ترستی ہے زباں میری
ہر زبان کی ترقی ضروری ہے مگر قومی زبان کی قربانی دے کر نہیں۔
PESHAWAR:
قوموں کے تشخص میں لباس، رہن سہن، طور طریقے، بول چال، ثقافت، رسم و رواج، تعلقات نمایاں ہیں، ان کے بعد علم و ادب اور اس کے معیار، قدامت اور ترقی کے مدارج دیکھے جاتے ہیں اور یوں قوموں کا دنیا میں اندراج اور شمار ہوتا ہے آج بھی دنیا کے کچھ علاقے اور قومیں ایسی ہیں کہ جن کی تعداد سو پچاس سے زیادہ نہیں رہی مگر وہاں ایک زبان رائج ہے اور معدومی کے خطرے سے دوچار ہے۔
اگر دنیا ایک طرف چاند اور سورج کی طرف دیکھ رہی ہے تو دوسری طرف اس نے اپنی اقدار، روایات، طورطریقوں اور علم و ادب کا بہت نقصان کرلیا ہے، انگریزی، فرنچ، چینی، جرمن، روسی، جاپانی اور سیکڑوں ملکوں کا نام لیا جاسکتا ہے کیا ان کی وہ قدیم زبان باقی ہے یا زبان میں قدامت ہے، جواب نہیں ہے۔
مگر زبان باقی ہے، ہر ملک میں کئی زبانیں بولی جاتی ہوں گی اور بولی جاتی ہیں،کچھ ملک تو کثیر اللسانی ملک ہیں مگر ہر ملک کی ایک زبان دنیا میں نمایندہ زبان ہوتی ہے اور اسے ہر علاقے کا رہنے والا بولتا سمجھتا ہے۔ مگر دو ملک دنیا میں ایسے ہیں جو اس قدر پر پورے نہیں اترتے حالانکہ ہر آنے والا حکمران اس پر پورا اترنے کا اعلان کرتا ہے مگر خود اترکر چلا جاتا ہے مسئلہ وہیں رہتا ہے۔
یہ دو ملک ہیں بھارت اور پاکستان۔ دونوں کثیر اللسانی ملک ہیں۔ تقسیم کے بعد بھارت نے مسلمانوں سے نفرت کی وجہ سے وہاں رائج فارسی کے بطن سے پیدا قدیم زبان اردو کو مسلمانوں کے ساتھ دیس نکالا دے دیا اور انتہائی مشکل ہندی کو رائج کیا مگر ستر سال کی کاوش کے باوجود وہ اردو سے دامن نہ چھڑا سکا جو پورے برصغیر کی زبان تھی اور کسی حد تک اب بھی ہے۔
بھارت میں خاص طور پر اردو بولنے والے علاقوں میں آج بھی اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ حالانکہ حکومت سخت کوشش کرتی ہے کہ اس کی حوصلہ افزائی نہ ہو، عام طور پر بھارت کے آس پاس کے ملکوں میں بھی اردو سمجھی اور بولی جاتی ہے کیونکہ بہت زیادہ زبانوں اور ذات پات کے تعصب کی وجہ سے صرف اردو ہی وہ زبان ہے جو آپس میں رابطے کا ذریعہ ہے۔
بنگلہ دیش سابق مشرقی پاکستان میں اس حصے کے غداروں نے زبان کی بنیاد پر ایک خونریزکہانی شروع کی اور بھارت سے جو مسلمانوں اور پاکستان کا ازلی دشمن ہے مدد لے کر بنگلہ دیش قائم کیا، اس کی سزا قدرت نے کچھ فوری دے دی کہ اہم ترین کردار موت کے گھاٹ اترگئے جلد یا بدیر تینوں ملکوں میں۔
اور بقیہ سزا وہ بھگت رہے ہیں اور بھگتیں گے، مگر اردو کو ختم نہ کرسکے وہاں سے اور وہاں کا بنگالی اردو جانتا ہے سمجھتا ہے اور کسی حد تک بولتا بھی ہے، میانمار کا بھی یہی حال ہے، سری لنکا، نیپال، بھوٹان سب جگہ اردو باقی ہے انگریز بھی اردو سمجھتا ہے جانتا ہے۔ چائنیز سیکھ رہے ہیں اردو، بھارت ہندی زبان کا داعی اب تک مکمل ہندی کامیاب نہ کراسکا، ستر فیصد اردو ہوتی ہے ان میں۔
قائد اعظم محمد علی جناح اور فاطمہ جناح نے مغربی ماحول میں پرورش پائی تھی اور ان کی اردوکمزور تھی مگر دونوں عوامی اجتماعات میں اردو میں خطاب کرتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ پاکستان کی اکثریت کو آج اورکل یہی زبان بولنی ہے اور بولی جائے گی اور یہی پاکستان کی قومی زبان ہوگی۔
مسلم لیگ کے اس وقت کے رہنماؤں کی اکثریت کی انگریزی، انگریز سے اچھی تھی مگر وہ اردو میں بات چیت اور تقاریر کرتے تھے ۔ غیر منقسم ہندوستان جس میں انگریز کے وقت یہ علاقہ بھی شامل تھا جو اب پاکستان ہے اردو کی پیدائش اور پروان چڑھنے کی جگہ ہے اور جیساکہ ہم نے بیان کیا بھارت تمام ترکوشش کے باوجود اردوکو شکست نہیں دے سکا نہ دے سکے گا اور ایسی چیزیں منظر عام پر آتی رہتی ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے۔
