دنیا کسی کے پیار میں جنت سے کم نہیں
دکھی پریم نگری کو بھی بمبئی کی فلمی دنیا کی چمک دمک اپنی طرف کھینچنے لگی تھی۔
AHMEDABAD:
پاکستان فلم انڈسٹری کے چاکلیٹی ہیرو وحید مراد اور زیبا کی فلم '' جاگ اٹھا انسان '' ایک ایسی فلم تھی جس نے کراچی فلم انڈسٹری کو فلم ''ارمان'' کے بعد ایک بار پھر سے تحفظ دیا تھا اور کراچی کی فلم انڈسٹری میں نیا خون دوڑنے لگا تھا۔ اس فلم کی ہائی لائٹ ایک گیت تھا جسے دکھی پریم نگری نے لکھا تھا اور جن کی موسیقی لال محمد اقبال نے دی تھی۔ اس گیت نے نہ صرف پاکستان بلکہ ہندوستان میں بھی بڑی دھوم مچائی تھی اور اس گیت کو لیجنڈ گلوکار مہدی حسن کے سر نصیب نصیب ہوئے یہ بڑا ہی دلکش اور بڑا ہی مرقع گیت تھا جی چاہتا ہے کہ وہ گیت اپنے دو انتروں سمیت قارئین کی نذر کروں:
دنیا کسی کے پیار میں جنت سے کم نہیں
اک دلرُبا ہے دل میں جو حوروں سے کم نہیں
تم بادشاہِ حسن ہو حسنِ جہان ہو
جان وفا ہو اور محبت کی شان ہو
جلوے تمہارے حسن کے تاروں سے کم نہیں
بھولے سے مسکراؤ تو موتی برس پڑیں
پلکیں اٹھاکے دیکھو تو کلیاں بھی ہنس پڑیں
خوشبو تمہاری زلفوں کی پھولوں سے کم نہیں
یہاں مجھے ایک پرانا محاورہ بڑی شدت سے یاد آرہاہے کہ سو سنار کی ایک لوہار کی اور اس محاورے کے مصداق دکھی پریم نگری کا لکھا ہوا یہ ایک گیت دیگر شاعروں کے لکھے ہوئے ہزارگیتوں پر بھاری ہے اور یہ گیت مہدی حسن کے گائے ہوئے بے شمار گیتوں میں بھی انمول رتن کا درجہ رکھتا ہے۔
دکھی پریم نگری بہت اچھے افسانہ نگار رائٹر اور نامور فلمی صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے شاعر بھی تھے مگر انھوں نے اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کا نہ بمبئی میں اور نہ کراچی میں استعمال کیا وہ تو خدا بھلا کرے فلمساز و ہدایت کار شیخ حسن کا جو جوہرانہ صلاحیتوں کے مالک تھے انھوں نے دکھی پریم نگری کی شاعری کو خوب پرکھا اور ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کا استعمال کیا اور شیخ حسن نے ہی گیت لکھنے پر اکسایا تھا اور ان کے گیتوں کا استعمال پہلی بار کیا تھا۔ اس سے پہلے کہ میں ان کے فلمی گیت نگاری کے سفر کا تذکرہ کروں ان کی ابتدائی زندگی کی کتاب کے چند اوراق پلٹوںگا۔ دکھی پریم نگری جن کا اصلی نام وہاج محمد خان تھا یہ 1917 میں یوپی کے علاقے فیروز پور میں پیدا ہوئے تھے۔
ان کے والد پیشے کے اعتبار سے ایک حکیم اور طبیب تھے پھر کچھ عرصہ بعد یہ اپنے گھر والوں کے ساتھ ناگپور آگئے اور ابتدائی تعلیم انھوں نے ناگپور کے مارس کالج میں حاصل کی اور اسی کالج میں بعد کے نامور ہیرو اشوک کمار اور کشور ساہو بھی انھی کے ساتھ پڑھتے تھے اور ان تینوں میں اچھی خاصی دوستی بھی تھی، مارس کالج کی تعلیم سے فارغ ہوکر اشور کمار اور کشور ساہو اپنے اہل خانہ کے ساتھ بمبئی چلے گئے اور کچھ عرصہ بعد بمبئی کی فلموں میں بطور ہیرو منظر عام پر آئے۔
