اعلیٰ پولیس افسران اور جرائم
پرانے افسر جو ترقی کرکے ایس پی بنے فرشتے تو وہ بھی نہیں تھے۔
سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ سندھ میں اعلیٰ پولیس افسران تک جرائم میں ملوث ہیں، جن میں 13ڈی آئی جی پولیس بھی شامل ہیں ۔ ان پولیس افسران پر 50،50 الزامات ہیں، یہ بات سپریم کورٹ کے جج جسٹس سید سجاد علی شاہ نے سندھ کے بعض پولیس افسران کی طرف سے سندھ حکومت کے خلاف دی گئی درخواستوں کی سماعت کے دوران کہی۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے کراچی میں کہاکہ آئی جی پولیس سندھ کی رپورٹ کے مطابق سندھ پولیس میں 7 ہزار اہلکار جرائم میں ملوث ہیں، جس کی وجہ سے کراچی میں سب سے بڑا مسئلہ پولیس کا ہے جس کی وجہ سے رینجرزکو بلانا پڑا کیونکہ سندھ پولیس مکمل طور پر سیاسی ہوچکی ہے جس کو کے پی کے پولیس کی طرح غیر سیاسی بناکر ہی سندھ پولیس کی اصلاح کی جاسکتی ہے۔
سندھ ہائی کورٹ میں سندھ کے سابق آئی جی پولیس جنھیں سپریم کورٹ کے حکم پر سندھ پولیس ہی کے افسران کی درخواست پر سندھ حکومت نے ہٹایا تھا، جن پرکروڑوں روپے کی کرپشن اورغیر قانونی بھرتیوں کے الزام میں کیس چل رہا ہے ان پر حیدرآباد رینج میں 881 غیر قانونی بھرتیوں کا بھی الزام ہے۔
اس کیس میں ایس ایس پی فدا حسین شاہ بھی ملزم ہیں،ایسی خراب صورتحال ملک میں صرف سندھ پولیس کی ہے، جہاں پولیس کے اعلیٰ افسران کے خلاف سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں بے شمار مقدمات چل رہے ہیں اور ان کے خلاف عدالتیں سخت ریمارکس بھی دیتی آرہی ہیں مگر سندھ حکومت کے کانوں پر جوں نہیں رینگ رہی اور ایک اچھی شہرت کے آئی جی پولیس کو سندھ حکومت برداشت نہیں کررہی کیونکہ وہ سابق آئی جی غلام حیدر جمالی کی طرح سندھ حکومت کے غیر قانونی احکامات مان کر پھنسنے کو تیار نہیں ہے اور وہ ملک کا واحد آئی جی پولیس ہے جو سندھ حکومت کی سخت ناپسندیدگی کے باوجود عدالت عالیہ کے حکم امتناع کے باعث اپنے عہدے پر موجود ہیں جس کے تبادلے کا فیصلہ سندھ کابینہ بھی کرچکی ہے۔
ہر صوبے میں چیف سیکریٹری اور انسپکٹر جنرل پولیس کا تقرر وفاقی حکومت کرتی ہے اور ہر صوبہ تین افسروں کے نام وفاق کو ارسال کرتا ہے، جن میں کسی ایک کا تقرر آئی جی پولیس کے طور پرکیا جاتا ہے۔ سندھ حکومت کے بقول وفاقی حکومت سندھ حکومت کے بھیجے ہوئے ناموں ہی میں سے کسی ایک کا تقررکرنے کا اختیار رکھتا ہے جب کہ وفاقی حکومت کا موقف ہے کہ ہر صوبے میں چیف سیکریٹری اور آئی جی پولیس وفاق کا ہر صوبے میں نمایندہ ہے جس کے تقررکا اختیار اس کا ہے صوبے کا نہیں۔
سندھ آئی جی پولیس کے تقرر جیسا معاملہ کسی اور صوبے میں دیکھنے میں نہیں آیا کیونکہ آئی جی پولیس سندھ کا تقرر سندھ حکومت نے اپنی انا کا مسئلہ بنا رکھا ہے اور کسی صوبے میں ایسی صورتحال نہیں ہے کہ جہاں سپریم کورٹ کو کہنا پڑا ہو کہ سندھ کے اعلیٰ پولیس افسران جرائم میں ملوث ہیں جن میں 17 ڈی آئی جی پولیس بھی شامل ہیں۔ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوں کو جو خود مختاری ملی ہے وہ ایک حد تک ہے صوبے مطلق العنان نہیں بنائے گئے ہیں کہ وہ پسندیدہ افسروں کے ذریعے من مانیاں کریں۔
سندھ میں پولیس کی صورتحال آج سے نہیں عشروں سے خراب ہے، جہاں سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے 1977 میں ایک کم پڑھے لکھے اور جونیئر افسرکو ڈی آئی جی لاڑکانہ مقررکیا تھا جو اس کا اہل نہیں تھا، مگر اسے شولڈر پرو موشن پر ڈویژنل پولیس کا سربراہ بنایاگیا تھا۔
جب جنرل ضیا الحق نے مارشل لا لگایا تو جنرل عباسی کو سندھ کا مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اورگورنر مقررکیا تھا ، جنھوں نے سندھ کے تمام اضلاع سے پرانے تجربے کار ایس پیز کو سینٹرل پولیس آفس میں کھڈے لائن لگادیا تھا اور ان کی جگہ اے ایس پی بھرتی ہونے والے نوجوان اور ناتجربہ کار پولیس افسروں کو اضلاع میں ایس پی بنادیا تھا جس کے بعد سندھ میں جرائم اور بد امنی بے انتہا بڑھ گئی تھی۔
جب جنرل عباسی میونسپل کمیٹی شکار پور سے رخصت ہونے لگے تو راقم نے جنرل عباسی سے کہا تھا کہ سندھ بھر میں آپ نے جونیئر ناتجربہ کار پولیس افسر ایس پی لگا دیے ہیں کیا ان کی وجہ سے سندھ میں جرائم کنٹرول نہیں ہورہے تو جنرل صاحب گاڑی سے اتر آئے جس پر راقم نے انھیں بتایا تھا کہ ایک دو کے سوا تمام اضلاع کے ایس پیز نئے ہیں جس کی وجہ ان کی ناتجربہ کاری ہے۔ بحث کے دوران جنرل عباسی اپنے موقف پر قائم رہے اور آخر میں راقم کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر یہ کہہ کر گاڑی میں بیٹھ گئے تھے کہ آپ نوجوان ہیں آپ کو نوجوان پولیس افسروں کی حمایت کرنی چاہیے۔
پہلے دور میں سپاہی سے ڈی آئی جی پولیس بننے والے افسران بھی گزرے ہیں جو تجربات سے گزر کر اعلیٰ عہدوں تک پہنچتے تھے اور کرپشن سے زیادہ امن برقرار رکھنے میں دلچسپی رکھتے تھے مگر بعد میں بڑے لوگوں کے صاحبزادے پی ایس پی کرکے ڈائریکٹ اے ایس پی بنتے رہے جن کی ترجیح اپنے فرائض سے زیادہ کہیں اور ہوتی تھی جو با اثر طبقے سے تعلق اور سیاسی اثر و رسوخ کے حامل تھے اور سیاسی سفارش کے باعث ہی وہ شولڈر پروموشن لے کر ضلع میں ایس پی لگ جاتے تھے اور من پسند ایس ایچ اوز کی تعیناتی سے انھیں کسی شکایت کے بغیر بہت کچھ مل جاتا تھا۔
پرانے افسر جو ترقی کرکے ایس پی بنے فرشتے تو وہ بھی نہیں تھے مگر ان کا تجربہ انھیں امن برقرار رکھنے میں کام آتا تھا شولڈر پروموشن، خوشامد اور سیاسی سفارش سے پولیس انسپکٹر ایس ایس پی بن گئے، جو بعد میں سپریم کورٹ کے حکم پر اپنے اصل رینک میں واپس آئے اور ترقیوں میں جنھیں نظر اندازکیا گیا وہ بد دل ہوکر ملازمت پوری کرکے گھر جا بیٹھے۔
اے ایس پیزکے پروموشن اتنی جلدی ہوئے کہ اضلاع بڑھنے کے بعد بھی ڈی آئی جیزکی تعداد بڑھ گئی اور انھیں کھپانے کے لیے سیاسی حکومتوں نے نئے عہدے تخلیق کیے ، جس سے کرپشن اور حق تلفیاں بڑھیں اور اعلیٰ افسران جرائم میں ملوث ہوتے گئے اور ان کے خلاف کرپشن، اقربا پروری اور غیر قانونی اقدامات پر مقدمات قائم ہوتے رہے جو آج کل اعلیٰ عدالتوں میں زیر سماعت ہیں ۔