شہباز شریف قصور وار ہیں

قصور میں تین سوبچوں کے جنسی اسکینڈل کا واقعہ الٹی میٹم تھامگر وزیراعلی پنجاب نے اس پر کان نہیں دھرا، بلکہ پشت پناہی کی


میاں عمران احمد January 29, 2018
زینب جیسے سانحے کی ماں قصور میں تین سو بچوں سے جنسی زیادتی کا اسکینڈل تھا۔ فوٹو: انٹرنیٹ

''وزیراعظم پاکستان؟ نہیں نہیں! وزیراعلی پنجاب، نہیں نہیں! وزیر قانون پنجاب، نہیں وہ نہیں! شاید ڈی پی او قصور، نہیں! شاید آئی جی پنجاب، نہیں نہیں! چیف جسٹس پاکستان؟ نہیں شاید وہ بھی نہیں۔ شاید میری پھوپھو؟ نہیں نہیں وہ بھی نہیں۔ شاید میری ماں اور میرا باپ؟ نہیں نہیں وہ بھی نہیں۔ شاید دو سال پہلے تین سو بچوں کی پورن فلمیں بنا کر بیچنے والا ن لیگ کا ایم پی اے، شاید کراچی میں زیادتی کا نشانہ بننے والی طوبیٰ کا واقعہ؟ نہیں شاید فیصل آباد کے مدرسے میں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بننے والے طالب علم کا واقعہ؟ نہیں نہیں شاید قصور میں مجھ سے پہلے گیارہ بچیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے واقعات؟ نہیں نہیں! میرا خیال ہے کہ آپ میں سے کوئی بھی مجھے نوچے جانے کا، میری بے حرمتی کا، میرے کھلنے سے پہلے مرجھا جانے کا، مجھے ذلت اور رسوائی کی علامت بنانے کا، مجھے معصوم سے منحوس بنانے کا اور سب سے بڑھ کر مجھے بے قصور موت دینے کا ذمہ دار نہیں۔ میں کنفیوز ہوگئی ہوں کہ میری موت کا ذمہ دار کون ہے؟ لہذا میں نے اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑدیا ہے۔ اب وہی انصاف کرے گا اور بے شک وہ انصاف کرنے والا ہے۔ زینب امین۔''

زینب نے تو اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا ہے لیکن اس طرح کے واقعات کا راستہ روکنے کےلیے عوام کو ذمہ داروں کو تعین کرنا ہوگا۔ ذمہ داروں کا تعین کرنے کےلیے آپ کو اگست 2015 میں جانا ہوگا کہ جب ضلع قصور کے گاؤں حسین خان والا میں پاکستانی تاریخ کا سب بڑا چائلڈ سیکس اسکینڈل سامنے آیا۔ اس اسکینڈل نے پاکستانی عوام کو ہلا کر رکھ دیا۔ ملزم بچوں کو ایک حویلی میں لے جاتے، انہیں نیم بے ہوشی کے انجکشن لگاتے، ان کے ساتھ زیادتی کرتے، ان کی ویڈیو بناتے اور بعد ازاں ان ویڈیوز کو دکھا کر بچوں کو بلیک میل کرتے تھے۔ یہ سلسلہ برسوں سے جاری تھا۔

بشیراں بی بی کا بیٹا بھی متاثرہ بچوں میں شامل تھا۔ اس نے پولیس کو رپورٹ کیا۔ دن رات کی محنت کے بعد ایف آئی آر درج ہوئی لیکن پولیس اور مجرموں کے گٹھ جوڑ کے باعث ملزم گرفتار نہ ہوسکے۔ بشیراں بی بی کو دیکھ کر دیگر والدین نے بھی ہمت کی اور پولیس کے خلاف مین روڈ پر احتجاج شروع کردیا۔ بات میڈیا تک پہنچی اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک اور بدنامی کا ٹیکا پاکستان کے جھومر میں سج گیا۔

وزیر اعلی نے حسب معمول نوٹس لیا، ڈی پی او اور ایس ایچ اور کو معطل کیا اور ملزموں کو فوری گرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔

تحقیقات کے دوران پتا چلا کہ اس گھناؤنے عمل کے پیچھے ن لیگ کے ایم پی اے ملک احمد سعید کی سرپرستی ہے۔ اس واقعے کی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ وہ فلمیں بلیک ورلڈ میں بیچی جاتی تھیں اور ان کے عوض لاکھوں ڈالر کمائے جاتے تھے۔ یہاں میں اس بات کو واضح کردوں کہ نارمل پورن ویب سائٹس اور بلیک ورلڈ میں فرق ہوتا ہے۔ نارمل پورن ویب سائٹس تک عام شخص کی رسائی آسان ہے لیکن بلیک ورلڈ تک رسائی بااثر اور طاقتور افراد کے بغیر ممکن نہیں۔

