جامعہ کراچی کا جلسہ تقسیم اسناد اور چند حقائق
ضرورت اس امر کی ہے کہ جامعہ کراچی کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی حالت زار پر بھی توجہ دی جائے۔
SUKKUR:
27 جنوری 2018 کا دن کراچی کے رہائشیوں کے لیے ایک اہم دن تھا کہ اس دن جامعہ کراچی میں ہزاروں طلبا کو اعلیٰ تعلیمی اسناد اور طلائی تمغے عطا کیے جارہے تھے اور گورنر سندھ بھی ان کامیاب طلبا، ان کے والدین اور اساتذہ کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد دینے وہاں موجود تھے۔ کہا جاتا ہے کہ تعداد کے اعتبار سے یہ ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ تقسیم اسناد تھا کہ جہاں پنڈال میں بیٹھے افراد کی تعداد دس ہزار سے تجاوز کرگئی تھی۔
کراچی کے رہنے والوں کے لیے بلاشبہ یہ ایک اہم تقریب تھی جس کے ایک اچھے انداز میں انعقاد کے لیے نہ صرف جامعہ کراچی کے ملازمین و اساتذہ کی محنت و لگن شامل تھی بلکہ گورنر سندھ کی آمد نے اس تقریب کو مزید چار چاند لگا دیے تھے۔ یہ سب کچھ بظاہر تو بہت اچھا تھا لیکن اس کے پس پشت کچھ حقائق بھی ہیں جو بہت دل افسردہ کردینے والے ہیں، مگر اس تقریب کے انعقاد کو اچھا بنانے کے لیے اساتذہ نے تمام اختلافات ایک جانب رکھ دیے تھے تاکہ تقریب ہر لحاظ سے شاندار ہو اور آنے والے طلبا، ان کے والدین اور مہمانوں کے لیے یہ ایک اچھا یادگار دن بن جائے۔
یہ حقیقت تو اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ جامعہ کراچی کی مالی حالت اس قدر خستہ ہوچکی ہے کہ یہاں تحقیقی سرگرمیوں کے لیے تو دور کی بات، اسٹاف کی ماہانہ تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے بھی رقم نہیں ہوتی اور اس ضمن میں کبھی گرانٹ کے چیک آنے کا انتظار رہتا ہے تو کبھی اس رقم کا جو طلبا کی فیسوں کی مد میں حاصل ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے یہ وہ خستہ حالی ہے جس کے سبب ہر سال جلسہ تقسیم اسناد کا انعقاد کرنا ہی جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے، تاہم اس سال جس قدر اچھے اور اعلیٰ انتظامات کرکے یہ جلسہ تقسیم اسناد منعقد کیا گیا وہ اس جامعہ کراچی کے اساتذہ کی اپنی جامعہ اور طلبا سے محبت رکھنے کا ایک بڑا ثبوت ہے۔
یہ بات چند ایک لوگوں ہی کے علم میں ہوگی کہ ہر سال کی طرح اس سال بھی اس تقریب کے اخراجات پورے کرنے کے لیے اساتذہ نے کس قدر محنت کی اور کن کن مخیر حضرات اور اداروں سے تعاون کے لیے بہ نفس نفیس جاکر درخواستیں بھی کیں، تب ہی جاکر اس برس کا یہ جلسہ تقسیم اسناد گزشتہ تمام جلسوں سے کہیں بہتر انداز میں ہوا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا آیندہ بھی ایسا ہی ہوگا یا یہ کہ مالی بحران جو دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے، جلسہ تقیسم اسناد کے انعقاد کی راہ میں بھی حائل ہوجائے گا؟
کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ جلسہ تقسیم اسناد کی خبریں جب انعقاد کے اگلے دن اخبارات کی زینت بنیں تو ایک انگریزی اخبار نے اپنی شہ سرخی ہی میں جامعہ کراچی کی مفلسی کا ذکر کردیا، گویا 'بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی'۔ اس اخبار کا شکوہ تھا کہ طلبا کی فیسیں تو بہت ہیں لیکن انھیں 'پوائنٹس' یعنی سفر کی سہولیات بھی حاصل نہیں۔
اس اخبار کا شکوہ اپنی جگہ بالکل بجا تھا مگر سوال یہ ہے کہ یہاں تو ملازمین اور اساتذہ کو ہر ماہ اس بات کی فکر رہتی ہے کہ تنخواہ وقت پر ملے گی بھی یا نہیں؟ شام کی کلاسوں میں پڑھانے والے اساتذہ کے تنخواہوں کے بل چھ، چھ ماہ رکے رہتے ہیں کہ کب پیسہ آئے اور کب اساتذہ کو ان کے بلوں یعنی تنخواہوں کی ادائیگی کی جائے۔ مالی بحران کا یہ عالم ہے کہ ریٹائرڈ اساتذہ کو ان کے بقایاجات وقت پر نہیں مل رہے ہیں، پنشن بھی وقت پر نہیں مل رہی ہے۔