ایک خبر کے مطابق بھارتی ریاست تلنگانہ میں اردو دوسری سرکاری زبان بن گئی۔ یہ پہلی ریاست ہے جہاں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ ملا ہے۔ وہاں کی صوبائی اسمبلی نے قانون منظور کرتے ہوئے اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دے دیا۔ 31 اضلاع میں اردو زبان بولنے والے خاصے لوگ آباد ہیں۔ 2014 میں حیدرآباد دکن کے ذرایع کے مطابق یہ ریاست وجود میں آئی اور پاس کے دس اضلاع کو گزشتہ سال تنظیم نوکرتے ہوئے 31 میں بانٹا گیا۔ اردو بولنے والوں کی آبادی میں 2.68 کی شرح سے اضافہ ہوا ہے۔ دہلی بھی یہ کرچکا ہے۔
ستر سال پاکستان کو قائم ہوئے ہوگئے اور یہاں ہم تمام علاقوں میں اپنی زبان رابطے کے لیے جو کر رہے ہیں وہ اردو ہے۔ انجمن ترقی اردو نام کا ادارہ بھی قائم ہے بڑے بڑے نام اس میں آتے ہیں جو اس کے سربراہ رہے اردو شعرا، اور ادیب بھی پیدا ہوئے۔ صوبائی زبان اختیار کرنے کے سلسلے میں سندھ نے سب کا ساتھ نہیں دیا اور اردو کو صوبائی زبان دفتری کے طور پر بھی قبول نہیں کیا، لسانی فسادات کا یہ نتیجہ تھا۔
حکومت نے بھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی بلکہ اپنی قومی زبان کو ریڈیو میں دیا ہوا 50اور 40 فیصد ٹائم 30 فیصد کردیا اور ریڈیو کے پروگراموں کو توجہ سے محروم کرکے ان کی جگہ اپنی شہرت کا ڈھنڈورا پیٹنے کے لیے نام نہاد ریڈیو سے قومی پروگرام ہوتے رہتے ہیں۔ ریڈیو کو مالی طور پر غیر مستحکم کردیا ہے۔ ریڈیو ہی عوام سنتے ہیں، مگر ریڈیو کی حکومت نہیں سنتی اور بجٹ محدود کرکے اپنے خاص لوگوں کو کانٹریکٹ پر بھرتی کرکے پروگرام کے بجٹ کو استعمال کیا جا رہا ہے۔سپریم کورٹ آف پاکستان آرڈر کرچکی ہے کہ اردو کو قومی زبان کے طور پر نافذ کیا جائے دفتروں میں مگر اس پر سالوں گزرنے کے باوجود عمل نہیں کیا جا رہا۔
جب آپ نے مقامی ایف ایم اسٹیشن قائم کردیے ہیں تو میڈیم ویو اسٹیشنوں سے اردو پروگراموں کا وقت زیادہ سے زیادہ ہونا چاہیے تاکہ ہم آہنگی پیدا ہوسکے۔
ٹیلی وژن کو فیس وصولی اور دوسری ناجائز مراعات کے باوجود وہ کوڑے کا ڈھیر ہے اور صرف سیاسی لیڈری چمکانے کے کام آرہا ہے اور جھوٹ کا پلندہ ہے۔ پرائیویٹ چینل اربوں کما رہے ہیں اور یہاں اربوں کا خسارہ، کام کچھ نہیں، نہ قوم کی خدمت نہ زبان کی بے معنی اچھل کود اور اعلیٰ عہدے پر خوشامدیوں کی تقرریاں۔ دنیا میں کوئی مقام نہیں۔ عوام کے ٹیکس کا پیسہ عیاشیوں میں صرف ہو رہا ہے۔
حکومت کی بس پیسہ جمع کرنے کی پالیسی ہے ٹیکسوں کی صورت، غریب فن کاروں پر بھی 20 فیصد سے زیادہ ٹیکس لاگو ہے اور اسے ادائیگی میں سے کاٹ لیا جاتا ہے جو ایک سنگین ظلم ہے اس مہنگائی کے دور میں کون سوچے،کون روکے۔
ان سب چیزوں کا تعلق زبانوں اور خاص طور پر قومی زبان سے ہے، صرف اشتہارات سے زبانیں ترقی نہیں کرتیں۔ کام کرنا پڑتا ہے، مفادات سے بالاتر ہونا پڑتا ہے۔ نام نہاد ادارے اور کانفرنسیں صرف طعام و قیام سیر و تفریح اور سفرنامے لکھنے کے کام آسکتی ہیں زبان کو قوم کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ قوم میں زبان کی تعلیم ہوگی تو مشاعرے سمجھ میں آئیں گے ورنہ دس بارہ ہزار لوگوں کا جمعہ بازار ہے۔
ہر زبان کی ترقی ضروری ہے مگر قومی زبان کی قربانی دے کر نہیں۔ نشریاتی ادارے درست کرنے کی ضرورت ہے، ان کے مالی معاملات خاص طور پر اور زبانوں کی ترقی کے ادارے درست کرنے اور ان پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور پاکستان کی پہچان اردو زبان کو حقیقی اور جائز مقام دے کر تعلیم کا ذریعہ مادری زبان قرار دیا جائے اردو بھی اور دوسری علاقائی زبانوں میں بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کا قانون سختی سے نافذ العمل کرایا جائے تاکہ ہم ایک قوم بن سکیں۔