پوری دنیا میں پورن ویب سائٹس بچوں کے سیکس کی ویڈیوز جاری نہیں کرسکتیں اور ایسا کرنے والے کو جیل اور جرمانے کی سزا دی جاتی ہے۔ لہذا یہ ویڈیوز صرف بلیک ورلڈ میں ہی بکتی ہیں۔ پولیس سمیت حسین خان والا گاؤں کا بچہ بچہ بھی جانتا ہے کہ ن لیگ کے ایم پی اے ملک احمد سعید کی آشیرباد کے بغیر گاؤں میں یہ ویڈیوز بننا اور بکنا ناممکن ہے۔ لیکن وزیراعلی صاحب نے اس کیس کے ساتھ کیا کیا؟ انہوں نے انسانی سفاکی کے کیس کو سیاسی کیس کا رنگ دے دیا۔ انسانی بے حرمتی کے کیس کو زمین کے جھگڑے کا کیس بنا دیا۔

پنجاب حکومت اور پولیس کے گٹھ جوڑ نے سیکس اسکینڈل کو پراپرٹی اسکینڈل میں بدل دیا جبکہ اس معاملے کا پراپرٹی سے کچھ واسطہ نہیں تھا۔ آج بھی کیس عدالتوں میں چل رہا ہے۔ ملزم سرعام آزاد گھوم رہے ہیں اور مظلوموں کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں لیکن نہ تو وزیراعلی صاحب نے اس کا نوٹس لیا ہے اور نہ ہی لینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ البتہ جس دن یہ کیس دوبارہ میڈیا پر آگیا، اس دن شہباز شریف صاحب کا ضمیر بھی جاگ جائے گا۔ وہ انگلی ہلا ہلا کر ڈی پی او کو ایک مرتبہ بھی معطل کردیں گے لیکن انصاف کی فراہمی میں کوئی دلچسپی نہیں لیں گے۔

قصور میں تین سوبچوں کے سیکس اسکینڈل کا واقعہ الٹی میٹم تھا لیکن وزیراعلی پنجاب نے اس الٹی میٹم پر کان نہیں دھرا۔ انہوں نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا۔ انہوں نے اس کیس میں ملوث ن لیگ کے ایم پی اے سعید احمد خان کی پشت پناہی کی ہے اور اسی پشت پناہی نے زینب کی کہانی کو جنم دیا ہے۔ وہ واقعہ زینب اور اس سمیت بارہ لڑکیوں کے ساتھ ہونے والے حادثات کی ماں ہے۔ اگر اس واقعے کے ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچا دیا جا تا تو آج زینب اور کائنات سمیت بارہ بچیاں اس ظلم کا شکار نہ ہوتیں۔

اس بلاگ کو بھی پڑھیے: زرد صحافت کی ایک اور بدترین مثال

عوام ان حقائق کو سامنے رکھیں اور فیصلہ کریں کہ زینب کی موت کا ذمہ دار کون ہے؟ یقیناً آپ اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ شہباز شریف ہی قصور وار ہیں۔

وزیر اعلی صاحب! انصاف کا وجود جزا اور سزا کے نظام کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ انسان کی اصلاح بھی اسی نظام کی ہی محتاج ہے۔ اگر جزا اور سزا کے نظام کے بغیر اصلاح آسکتی تو انسان جیسی پیچیدہ مشین بنانے والا اللہ اسے کامیاب طریقے سے چلانے کےلیے کبھی بھی جزا اور سزا کا نظام متعارف نہ کرواتا۔

آپ ہزاروں سال کی انسانی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے، آپ اسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ جو معاشرے جزا اور سزا کا منصفانہ نظام قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے، وہی مثالی معاشرے کہلائے ہیں اور جن معاشروں نے انصاف کے نام پر صرف گونگلوؤں پر سے مٹی جھاڑی ہے، وہاں تین سو بچوں کی پورن فلمیں اور زینب جیسے واقعات انصاف کے نام پر سوالیہ نشان بنتے رہے ہیں۔

اگر آپ زینب جیسے واقعات کی روک تھام کےلیے سنجیدہ ہیں تو میری آپ سے گزارش ہے کہ زینب کیس کی انکوائری کے ساتھ ساتھ تین سو بچوں کی پورن فلمیں بنانے والے کیس کو بھی سنجیدہ لیجیے۔ اگرمظلوموں کو انصاف دلانے کےلیے آپ کو اپنے ایم پی اے کی قربانی بھی دینا پڑتی ہے تو دے دیجیے۔ اس سے نہ صرف ملک میں انصاف فراہم کرنے کی نئی مثال پیدا ہوگی بلکہ زینب جیسے واقعات رک جائیں گے اور آپ کا وقار بھی عوام کی نظروں میں بلند ہو جائے گا؛ اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آنے والی نسلیں آپ کو غیر منصف حکمران کے نام سے یاد رکھیں گی اور مؤرخ آپ کو زینب کی کہانی کا قصور وار لکھتے رہیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