’’پاکستان پویلین‘‘ ڈیووس سے…

ڈیووس پاکستان کو دنیا سے مثبت انداز میں متعارف کروانے کے لیے ایک انتہائی اہم موقع ہے۔


اکرام سہگل January 27, 2018

ڈیوس، سوئٹزرلینڈ میں منعقدہ عالمی اقتصادی فورم کے سالانہ اجلاس میں دنیا بھر کی قیادت کو عالمی، علاقائی اور کاروباری سطح پر ایجنڈوں کی تشکیل پر براہ راست اثر انداز ہونے والے حالات کے تناظر میں ایک مشترکہ لائحہ عمل طے کرنے کے لیے جمع کیا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے یہ فورم ایک تخلیقی قوت میں تبدیل ہوچکا ہے۔

پوری دنیا سے اس اجلاس میں شرکت کے لیے عالمی اقتصادی فورم کی رکن سیکڑوں کارپوریٹ کمپنیوں کے مندوبین سمیت حکومتوں اور بین الاقوامی تنظیموں، سول سوسائٹی اور مذہبی تنظیمات، مختلف شعبوں کے ماہرین، میڈیا اور فن کے شعبوں کے تین ہزار سے زائد لیڈر 23 سے 27 جنوری تک ڈیووس میں جمع رہے۔ اس برس فورم کا بنیادی عنوان یا تھیم ''منقسم دنیا کے مشترکہ مستقبل کی تشکیل'' ہے۔

فورم کے بیان کردہ مقاصد میں سے ایک یہ بھی ہے''سیاسی، معاشی اور سماجی سطح پر ابھرنے والی تقسیم کو ہرگز عدم برداشت، تذبذب اور بے عملی کا سبب نہیں بننا چاہیے۔ اسی لیے عالمی اقتصادی فورم کے 48 ویں سالانہ اجلاس میں تمام شعبہ ہائے زندگی کے قائدین کو دنیا کے حالات میں بہتری کے لیے ایک مشترکہ بیانیے کی تشکیل کے مقصد سے جمع کیا گیا ہے۔''

اس فورم میں امریکی صدر، ہمارے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی، اطالوی وزیر اعظم پاؤلو جینٹی لونی، صدرِ فرانس ایمانیول میکخواں، برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے، کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو، ارجنٹینا کے صدر مارسیو میکری، صدر برازیل مائیکل ٹیمر، وزیراعظم ناروے ارنا سولبرگ، سویڈن کے وزیر اعظم اسٹیفن لوفن اور لبنان کی وزارتی کونسل کے صدر سعد الحریری شریک ہوئے۔ اس کے علاوہ اردن کے شاہ عبداللہ دوم اور ملکہ رانیہ، نیدرلینڈز کی ملکہ میکسیما اور سعودی عرب کے شہزادہ ترکی الفیصل نے بھی شرکت کی۔

عالمی بزنس سیکٹر کی نمایندگی کے لیے فیس بک کے شیریل سنبرگ، مائیکروسافٹ کے سی ای او ستیا ندیلا، گوگل کے سی ای او سندر پچائی، مائیکروسافٹ کے بل گیٹس، علی بابا کے چیئرمین جیک ما اور آئی بی ایم کی سی ای او جنی رومیٹی سمیت دیگر شرکا میں شامل ہیں۔

وزیر اعظم عباسی کے ہمراہ وزیر خارجہ خواجہ آصف، وفاقی وزیر سائرہ افضل تارڑ، وزرائے مملکت مریم اورنگزیب اور انوشے رحمان اس جلاس میں شریک ہورہے ہیں۔ گزشتہ اجلاس میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے چار سو سے زائد سیشنز میں سے کسی ایک سے بھی خطاب نہیں کیا تھا۔ اس کے برعکس شاہد خاقان عباسی 24جنوری کو ''بیلٹ اینڈ روڈ امپیکٹ'' کے عنوان سے ہونے والے گفتگو کے پانچ شرکا میں شامل تھے۔وزیر اعظم عباسی عالمی اقتصادی فورم کے خصوصی غیر رسمی اجلاس(آئی جی ڈبلیو ای ایل) میں بھی شریک ہوئے۔پاکستان میں نجی شعبے کے لیے سرمایہ کاری حکومتی نمایندگان اور بزنس لیڈرز کے ساتھ ہونے والی دو طرفہ ملاقاتوں کا بنیادی موضوع رہا۔

پاتھ فائنڈر گروپ اور مارٹن وڈ گروپ کے اشتراک سے ہونے والے روایتی پاکستان بریک فاسٹ کے مہمان خصوصی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی تھے۔ موجودہ اقتصادی اور قومی سلامتی کی صورتحال، خطے میں آنے والی تبدیلیوں اور ان کے پاکستان پر اثرات سمیت پاکستان کے لیے سی پیک کی معاشی اہمیت سے متعلق وزیر اعظم نے قدرے وضاحت سے اظہار خیال کیا۔

پاکستان کے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں کہ چینی مہمانوں نے جینیوا میں تعینات اپنے سفیر سے اس موقعے پر اظہار خیال کی درخواست کی۔ پاکستان بریک فاسٹ میں بلاول بھٹو کی موجودگی بھی ایک یاد گار موقع تھا۔ 24برس قبل مجھے ڈیووس کے کانگریس سینٹر میں ان کی والدہ کے ساتھ بطور معاون شریک ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ وزیر اعظم نے وسعت قلبی سے بلاول کی موجودگی کو سراہا۔ یہ جمہوریت کے لیے کیسا عظیم دن تھا!

