ہم دشمن سے سبق سیکھ سکتے ہیں
کوئی ایسا ہے جو بھارتی وزیر اعظم کے اِس تازہ اقدام سے سبق سیکھ کر کالا باغ ڈیم کی متنازع بیل کو سِرے چڑھا سکے؟
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی 67ویں سالگرہ کے موقع پر بھارت کے مغربی صوبے، گجرات، میں سردار سروور ڈیم کا افتتاح کیا ہے۔ ساٹھ ارب ڈالر کے اخراجات سے یہ ڈیم دریائے ''نرمدا'' پر تعمیر کیا جارہا ہے۔ یہ بھارت کا سب سے بڑا اور دنیاکا دوسرا عظیم ترین ڈیم ہوگا ( دنیا کا سب سے بڑا ''گرینڈ کُولی'' نامی ڈیم امریکا میں ہے) دریائے نرمدا بر صغیر پاک وہند کا پانچواں اور بھارت کا تیسرا بڑا دریا ہے۔ لمبائی 1312کلومیٹر ۔ اِس کا منبع و مخرج بھی بھارت ہی ہے اور یہ بھارت کے اندر ہی بہتا ہے اور آخر کار بحیرئہ عرب میں جا گرتا ہے۔
یہ ڈیم 2022ء میں مکمل ہوگا۔ نریندر مودی نے مذکورہ ڈیم کی دیو ہیکل جھیل میں ''بطورِ برکت'' پھول پھینکتے ہُوئے کہا: ''مَیں جانتا ہُوں اِس ڈیم کی برسہا برس سے مخالفت ہوتی رہی ہے۔ اِس کی تعمیرو تشکیل میں بار بار رکاوٹیں ڈالی گئیں۔ کبھی عدالتوں کے احکامات کی بنیاد پر اور کبھی مخالف سازشیوں نے جلسے جلوسوں کی طاقت سے لوگوں کو گمراہ کرکے اِس کی راہ کھوٹی کرنے کی کوشش کی گئی۔ بھارتی ترقی کے مخالفین نے اِس ڈیم کی مخالفت کرتے ہُوئے قوم کے کئی برس نہیں بلکہ کئی عشرے برباد کردیے۔
اِسے متنازع بنا دیا گیا تھا۔ہماری حکومت نے مگر یہ تکمیل ممکن بنا دی ہے۔اب کوئی رکاوٹ ڈال سکتا ہے نہ ڈال سکے گا۔یہ ماحولیات والے شور مچاتے رہتے ہیں، اِنہیں شور مچانے دیجیے۔ہمیں تو بھارت کی صنعتی ترقی اور کسان کی خوشحالی مدِ نظر رکھنی ہے کہ اِس ڈیم سے لاکھوں کسانوں کی خوشحالی وابستہ ہے، 55 ہزار ایکڑ رقبہ سیراب ہوگا، 9 ہزار گاؤںمیں نہریں جائیں گی اور چار کروڑ گجراتیوں کو پینے کا صاف پانی ملے گا۔اِس ڈیم سے جو بجلی پیدا ہوگی، وہ انصاف کی بنیادوں پر تینوں صوبوں گجرات، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹرمیں تقسیم کی جائے گی۔
میری گزارش بس یہ ہے کہ ماضی کی طرح اب نعروں،تحریکوں اور جلسے جلوسوں کی شکل میں اِس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔''کیا پاکستان کا کوئی حکمران متنازع بنا دیے جانے والے کالا باغ ڈیم کی تعمیرکے لیے ایسے اخلاص کا مظاہرہ کر سکتا ہے؟ وطنِ عزیز کی جن قوتوں اور گروہوں کو بوجوہ کالاباغ ڈیم سے پرخاش ہے، کیا اُنہیں قوم اور ملک کے وسیع تر مفاد میں اُسی طرح ایک پیج پر لایا جا سکتا ہے جس اسلوب میں نریندر مودی صاحب متنازع سردار سروور ڈیم کے مخالفین کو اپنے ملک کے مفاد میں رام کر چکے ہیں؟
اگر یہ کہا جائے کہ سردار سروور ڈیم بھارتی تاریخ کا متنازع ترین پراجیکٹ تھا تو یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا۔ اِس تنازع کو اتفاق میں تبدیل ہونے کے لیے 57سال لگے ہیں اور آخر کار کامیابی نریندر مودی کا مقدر بنی ہے۔ عشروں قبل اِس ڈیم کی تعمیر کا اوّلین خواب سردار ولبھ بھائی پٹیل نے دیکھا تھا جنہیں بھارتی سیاست و تاریخ میں نہائیت احترام سے دیکھا جاتا ہے(اِسی لیے اب اِس ڈیم کو اُنہی کے نام سے موسوم کیا گیا ہے)ابتدا ہی میں مگر یہ منصوبہ قبائلی اور سیاسی مخالفتوں کا شکار بن کر متنازع ہو گیا تھا۔پھر اِس تنازع میں علاقائی اور عالمی ماحولیات والے بھی گھس گئے۔
بھارت کے پہلے وزیر اعظم، جواہر لعل نہرو، نے 1961ء میں اِس ڈیم کا سنگِ بنیادرکھا تھا لیکن مختلف النوع تنازعات کی وجہ سے یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔گجرات، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹرتینوں صوبے باہم دست و گریباں ہو رہے تھے، اِس اساس پر کہ ڈیم بننے کے بعد اُن کے حصے کا پانی دوسرا صوبہ غصب کر لے گا۔ بہت سے قبائل اور تنظیمیں بھی بھارتی سپریم کورٹ میں چلی گئیں، اِس دعوے کے ساتھ کہ ڈیم بننے سے اُن کے گھر اور گاؤں اُجڑ جائیں گے، لاکھوں ایکڑ زمین ڈیم نگل جائے گا، ڈیم کے پانی کے منفی اثرات سے متصل شہر اور زمینیں سیم وتھور کا شکار بن جائیں گی اور یہ کہ سب سے آخر(نشیب) میں آنے والی زمینیں پانی سے محروم ہو جائیں گی۔
