نیکی کی خوشبو ُ

آپؐ جس راستے سے گزر جاتے وہ راستہ معطر ہوجاتا۔


آپؐ جس راستے سے گزر جاتے وہ راستہ معطر ہوجاتا۔ فوٹو: فائل

گناہ اللہ رب العزت کی نافرمانی کرنے اور نبی اکرم ﷺ کی مبارک سنتوں سے روگردانی کرنے کو کہتے ہیں۔

گناہ میں انسان کے لیے دنیاوی نقصانات بھی ہیں اور اُخروی نقصانات بھی ہیں۔ امام غزالیؒ نے لکھا ہے کہ عالم شخص وہ ہوتا ہے جس پر گناہوں کے نقصانات اچھی طرح واضح ہوجائیں۔ گویا جو شخص گناہوں کے نقصانات سے جتنا زیادہ واقف ہوگا، وہ اُتنا ہی بڑا عالم ہوگا۔ یہ بات بہت کام کی ہے، وجہ یہ ہے کہ جب انسان کسی چیز کے نقصانات سے واقف ہو تو وہ اس سے بچتا ہے یہ انسان کی فطرت ہے۔ جیسے انسان زہر کے نقصانات سے واقف ہوتا ہے، اس لیے اس سے بچتا ہے۔ نفس کی خواہش ہمارے لیے زہر کی مانند ہے، جس طرح انسان زہر سے بچتا ہے اسی طرح وہ نفس کے ان زہریلے خیالات سے بھی بچتا ہے۔

٭ علم کے باوجود گم راہی :

جس انسان کے نزدیک نیکی اور گناہ میں فرق ہی نہیں ہوتا وہ ایک طرف گناہ بھی کررہا ہوتا ہے اور دوسری طرف تسبیح بھی پڑھ رہا ہوتا ہے، گویا اس کے پاس علم ہے ہی نہیں اور اگر علم ہے تو وہ علم نافع سے محروم ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے کہ مفہوم: '' کیا آ پ نے اس کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشات کو اپنا معبود بنالیا ہے، اللہ نے علم کے باوجود اس کو گم راہ کردیا۔'' (الجاثیہ )

نیکی اور گناہ کا وہی فرق ہے جو روشنی اور اندھیرے کا ہوتا ہے، اگر کسی جگہ اندھیرا ہو تو وہاں انسان کو سانپ، بچھو نظر نہیں آتے اور وہ ان سے بچ نہیں سکتا، جیسے ہی روشنی آتی ہے سانپ بچھو کا پتا چل جاتا ہے اور انسان ان سے بچ جاتا ہے۔ اسی طرح جس انسان کے پاس علم کا نور ہوتا ہے اس نور کے آتے ہی گناہوں کے سانپ، بچھو اس کے سامنے واضح ہوجاتے ہیں، پھر وہ ان سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔

شریعت مطہرہ میں اس بات کو پسند کیا گیا ہے کہ انسان لمبی عبادتیں کرنے کے بہ جائے گناہوں سے زیادہ بچیں۔ مثلا ایک آدمی تہجد نہیں پڑھتا، لمبے لمبے اذکار نہیں کرتا، نفلی روزے نہیں رکھتا، مگر گناہوں سے بچتا ہے تو وہ اللہ کا ولی ہے۔ کیوں کہ اس کی زندگی میں معصیت نہیں ہے۔ اسی لیے مشائخ کہتے ہیں کہ گناہوں سے پہلے بچو، تب ذکر و اذکار کا فائدہ ہوگا۔ خواجہ خرقانیؒ نے ایک بڑی ہی پیاری بات لکھی، وہ فرماتے ہیں کہ جس بندے نے کوئی دن گناہوں کے بغیر گزارا، ایسا ہی ہے کہ جیسے اس نے وہ دن نبی ﷺ کی معیت میں گزارا۔ اس لیے روزانہ اُٹھ کر صبح کو اللہ سے دعائیں مانگنی چاہیے کہ اے مالک و مولا آج کا دن ایسا گزارنا جس میں تیرے حکم کی نافرمانی نہ ہو۔ اگر کوئی ایک دن بھی ہماری زندگی میں ایسا ہو تو ہم امید کرسکتے ہیں کہ اس دن کی برکت سے قیامت کے دن ہم پر اللہتعالیٰ کی رحمت ہوجائے گی۔