اس برس نجی شعبے میں پاتھ فائنڈر گروپ اور مارٹن ڈو گروپ نے پینوراما ہوٹل کے گرین ہاؤس میں ایک چھوٹا مگر بھرپور پاکستان پویلین بھی سجایا۔ عالمی اقتصادی فورم کی تاریخ میں پہلی بار اس پویلین کے ذریعے پاکستان کا سافٹ اور مثبت امیج دنیا کے سامنے لایا گیا۔ تجرباتی بنیادوں پر کیے گئے اس اقدام کی مدد سے آئی ٹی میڈیا کے انٹرپرینیورز اور حکام، فنانشل سروسز(بشمول مائیکروفنانس اور فنانشل انکلوژن)، خدمت خلق اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے پاکستانیوں کو بین الاقوامی سرمایہ کاروں، ماہرین اور حکام سے رابطے کا موقع ملا۔ دو دنوں میں پاکستان سے آنے والے مقررین نے پاکستانی معیشت، صنفی مساوات، امن و امان کی صورت حال اور دیگر موضوعات پر اظہار خیال کیا۔

راقم اور جاوید اکھائی کی دعوت پر ڈاکٹر عشرت حسین نے ڈیووس کا سفر کیا اور پاکستان کو درپیش چلینجز اور مستقبل کے مواقع پر گفتگو کی۔ منگل کو شاٹزائپ میں ہونے والے عشائیے سے خطاب کرنے والوں میں فرگوسن کے شبّر زیدی، پی ٹی سی ایل کے ڈاکٹر ڈینیئل رٹز، اے ای ایس ٹورس(امریکا) سے تعلق رکھنے والے جیری ٹورس، صدر امریکا کے سابق پریس سیکریٹری جیمز روبن، کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر مارک سیگل، ڈاکٹر ہما بقائی، سدرہ اقبال، سی پی این ای کے عامر محمود، سفیر ضمیر اکرم، ایس پی ڈی، جاوید اکھائی اور ضرار شامل تھے۔ سیف الدین زومک والا، وامق زبیری اور فواد رانا و دیگر نے بھی بہت ہمت کی۔

ڈیووس میں پاکستان کے لیے بے پناہ مواقع ہیں۔ پاکستانی سیاسی اور بزنس لیڈرز کی جانب سے عالمی اقتصادی فورم کے سالانہ اجلاس میں شرکت کو اہمیت دینا انتہائی ضروری ہے۔ وہ دنیا جسے ہم اب گلوبل ویلیج کہتے ہیں، تیزی سے باہمی طور پر مربوط ہوچکی ہے اور ٹیکنالوجی میں ہونے والی برق رفتار ترقی، تیزی سے بدلتے حالات اور سیاسی تغیرات سماجی اور اقتصادی سطح پر دور رس اثرات مرتب کررہے ہیں۔

عالمی سطح پر اس قدر تیزی سے تغیرات رونما ہورہے ہیں کہ مختلف امور پر گہری بصیرت کے حصول اور وقت کے تقاضے پورے کرنے کے لیے ہر سطح کی قیادت کا باہمی تبادلہ خیال انتہائی ناگزیر ہوچکا ہے۔ اکثر دوطرفہ ملاقاتیں پاکستان کے لیے انتہائی مفید ثابت ہوسکتی ہیں لیکن ڈیووس کے عالمی اسٹیج پر ہمارا دیرپا سافٹ امیج نمایاں کرنے کی ضرورت ہے۔

دنیا بھر کے امیر ترین، طاقتور اور صاحبان علم کے حلقوں کا اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ عالمی اقتصادی فورم معاشی، سماجی اور سیاسی حوالے سے منعقد ہونے والا اہم ترین ایونٹ بن چکا ہے۔ عالمی اقتصادی فورم کا مشن ''دنیا کے حالات میں بہتری'' ہے جس کا اصل مفہوم عالمی لیڈز کے باہمی تعاون سے عالمی، خطے اور کاروباری ایجنڈے کی تشکیل ہے۔ ڈیووس میں آپ کا بیانیہ نہ صرف سنا جاتا ہے بلکہ اسے سمجھا بھی جاتا ہے۔ یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ کی آواز عوامی سیشن میں بھی سنی جائے۔

مٹھی بھر بزنس مین ڈیوس میں پاکستان کی نمایندگی کا بار گراں نہیں سہارسکتے۔ ڈیووس پاکستان کو دنیا سے مثبت انداز میں متعارف کروانے کے لیے ایک انتہائی اہم موقع ہے، ہمارے بڑے بزنس لیڈرز کو اس پلیٹ فورم میں شرکت کو اہمیت دینی ہوگی، کیوں کہ انھوں نے کاروبار کے میدان میں کامیابیاں حاصل کی ہیں، یہاں بھی ان کا چرچا ہونا ضروری ہے۔

(فاضل مصنف سیکیورٹی اور دفاعی امور کے ماہر ہیں)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