بھارت کے ہر شہر میں حکومت اور حکمرانوں کے خلاف مظاہرے ہونے لگے۔ ارُن دھتی رائے اور میدھا پاٹیکر نامی ان دونوں خواتین نے تو انسانی حقوق کی پامالی کے نام پر آسمان سر پر اُٹھا لیا ۔ اُن کی ایما پر دریائے نرمدا کے آس پاس بسنے والے لاکھوں دیہاتی اور قبائلی متحد ہو کر ڈیم کے خلاف دھر نے دینے لگے تھے؛ چنانچہ بھارتی سپریم کورٹ نے ایک بار پھر ڈیم کی تعمیر روک دی۔ دباؤ میںبھارتی حکومت کو وہ قرضہ بھی منسوخ کرنا پڑا جو ورلڈ بینک سے خاص اِس ڈیم کی تعمیر کے لیے حاصل کیا گیا تھا۔
مئی2014ء میں نریندر مودی وزیر اعظم بنے تو اُنہوں نے پہلے دن ہی سے یہ کوششیں شروع کر دی تھیں کہ بھارت کے اِس سب سے بڑے ڈیم کو بنانا اور ہر صورت میں اس کے تمام جھگڑوں کو ختم کرنا ہے۔ وہ پچھلے ساڑھے تین سال سے مسلسل اِن کوششوں میں لگے تھے۔ اُنہوں نے طاقت، لالچ اور حکمت کے ہتھیاروں سے لَیس ہو کر متذکرہ ڈیم کے تینوں فریق صوبوں کے ذمے داران سے بار بار ملاقاتیں کیں۔
درجنوں اعلیٰ سطحی ملاقاتوں کے بعد آخر کار وہ متحارب اور متصادم فریقوں کو رام کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اور اب نریندر مودی نے فخر سے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ سردار سروور نامی بھارت کا سب سے بڑا اور دنیا کا دوسرا بڑا ڈیم بنانے جا رہے ہیں جو ٹھیک پانچ سال بعد مکمل ہو جائے گا کہ اِس کا بنیادی ڈھانچہ تو پہلے ہی تکمیل کے مراحل طے کر چکا ہے ۔نریندر مودی کو 57سال بعد ڈیم بنانے میں کامیابی ملی ہے۔ دیکھا جائے تو بھارتی سردار سروور ڈیم کی کہانی پاکستان کے کالا باغ ڈیم سے مختلف نہیں ہے۔
ویسے ہی شکوے، وہی فریقین کے خدشات، اُسی طرح کی صوبائی دھینگا مشتی، ڈیم سے نکلنے والی نہروں کے حوالے سے پانی کی تقسیم کے وہی جھگڑے۔ سوال مگریہ ہے کہ آیا ہمارے درمیان کوئی ایسا حکمران، کوئی ایسا سیاستدان ، کوئی ایسا مدبّرہے جو نریندر مودی کی طرح قومی اخلاص اور قومی درد کا مظاہرہ کرتے ہُوئے کالا باغ ڈیم کے جملہ فریقوں کے خدشات و تفکرات دُور کر سکے؟ کوئی ایسا ہے جو بھارتی وزیر اعظم کے اِس تازہ اقدام سے سبق سیکھ کر کالا باغ ڈیم کی متنازع بیل کو سِرے چڑھا سکے؟
ابھی تو ہمیں بھاشا ڈیم، نیلم جہلم ڈیم، ستپارہ ڈیم، نولنگ ڈیم، میرانی ڈیم، داسو ڈیم، اکھوڑی ڈیم وغیرہ بنانے ہیںاور اُنہیں پاکستان کی بڑھتی ہُوئی توانائی اور پانی کی ضرورتوں کے مطابق استوار کرنا ہے۔ ان کے لیے حاصل کردہ قرضوں پر سُود تو دن رات بڑھ رہا ہے لیکن کام آگے نہیں بڑھ رہا۔بلوچستان میں بھی کئی ''موسمی دریاؤں'' پر کئی ڈیم بنانے کی فیزیبلیٹی تو بنا ئی جا چکی ہے لیکن ڈیم بنانے کے لیے ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔ ہمارے لیے اُمید کی ایک کرن یوں روشن ہُوئی ہے کہ اگر بھارت 57سال کے طویل جھگڑوں کے بعد اپنا سب سے بڑا ڈیم بنانے میں کامیاب ہو سکتا ہے تو ہم بھی کالا باغ ڈیم بنانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
اگر ایسا نہ ہوسکا تو ہم بڑے خسارے میں رہیں گے کہ ابھی کل ہی پاکستانی سینیٹ کو ''ارسا''(The Indus River System Authority)نے خبردار کرتے ہُوئے بتایا ہے کہ (کالاباغ ڈیم نہ بننے کی وجہ سے) پاکستان ہر سال 21بلین ڈالرز کا پانی ضایع کررہا ہے۔تازہ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ پاکستان دنیا کے اُن پانچ ممالک کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے جہاں پانی کی شدید قلّت ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ساٹھ سال قبل پاکستان میں فی کس پانی دستیابی 5260کیوبک میٹر تھی اور اب کم ہو کر یہ 900کیوبک میٹر رہ گئی ہے۔ اگر جَلد ڈیم نہ بنائے گئے تو 2035ء تک وطنِ عزیز میں فی کس آبی دستیابی 500کیوبک میٹر رہ جائے گی۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