ولی اس کو کہتے ہیں جو اپنے آپ کو گناہوں سے بچا لیتا ہے۔ قرآن مجید نے ان الفاظ میں کہہ دیا، مفہوم: '' اللہکے ولی وہ ہوتے ہیں جو متقی ہیں۔ ''(الانفال ) یہ بھی یاد رکھیں کہ تقویٰ کچھ کرنے کا نام نہیں، بل کہ کچھ نہ کرنے کو تقویٰ کہتے ہیں، یعنی وہ باتیں جن سے اللہتعالیٰ ناراض ہوتا ہے، ان کو نہ کرنا تقویٰ کہلاتا ہے۔ آسان الفاظ میں یہ سمجھ لیجیے کہ تقویٰ یہ ہے کہ آپ ہر اس کام سے بچیں جس کو کرنے سے قیامت کے دن آپ قابل سزا ہوں۔

٭ گناہ نجاست کی مانند :

گناہ باطنی طور پر نجاست کی مانند ہوتا ہے۔ چناں چہ ہم جس عضو سے بھی گناہ کرتے ہیں ہمارا وہ عضو باطنی طور پر ناپاک ہوجاتا ہے اور نجاست کے اندر بدبو ہوتی ہے۔ لہٰذا انسان جن اعضاء سے گناہ کرتا ہے ان اعضاء سے باطنی طور پر بدبُو آتی ہے۔ اس کی دلیل حدیث پاک سے ملتی ہے۔ حدیث پاک میں ارشاد ہو ا کہ انسان جب جھوٹ بولتا ہے، تو اس کے منہ سے بدبو نکلتی ہے حتیٰ کے فرشتے اس سے تکلیف محسوس کرتے ہیں اور اس بندے سے دور ہوجاتے ہیں۔ ایک اور حدیث پاک میں ارشاد ہوا کہ جب آدمی کی وفات ہونے کا وقت قریب آتا ہے تو ملک الموت کے ساتھ آنے والے فرشتے اس آدمی کے اعضاء کو سونگھتے ہیں، جن اعضاء سے اس نے گناہ کیے ہوتے ہیں، ان اعضاء سے ان کو بدبُو محسوس ہوتی ہے، نیکو کار انسان ہوتا ہے، اس کے اعضاء گناہوں سے پاک ہوتے ہیں۔ لہٰذا ان سے بدبو محسوس نہیں ہوتی۔ جب کہ نیکی میں خوش بُو ہوتی ہے، لہٰذا نیک لوگوں کے اعضاء سے خوش بُو آتی ہے۔

اللہ تعالیٰ اپنے پسندیدہ افراد کے اندر نیکی کی خوش بُو اتنی بڑھا دیتا ہے کہ وہ لوگوں کو ظاہر میں بھی محسوس ہوتی ہے۔ خود نبی کریم ﷺ کے پسینۂ مبارک سے اتنی خوش بُو آتی تھی کہ مدینہ منورہ کی دلہنیں بھی وہ پسینۂ مبارک، بہ طور خوش بُو استعمال کرتی تھیں۔ اور آپؐ جس راستے سے گزر جاتے تو وہ راستہ معطر ہوجایا کرتا تھا۔ سیدنا ابوبکرؓ کو اللہ تعالیٰ نے گناہوں سے اس قدر محفوظ کیا ہوا تھا کہ جس کی وجہ سے ان کے جسم سے خوش بُو آیا کرتی تھی۔ حضرت عمرؓ کی روایت ہے کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ کے جسم سے ایسی خوش بُو آتی تھی جو مشک کی خوش بُو سے بہتر ہوا کرتی تھی۔

کئی ایسے نیکوکار بھی ہوتے ہیں کہ ان کے جسم کی خوش بُو قبر کی مٹی کو بھی خوش بُودار بنا دیتی ہے۔ جیسا کہ امام بخاریؒ کو جب ان کو قبر میں دفن کیا گیا تو قبر کی مٹی سے خوش بُو آتی رہے اور آج تک خوش بُو محسوس ہورہی ہے۔ امام عاصمؒ جب مسجد نبویؐ میں جاتے تھے تو وہاں قرآن پاک پڑھا کرتے تھے، ان کے منہ سے خوش بُو آیا کرتی تھی۔ کسی نے پوچھا! حضرت، کیا آپ منہ میں الائچی رکھتے ہیں یا کوئی اور چیز رکھتے ہیں، ہم نے ایسی خوش بُو کبھی نہیں سونگھی۔ وہ کہنے لگے، نہیں بات یہ ہے کہ ایک مرتبہ خواب میں نبی کریم ﷺ کی زیارت نصیب ہوئی تو آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ عاصم! تُو اتنی محبت کے ساتھ قرآن پڑھتا ہے کہ مجھے بہت پسند آتا ہے، آؤ میں تمہارے منہ کو بوسہ دے دوں، جب سے نبی ﷺ نے خواب میں میرے منہ کا بوسہ لیا، اس وقت سے میرے منہ سے خوش بُو آتی ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں بھی گناہوں سے محفوظ فرمائے اور نیک اعمال کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں