعریف ہے ہم اس پر ذرا بھی پورا نہیں اترتے۔ بظاہر ہمارے حکمران انتخابات کے ذریعے ہی کرسی اقتدار پر براجمان ہوتے ہیں مگر ہرکوئی جانتا ہے کہ انتخابی نتائج عوام کے دل کی آواز نہیں۔ ہر حکمران استحصالی عناصرکی کھلم کھلا آشیرباد بلکہ ملک دشمن دہشتگردوں کے گٹھ جوڑ سے اقتدار حاصل کرتے ہیں اور پھر ان دونوں کی رضا ومرضی کو ملکی عوام کے مفاد پر مقدم سمجھتے ہیں۔

جب بات ہوتی ہے ایک قوم نہ بننے کی تو وہ عوامل بھی سامنے آتے ہیں جو قوم کو قوم بناتے ہیں۔ ہمیں آج تک سیاستدانوں اور خودساختہ ملاؤں نے ایک قوم نہیں بننے دیا، ہمارا قومی انتشار ہی ان کی بقا کا ضامن ہے۔ صوبائی، لسانی اور پھر مسلکی تقسیم در تقسیم نے ہمیں کبھی مکمل پاکستانی نہیں ہونے دیا، اگر ہم اپنے اپنے صوبائی تعلق سے بالا تر ہوکر پاکستانی ہونے پر فخر کرتے تو کیا برا تھا؟ کیا آج چاروں صوبوں کے افراد اپنے صوبے کے علاوہ دوسرے صوبوں میں رہائش پذیر نہیں، کیا دوسرے صوبوں میں ملازمت اور تجارت و کاروبار نہیں کر رہے؟

کیا ایک صوبے کے طلبا دوسرے صوبے کے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل نہیں کر رہے؟ اور جب ایسا ہے جو کھلی حقیقت ہے اور ہونا بھی چاہیے کہ ہر علاقے کے افراد کا وطن ہے، تو یہ صورتحال اس بات کی متقاضی تھی اور ہے کہ اس ملک کی ایک قومی زبان ہو۔ ہر صوبے میں صوبائی زبان ہو مگر قوم کو متحد و یکجا کرنے کے لیے محض صوبائی زبان ہر جگہ کام نہیں آسکتی۔

علاقائی زبانوں کو کبھی بھی قومی زبان سے خطرہ نہیں ہوسکتا البتہ ہم غیر ملکی زبان کو اپنا کر اول تو ذہنی غلامی سے نجات حاصل نہ کرسکے اور پھر تمام صوبوں کے افراد کو ایک دوسرے سے قریب نہ لاسکے۔ قائد اعظم نے جب اردوکو قومی زبان قرار دیا تھا تو ان کو معلوم تھا کہ یہی واحد زبان ہے جو ملک کے طول و عرض ہی نہیں بلکہ پورے برصغیر میں بولی اور آسانی سے سمجھی جاتی ہے۔ اردوکو کسی کی زبان قرار دینا بھی بدنیتی پر مبنی ہے اس زبان کو بنانے ترقی دینے اور اظہار کا ذریعہ قرار دینے میں برصغیر کے ہر علاقے نے حصہ لیا ہے۔

یہ بات جانے پاکستان کے کس دشمن نے لوگوں کے ذہن میں بٹھا دی ہے کہ اردو کو بطور قومی زبان نافذ کرنے سے صوبائی و علاقائی زبانوں کو نقصان ہوگا۔ حالانکہ صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ ہم انگریزی کو (جو کسی بھی صوبے یا علاقے کی زبان نہیں) تو خوشی خوشی نہ صرف قبول کر رہے ہیں بلکہ اس کے نفاذ پر محنت بھی کر رہے ہیں، مگر وہ زبان جو پورے ملک کی امنگوں کی ترجمان ہے کو نظرانداز کر رہے ہیں۔

اردو عالمی کانفرنس میں غیر ملکی مندوبین نے واضح طور پر کہا ہے کہ اردو میں بڑی وسعت ہے، جاپانی اسکالر نے تو یہ تک کہا کہ اردو جاپان میں مقبولیت حاصل کر رہی ہے اور کئی جامعات میں اعلیٰ سطح تک اس کی تدریس کا انتظام ہے، جب کہ کئی ممالک اپنی اپنی زبان میں ملکی و تعلیمی سطح پر کام کر کے بھی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔

تو عرض یہ کرنا ہے کہ اگر ایک قوم بننے کا ارادہ ہو تو سب سے پہلے اپنی لسانی ومسلکی تقسیم کو نظرانداز کرنا ہوگا۔ پوری قوم ایک زبان، ایک خدا، ایک کلمے پر متحد ہو تو وہی قوم کہلاتی ہے۔ اگرکسی کو ناگوار نہ گزرے تو عرض کروں گی کہ ہم سب پہلے مسلمان ہیں مسلک یا فقہ ہر فرد کا ذاتی مسئلہ ہے۔ کاش ہمارے مذہبی رہنما ہمیں، تفرقہ میں ڈالنے کی بجائے ایک دین پر متحد کرنے کی کوشش کرتے تو آج ہمارے یہاں یہ انتہا پسندی کا رجحان نہ ہوتا۔

علمائے کرام سے معذرت کے ساتھ وہ دین کی تبلیغ و ترویج کی بجائے مختلف مسالک و فقہوں کی تبلیغ کر رہے ہیں، اس میں اسلام کی خدمت کے بجائے اسلام کو معاذ اللہ ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی دانستہ یا نادانستہ کوشش نظر آتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی کتاب حکمت میں واضح طور پر حکم دیا ہے ''لوگو! دین کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو، اور تفرقہ نہ پھیلاؤ'' (ترجمہ) کیا اس واضح حکم کے بعد ہر فرقے کی الگ الگ تبلیغ جائز ہے؟ یا حکم خدا سے انحراف۔ جہاں تک فرقوں یا مسالک کا معاملہ ہے وہ سب کا ذاتی مسئلہ ہے

۔ اللہ تعالیٰ نے کسی بھی فرقے کو یہ حق نہیں دیا کہ وہ اپنے علاوہ سب کو غلط سمجھ کر اس کی جان ومال کے لیے خطرہ بن جائے۔ حالانکہ ہر مسلمان کو دوسرے مسلمان کی جان ومال کا محافظ قرار دیا گیا ہے۔ کاش ہم کلام پاک کا بغور غیر متعصبانہ مطالعہ کرتے تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔ اب بھی وقت ہاتھ سے گیا نہیں ان تعصبات سے بلند ہوکر ہم آج بھی ایک قوم میں ڈھل سکتے ہیں اور ملک کو ناقابل تسخیر بناسکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