دکھی پریم نگری کو بھی بمبئی کی فلمی دنیا کی چمک دمک اپنی طرف کھینچنے لگی تھی اور پھر ایک دن ہمت کرکے دکھی پریم نگری نے اپنا مختصر سا سامان سنبھالا اور بمبئی پہنچ گئے یہ 1940 کا زمانہ تھا۔ بمبئی میں قسمت آزمانے کے دوران دکھی پریم نگری نے بھی دکھ کے دن بھی دیکھے اور فاقے بھی کاٹے مگر انھوں نے اپنی ہمت نہیں ہاری اس دوران چھوٹی موٹی ملازمتیں کرتے رہے اور اس دوران انھوں نے بمبئی یونیورسٹی سے بی اے آنرز کی ڈگری حاصل کرلی۔
اس دوران مشہور ادبی رسالے شمع دہلی میں اور بمبئی کے دیگر رسائل میں افسانے بھی لکھتے رہے اور پھر کچھ عرصہ ہفت روزہ مصور بمبئی کے ایڈیٹر بھی رہے اسی دوران انھوں نے اپنا ایک ذاتی رسالا بھی نکالا تھا۔ سنسار۔ سنسار کچھ عرصے کے بعد ہوگیا تو انھیں بمبئی کے ایک اور مشہور ہفت روزہ کہکشاں میں سینئر سب ایڈیٹر کی ملازمت مل گئی۔ کہکشاں اخبار کی فلمی دنیا میں بڑی عزت تھی اور اس طرح بمبئی کے فلم اسٹوڈیوز میں دکھی پریم نگری کی بھی آؤ بھگت ہونے لگی۔
اسی دوران ان کی ملاقات فلمساز اداکار راجکپور سے ہوگئی اور پھر یہ راجکپور پروڈکشن میں بحیثیت اسکرپٹ رائٹر ملازم ہوگئے اور فلمی صحافت کو خیرباد کہہ کر پوری طرح راجکپور پروڈکشن کا ایک فرد بن گئے تھے۔ جب انھیں کچھ سکون ملا اور پھر کچھ پیسہ بھی ہاتھ آیا تو انھوں نے مختلف رسائل میں شایع ہونے والے مشہور افسانوں کا ایک مجموعہ مرتب کیا جو ''سائے'' کے عنوان سے منظر عام پر آیا اور اسے کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔ دکھی پریم نگری راجکپور پروڈکشن کی فلموں کے سیٹ پر آرٹسٹوں کو مکالموں کی ادائیگی کرانے اور صحیح تلفظ کی ادائیگی میں بھی اپنا کردار ادا کرتے تھے اسی دوران ہندوستان کا بٹوارہ ہوگیا اور مسلمان آرٹسٹوں اور رائٹرز کے لیے مشکلات پیدا ہونے لگیں۔
بمبئی اور دہلی میں ہندو مسلم فسادات جب بڑھنے لگے تو دکھی پریم نگری بھی اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور کراچی میں سکونت اختیار کرلی، ابتدا میں کراچی کے ایک مشہور روزنامہ ''انجام'' جس کے ایڈیٹر عثمان آزاد تھے اس میں ملازمت اختیار کی۔ اس اخبار میں مشہور رائٹر ابراہیم جلیس بھی کالم لکھتے تھے اور دکھی پریم نگری نے بھی ملا دو پیازہ کے عنوان سے مزاحیہ کالم کافی عرصہ تک لکھا پھر جب عثمان آزاد کے بھائی الیاس رشیدی نے اس دور کے ایک اور رائٹر ، کارٹونسٹ اور صحافی ابن حسن نگار سے ان کا ہفت روزہ اخبار نگار خریدا اور اسے مکمل فلمی ہفت روزہ کا روپ دے دیا تو دکھی پریم نگری اپنے بمبئی سے فلمی صحافتی تجربے کے ساتھ ہفت روزہ نگار میں سینئر ایڈیٹر کے طور پر کام کرنے لگے۔ نگار آہستہ آہستہ پاکستان کا سب سے بڑا فلمی ہفت روزہ بن گیا اور جب نگار پبلک فلم ایوارڈ کا اجرا کیا گیا تو نگار ویکلی فلم انڈسٹری کی ضرورت بنتا چلا گیا تھا اور الیاس رشیدی نے پھر دکھی پریم نگری کو کہیں اور جانے نہ دیا۔
دکھی پریم نگری آخری دم تک نگار ویکلی کا دم بھرتے رہے اور کراچی کی فلم انڈسٹری دکھی پریم نگری کا گھر آنگن ہوگئی تھی۔ کراچی کی ہر دوسری فلم میں دکھی پریم نگری کے گیت ضرور ہوتے تھے۔ دکھی پریم نگری نے سب سے پہلے ہدایت کار شیخ حسن کی فلم ''شہناز'' کے لیے مکالمے اور گیت لکھے تھے۔ ان کا جو پہلا گیت تھا اس کے بول تھے:
تقدیر نے ہنساکے ہمیں پھر رُلایا
یہ گیت اس دور کی گلوکارہ امیر بائی کرناٹکی کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ مگر یہ فلم کامیاب نہ ہوسکی تھی پھر شیخ حسن سندھی زبان کی فلموں کی طرف متوجہ ہوگئے تھے مگر دکھی پریم نگری کو وہ کسی صورت میں بھی نہیں بھولے تھے، سندھی فلموں سے ہٹ کر شیخ حسن دوبارہ سے اردو فلموں کی طرف آگئے اور جب انھوں نے اردو فلم ''لاکھوں فسانے'' بنائی تو دکھی پریم نگری پھر سے ان کے ساتھ تھے۔
شیخ حسن کی اس فلم کو کافی کامیابی نصیب ہوئی تھی مگر دکھی پریم نگری کو جس فلم کی گیتوں نے شہرت کی بلندی عطا کی وہ فلم تھی ''جاگ اٹھا انسان'' پھر دکھی پریم نگری نے کراچی کے بیشتر فلموں کے مکالمے اور گیت لکھے جن میں ''جھک گیا آسمان، روٹھا نہ کرو، نادان، گاتا جائے بنجارا، انسان بدلتا ہے، جنون، باپ کا باپ اور فنٹوش وغیرہ کے نام شامل ہیں۔ ان کے لکھے ہوئے جن گیتوں کو عوام الناس میں پذیرائی حاصل ہوئی ان کے کچھ مکھڑے بھی قارئین کی دلچسپی کے لیے ذیل میں درج ہیں:
دنیا کسی کے پیار میں جنت سے کم نہیں (فلم جاگ اٹھا انسان)
جب ساون گھر گھر آئے (فلم جاگ اٹھا انسان)
ستیااناڑی سے نیناں لگا بیٹھی (فلم نادان)
ذرا کنگنے سے کنگنا بجا گوریے (فلم نادان)
چمن کے گلوں کو یوں ہنس کر نہ دیکھو (فلم جھک گیا آسمان)
نہ شیشہ ہے نہ پیمانہ ہے اپنا (فلم آنچل اور طوفان)
تیری پہلی نظر او جادوگر (فلم لاکھوں فسانے)
کیسا گھروندا ٹوٹا (فلم گھروندا)
بچپن کی وادیوں سے (فلم گھروندا)
ڈم ڈم باجے ڈومری (فلم گھروندا)
بندیا جو چمکی (فلم گاتا جائے بنجارا)
تم ملے مل گئی زندگی (فلم روٹھا نہ کرو)
دکھی پریم نگری سے میری بہت باتیں بھی رہیں اور ملاقاتیں بھی رہیں وہ جب نگار ویکلی کے سینئر ایڈیٹر تھے تو میں نگار ویکلی کے شعبہ ادارت میں تھا۔ وہ جب بھی میری شاعری سنتے تھے تو برملا کہتے تھے یونس ہمدم تمہاری جگہ کراچی نہیں لاہور کی فلم انڈسٹری ہے پھر دکھی پریم نگری ہی کے کہنے پر مدیر نگار الیاس رشیدی نے مجھے لاہور میں نگار کا نمایندہ خاص بناکر بھیجا تھا اور میں یہاں یہ بات بتاتا چلوں کہ جس طرح بمبئی کی فلم انڈسٹری میں دکھی پریم نگری کی وساطت سے حسرت جے پوری پہنچے تھے اسی طرح لاہور کی فلم انڈسٹری میں جانے کے لیے دکھی پریم نگری نے ہی میرے لیے راہ ہموار کی تھی وہ میرے محسن تھے۔ وہ بہت ہی کشادہ دل انسان تھے، خلوص اور ایثار ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، انھوں نے زندگی میں کبھی کسی سے کچھ مانگا نہیں بلکہ دل کھول کر کچھ دیا ہے وہ بہت ملنسار، خوش گفتار، خوش پوش اور محبت بھرے انسان تھے۔ آج دکھی پریم نگری اس دنیا میں نہیں ہیں مگر ان کا ایک ہی گیت ہمیشہ گیت نگاری کی تاریخ کا روشن باب بن کر رہے گا۔ اﷲ ان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے (آمین۔)