ہم بھٹک گئے ہیں
کردار کی پختگی میں ہی ہماری نجات ہے، گندگی کے ڈھیر پر کھڑے ہوکر سیاست کرنے والے ہمیشہ رسوا ہوں گے
دن بدن ہم بھٹکتے جارہے ہیں اور سیاست چمکانے والے مسلسل عوام کے جذبات اور ان کی دولت کی لوٹ کھسوٹ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ غیر ملکی آقاؤں کے سامنے سر جھکانے والے اپنے لوگوں میں سینہ تان کر کرپشن اور ملک کے دشمنوں کی وفاداری کے دعوے کررہے ہیں۔ غروروتکبر نے سارا نظام تہس نہس کرکے رکھ دیا ہے، اس کے نتیجے میں معاشرے میں جو افراتفری پھیل رہی ہے، جو گندگی و غلاظت اپنی جگہ بنارہی ہے، وہ ایک ناسورکی طرح نوجوان نسل کو تباہ کرکے رکھ دے گی۔
ایک ملک کو چلانا، اس کی عزت و حرمت کو لے کر چلنا، عوام میں اپنی مقبولیت بنانا آسان کام نہیں، اس کے لیے قربانیاں دینی پڑتی ہے، اپنی انا کو مارنا پڑتا ہے، رشتے داریوں سے اونچائی پر جاکر فیصلے لینے پڑتے ہیں۔ اور یقیناً ہم سے بہتر کون یہ جانتا ہے جب یہ ملک پاکستان بنا تو کیسی کیسی قربانیاں دی گئیں، 70 سال گزرنے کے باوجود بھی ہم نے اگر کچھ نہیں سیکھا تو صرف مصلحت اپنائی، ہم نے قتل و غارت گری کو بیرونی سازش قرار دیا۔ ہم نے مجرموں کو سزائیں نہیں دیں، لوٹ کھسوٹ کرنے والوں کو آزاد رکھا اور اس طرح جرم بڑھتے بڑھتے ایک کینسر کی شکل اختیار کر گیا اور اب اس مرض کا آپریشن بے انتہا ضروری ہے بلکہ واجب ہے۔
کھیلتے ہوئے، ناچتے گاتے ہوئے، ڈھول تاشوں کے ساتھ اس ملک کی بنیادیں مضبوط ہونے والی نہیں، اس ملک کی بنیادیں مضبوط ہوںگی تو اسی ضابطہ حیات کے تحت، جس ضابطہ حیات کو یہاں کے لوگ Follow کرتے ہیں۔ انسانیت کو شرمانے والے واقعات پے در پے رونما ہوتے جارہے ہیں اور ان کو روکنے کا مناسب انتظام نظر نہیں آرہا۔ درندے اپنی آب و تاب سے آزاد گھوم رہے ہیں اور افراد اپنے ذاتی مفادات پر مر مٹنے کو تیار نظر آرہے ہیں۔ عقل پر جب تالے پڑ جائیں، گردن میں سریا لگ جائے، نوٹنکی والے غلام سر جھکائے نظر آئیں تو پھر تباہی و بربادی سے کوئی نہیں روک سکتا ہے۔
چین کے ساتھ سی پیک ہوسکتا ہے تو پھر وہاں کے مثبت قوانین کو بھی دیکھیے کہ کس طرح اس قوم نے کرپشن کو ختم کرکے ترقی کی اور آیندہ برسوں میں اس کو سپر پاور بننے سے روکنا مشکل ہوگا۔ ہم سب نے خود صدر کی سڑکوں پر قطار در قطار چینی دندان ساز دیکھے ہیں، چیئرمین ماؤزے تنگ کے نظریات اور ان کی سوچ نے کس طرح ایک مضبوط چین بنایا ہے۔ جب کہ ہمارے ملک میں سیاست کے ساتھ ساتھ محاذ آرائی بلکہ معرکہ آرائی کا دور دورہ ہے۔ سچ کو ماننے کے بجائے دبایا جارہا ہے اور سوچ سمجھ کر پلان کے مطابق جھوٹ بولا جارہا ہے اور جھوٹ کو ہی سچ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مریم نواز کا یہ بیان بھی اب تاریخ کا حصہ ہے کہ ''میری کوئی جائیداد پاکستان کے اندر نہیں، یہ پتہ نہیں کہاں سے میری اور میرے بھائیوں کی جائیدادیں لندن سے نکال لاتے ہیں''۔ اب ہم کس کو مانیں اور کس کو جانیں، سب کچھ واضح ہونے کے باوجود نہ کوئی معافی نہ معذرت۔
عمران خان چھپ کر نکاح کرتے ہیں، پھر تردیدیں کرتے ہیں اور پھر ولیمہ۔ کیا یہ لوگ 22 کروڑ عوام کو حواس باختہ سمجھتے ہیں یا اندھے، گونگے، بہرے۔ تعلیم کو دباکر لوگوں کو مجبور رکھ کر اپنی من مانیاں کی جاسکتی ہیں اور اگر کی جاسکتیں تو آخر کب تک، ایک ہی کھیل، ایک ہی اسٹیج، آخر کب تک۔
نہ یہ حل ہے نہ یہ راستہ اور نہ ہی منزل، بھٹکتے بھٹکتے برسوں بیتے، اب تو گھر کا راستہ منتخب کرلینا چاہیے۔ اب ہم زیادہ دیر نہیں لگاسکتے، وہ کروڑوں لوٹنے والے ہوں یا زینب اور عاصمہ کو قتل کرنے والا درندے، یہ جنگل نہیں، یہاں درندے آزاد نہیں گھوم سکتے۔ انسانیت کو پاؤں کی جوتی سمجھنے والے، معصوم بچیوں کو قتل کرنے والے درندے سر بازار پھانسی چڑھائے جائیں، انصاف فراہم کیا جائے بغیر کسی منفی سیاست، بغیر کسی محاذ آرائی کے۔ چھوٹی بچیوں کے ساتھ جو درندگی کا کھیل کھیلا جارہا ہے اس کو روکنا اور ظالم کو سولی پہ چڑھانا تمام سیاسی پارٹیوں کی ذمے دری ہے، تمام سیاسی کارکنوں کی ذمے داری، ہماری سیاسی خواتین کو، پارلیمنٹ میں بیٹھی ہوئی ارکان پارلیمنٹ کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اس گندگی و غلاظت کو روکنے میں پیش پیش ہوں۔
کردار کی پختگی میں ہی ہماری نجات ہے، گندگی کے ڈھیر پر کھڑے ہوکر سیاست کرنے والے ہمیشہ رسوا ہوں گے۔ حالت اب یہ ہے کہ کہیں غربت و افلاس سے تنگ آکر کوئی باپ بچوں کو بیچ رہا ہے، کوئی ماں دریا میں پھینک رہی ہے۔ کسی نہ کسی کو تو آگے آنے ہوگا۔ جب تک صفائی و ستھرائی نہیں ہوگی تو بات بنے گی نہیں۔ میڈیا پر تمام چینلز پر بھاری ذمے داریاں ہیں اور معاشرے میں سدھار کے لیے یہ تمام اپنا رول ادا کرسکتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ PTV پر تعلیم بالغاں شو شروع کیا گیا تھا، جو آج بھی یاد کیا جاتا ہے اور اب تو ہنگامی طور پر ہمیں تعلیم کے حصول کے لیے بھاگنا ہوگا، تعلیم و تربیت کی کمی نے نوجوان نسل کو شدید دکھ میں مبتلا کردیا ہے، نہ اس کو کتابوں سے شغف ہے نہ یہ بڑوں کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔
یہ ہمارے نوجوان بچے قابل رحم ہیں، نہ تین میں اور نہ تیرا میں نظر آتے ہیں۔ احساس کمتری اور نئی نئی اشتہا حاصل کرنے والی یہ نسل نام نہاد سیلون اور بیوٹی پارلرز کو بھی بزنس فراہم کررہی ہے۔ والدین کو زچ کرکے یہ نوجوان نسل فلموں اور ڈراموں سے شدید متاثر نظر آتی ہے۔ فیشن کے نام پر یہ سب کچھ کر گزرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں مثبت سرگرمیاں طالب علموں کے لیے ضروری ہیں، آگے بڑھنے کے مواقع تمام لیول کے نوجوانوں کے لیے ہونا چاہئیں، اسکالر شپ کا دائرہ کار بڑھائیں۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ نوجوان بچے اور بچیوں کے کردار کی مضبوطی کو تربیت کا حصہ بنانا چاہیے۔ یقین جانیے ہماری ڈوریں بہت الجھ رہی ہے، اگر اب ان کو نہ سلجھایا گیا تو پھر اﷲ پاک ہی مالک ہے۔
اناؤں کی جنگ میں، محاذ آرائی میں ایک عام آسمی کو قربانی کا بکرا نہ بنائیں، اسکول، کالجز، یونیورسٹیز تو تعلیم و تربیت کا بہترین ذریعہ ہے، اب نہ جانے طالب علموں کے مقصد کیا ہوسکتے ہیں، عشق و محبت، خواہشات، فیشن، دوستیاں، رات گئے تک گھر سے باہر، چائے خانوں کے نام پر آدھی آدھی رات بیٹھے رہنا، والدین اپنی رنگینیوں میں گم اور نسل تباہ و برباد، ہرجانہ ہم سب کو ہی بھرنا پڑے گا صرف والدین کو نہیں۔ انسانیت کو صحیح معنوں میں جگائیں اپنے اندر۔ بے انتہا معاشرتی بگاڑ کے باوجود صوبائی اور وفاقی حکومتیں اپنی اپنی بقا کی جنگ میں مبتلا ہیں۔ جھوٹ، فریب و لالچ، گندگی چاروں طرف معاشرے میں نظر آتی ہے۔
حکومتی ارکان کو کھیل تماشے، دلداریاں، ناچنا، گانا ختم کرکے سنجیدگی و بردباری کے ساتھ اس ملک کے لیے، عوام کی فلاح و بہبود کے لیے، ترقی و کامیابی کے لیے، خاص طور پر ہماری نوجوان نسل کے حال اور مستقبل کے لیے 'میں'، انا پرستی، گردنوں کے سریے ہٹانے ہوں گے۔ ایک دوسرے کی بات سنیے، سمجھیے، ایک دوسرے کے ساتھ چلیے، اس ملک کی مضبوطی کے لیے خوشحال کے لیے۔ وہ دوست ممالک جو پاکستان میں امن چاہتے ہیں، پاکستان کے خیر خواہ ہیں، ہماری مدد کرنا چاہتے ہیں، ان کی بات کو نظر انداز کرنا سنجیدگی نہیں۔