دوسری طرف ایک ریاست کی جو بنیادی ذمے داری ہوتی ہے، جس کے تحت ہر شہری کو تعلیم، صحت اور رہائش کا بنیادی حق حاصل ہوتا ہے، وہ حق اس ملک کی سب سے بڑی جامعہ، جامعہ کراچی کے اساتذہ کو حاصل نہیں۔ صحت جیسی بنیادی سہولت کا یہ حال ہے کہ جب کوئی جامعہ کراچی کا ملازم ایمرجنسی میں کسی اسپتال جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس اسپتال نے جامعہ کراچی کا 'پینل' ہی ختم کردیا ہے، کیونکہ جامعہ کی جانب سے پچھلے بلوں کی ادائیگی نہیں ہوئی ہے۔
عام علاج یعنی او پی ڈی وغیرہ جیسی میڈیکل کی سہولیات جامعہ کراچی کے گریڈ بائیس کے پروفیسرز کو بھی حاصل نہیں، کسی اسپتال میں اگر کوئی پروفیسر داخل ہو بھی تو اسپتال میں ہونے والے ہر ٹریٹمنٹ اور ٹیسٹ کی پیشگی اپروول کے لیے اسپتال سے جامعہ کے کلینک، اور کلینک سے اسپتال کے چکر پر چکر لگانے پڑتے ہیں اور اس پر بھی یہ مسئلہ درپیش ہوتا ہے کہ فلاں ٹیسٹ یا ٹریٹمنٹ تو جامعہ کی منظور شدہ لسٹ میں شامل نہیں ہے، لہٰذا یہ مریض خود اپنے خرچے پر کرائے۔ یہ ذلت و رسوائی ایک چپڑاسی سے لے کر گریڈ بائیس کے اس پروفیسر تک کے حصے میں آتی ہے جو اس ملک کے نوجوانوں کو صرف اعلیٰ تعلیم ہی نہیں دے رہا ہے بلکہ وہ فوج تیار کررہا ہے جو اس ملک وقوم کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔
اس نمایاں کردار کی گواہی خود گورنر سندھ نے ہفتہ کو ہونے والے جلسہ تقسیم اسناد میں آکر شرکا سے خطاب کرتے ہوئے دی، انھوں نے کہا کہ انھیں فخر ہے کہ وہ اس جامعہ کے اساتذہ سے علم کی روشنی حاصل کرچکے ہیں اور یہاں کے فارغ التحصل ہیں۔ بات صرف ایک گورنر کی ہی نہیں، نہ جانے کتنے لوگ جو کبھی یہاں طالب علم تھے، آج عملی زندگی میں ایک اعلیٰ مقام رکھتے ہیں، سندھ اسمبلی میں بھی اس وقت بہت سی اہم شخصیات جو اہم عہدوں پر براجمان ہیں، یہیں سے اپنے علم کی پیاس بجھا کر نکلے ہیں، پر افسوس کہ اب اس جامعہ کی طرف ان لوگوں کی توجہ نہیں۔
جہالت کے سمندر میں، جامعہ کراچی جیسا تاریخ ساز سفینہ رفتہ رفتہ ڈوبتا ہوا محسوس ہورہا ہے، مگر شاید مسند پر بیٹھے ہوئے لوگوں کو اس کا احساس نہیں ہے۔ بات صرف یہاں تک نہیں پہنچی ہے کہ اس جامعہ میں مینٹی نینس، ریسرچ اور دیگر تعلیمی سرگرمیوں کے لیے رقم نہیں ہے، بلکہ بات اب یہاں تک آگئی ہے کہ اساتذہ کی تنخواہیں، پنشن، ادائیگیاں اور مختلف قسم کے بلز بھی وقت پر نہیں دیے جاتے۔
المیہ یہ ہے کہ جس گریڈ کا ایک عام سرکاری افسر جو مراعات اور سہولیات رکھتا ہے اس سے زائد گریڈ کا استاد وہ مراعات و سہولیات بھی نہیں رکھتا۔ جامعہ کراچی کے کسی صدر شعبہ کو ہی نہیں کسی فیکلٹی کے ڈین کو بھی گاڑی اور ڈرائیور کی سہولت میسر نہیں۔ ایک عام بینک ملازم کو بلاسود قرضہ مل جاتا ہے جس سے وہ گھر اور گاڑی وغیرہ بھی حاصل کرلیتا ہے، جامعہ کراچی کے بہت سے پروفیسر کے پاس اپنی ذاتی گاڑی بھی نہیں، ذاتی گھر تو دور کی بات۔
کیا یہ اس ملک کا المیہ نہیں کہ مختلف اداروں حتیٰ کہ پوسٹ آفس کے ملازمین کے لیے بھی سرکاری پلاٹس کی اسکیم سے پلاٹس دیے گئے، لیکن جامعہ کراچی کے ملازمین اور اساتذہ دونوں ہی کسی ایسی اسکیم سے محروم ہیں، جب کہ ہم جانتے ہیں کہ اس شہر میں ایک چھوٹے سے پورشن کی رہائش گا ہ کا کرایہ بھی تیس، پینتس ہزار سے کم نہیں ہے۔ اگر یوٹیلٹی بل کا خرچہ ملا لیں تو چالیس، پچاس ہزار روپے ماہانہ کا خرچہ بنتا ہے صرف رہائش کی مد میں، دوسری طرف تنخواہ مت پوچھیں کتنی ملتی ہے۔
یہ وہ حقائق ہیں جن میں جامعہ کراچی کے اساتذہ نہ صرف اپنے فرائض منصبی خوش اسلوبی سے ادا کر رہے ہیں بلکہ سالانہ جلسہ تقسیم اسناد بھی دل جمعی اور لگن کے ساتھ ہر سال منعقد کر رہے ہیں۔ گورنر نے اس تقریب میں کچھ پرانے اعلانات پر عمل کا اعادہ بھی کیا لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ جامعہ کراچی کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی حالت زار پر بھی توجہ دی جائے اور کم ازکم صحت اور رہائش جیسی بنیادی سہولیات کی فراہمی بھی ممکن بنائی جائے۔ اگر سندھ اسمبلی میں بیٹھے ہوئے جامعہ کراچی کے سابق طالب علم اپنا کوئی کردار ادا کرسکیں تو یہ بڑی خدمت ہوگی۔