دوغلے رویے آخر کب تک

منفی سوچ اور رویے فقط سوشل میڈیا تک محدود نہیں رہے بلکہ یہ الیکٹرانک میڈیا تک پھیلے ہوئے ہیں۔


Shabnam Gul February 01, 2018
[email protected]

SYDNEY: لفظوں کے ہاتھوں میں
آنسوؤں کو پونچھنے کے لیے رومال نہیں

لفظ تو بس ہواؤں میں
بکھر جانے کے لیے ہوتے ہیں

اپنی نظم سے موضوع کا آغازکر رہی ہوں گوکہ یہ نظم مکمل طور پر دینے سے قاصر ہوں مگر یہ چند سطریں بھی موضوع کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیوں لفظ فقط ہواؤں میں بکھر جاتے ہیں۔ روزمرہ زندگی کی مثال لے لیجیے ایک دن میں ہم بے شمار لفظ کہتے ہیں۔ خواتین کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ دن میں بیس ہزار لفظ بولتی ہیں۔ ایک لحاظ سے مردوں کے مقابلے میں تیرہ ہزار الفاظ زیادہ بولتی ہیں، جب کہ مردوں کے لیے کہا جاتا ہے کہ دن بھر میں تقریباً سات ہزار لفظ ان کے استعمال میں آتے ہیں۔

شاید ہی کبھی ہم نے اس بات کو سوچا ہوگا کہ ہم جو لفظوں کا ایک دوسرے سے تبادلہ کرتے ہیں، وہ لفظ توانائی وطاقت کا مظہر ہیں۔ ان کے اندر منفی ومثبت اثر موجود ہے۔ یہ تعمیر بھی کرسکتے ہیں اور تباہ کن بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ لفظ رابطے کا ذریعہ ہیں۔ ہمارے رابطے کس قدر فعال اور مربوط ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہم روزمرہ زندگی میں کس طرح کے الفاظ کا چناؤ کرتے ہیں۔ یہی لفظ ہماری ناکامی اورکامیابی کا وسیلہ بھی بنتے ہیں۔

روزمرہ بولے جانے والے الفاظ آواز و لہروں کے تحرک کا امتزاج ہوتے ہیں۔ لہروں کا یہ تحرک حقائق کو جنم دیتا ہے۔ لفظ ایک لحاظ سے اپنی حقیقت خود تخلیق کرتے ہیں۔

دوسرے لفظوں میں ہمارا ذہن، ان الفاظ کی مدد سے ہماری حقیقت تخلیق کرتا ہے۔ جوگفتگو ہم روزمرہ زندگی میں کرتے ہیں۔ ویسے ہی ہمارے حالات ان الفاظ کے رخ پر سفر کرنے لگتے ہیں۔ منفی لفظوں کے پاس گہری طاقت ہوتی ہے،کیونکہ لفظ ہمارے تصور، یقین، عقائد یا رویوں کی تشکیل کرتے ہیں ۔ان کی طاقت ہمارے جذباتی رویوں کی مرہون منت ہے ۔ جب ہم یہ لفظ سنتے، کہتے یا پڑھتے ہیں تو ہمارا جذباتی ردعمل سامنے آنے لگتا ہے۔ غمگین سطریں پڑھ کر آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں اور لطیفے پڑھ کر بے ساختہ ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔

کوانٹم فزکس نے بہت پہلے طے کردیا تھا کہ ہر چیز محض توانائی ہے۔ اس توانائی کی مختلف لہریں ہیں۔ لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ زندگی توانائی کا بہاؤ ہے۔ جس میں ہماری سوچ، محسوسات اور تصورات کی لہریں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اب طے کرلیجیے کہ روز مرہ زندگی میں ہم کس طرح کی باتیں سنتے ہیں اور وہ باتیں کس طرح ہماری زندگی پر اثرانداز ہوتی ہیں۔

معلومات کے مختلف ذرائع ہیں۔ جن میں پرنٹ، الیکٹرانک و سوشل میڈیا اہمیت کے حامل ہیں۔ اخبارات کی مثال سامنے ہے جن میں سیاسی، معاشرتی اور انفرادی حوالوں سے خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ جن میں اکثریت میں بری خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ جو ہماری سوچ اور ذہن پر ناگوار اثرات مرتب کرتی ہیں۔ وہی خبریں دن بھر ہماری سماجی زندگی میں گردش کرتی رہتی ہیں۔ ان خبروں کے توسط سے ہم شک، خوف اور بے یقینی کو بانٹتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر بھی طرح طرح کی افواہیں گردش کرتی رہتی ہیں۔ فیس بک نے معاشرتی مزاج کو بالکل ہی بدل کے رکھ دیا۔ جس نے انفرادی سوچ اور خودستائشی رویوں کو فروغ دیا۔ جدید تحقیق کے مطابق، تنہائی اور ڈپریشن کا شکار لوگ، زیادہ سوشل میڈیا پر نظر آتے ہیں۔ موبائل سے سیلفی کا جنون بڑھا۔ یہ جنون لوگوں کی زندگیاں نگلنے لگا۔ جس کے لیے کہا جاتا ہے کہ یہ ذات کی محبت کا جنون ہے۔ زیادہ سیلفی لینے والے افراد کسی نہ کسی احساس محرومی یا عدم توجہ کا شکار ہوجاتے ہیں۔

منفی سوچ اور رویے فقط سوشل میڈیا تک محدود نہیں رہے بلکہ یہ الیکٹرانک میڈیا تک پھیلے ہوئے ہیں۔ خبریں محض خبروں تک محدود نہیں رہیں، بلکہ یہ ڈرامائی انداز اختیارکرچکی ہیں۔ جن کا مقصد آگہی دینا کم بلکہ سنسنی خیز لمحوں سے ذہنی افراتفری پیدا کرنے کی کوشش زیادہ دکھائی دیتی ہے۔ ڈرامے کا عنصر روزمرہ زندگی سے ٹیلی وژن اور سیاسی منظرنامے پر صاف دیکھا جاسکتا ہے۔ معلومات کا ذریعہ کوئی بھی ہو مگر آپ لفظوں کا انتخاب ملاحظہ کیجیے۔ یہ لفظ زیادہ تر شک اور بے یقینی کو جنم دیتے ہیں۔ بی بی سی یا سی این این کے نیوزکاسٹر یا کمپیئرزکو آپ نے یقینی طور پر دیکھا ہوگا۔

ہم کیوں خبروں یا کمپیئرنگ کا بین الاقوامی معیار قائم نہیں رکھ سکتے۔ ویسے تو ہماری زندگی، لباس اور گفتگو جدید دنیا کے مقابلے سے کسی طور کم نہیں ہیں۔ نیوزکاسٹر کا کام خبر دینا ہے ناکہ ڈرامائی انداز اختیار کرنا۔ بالکل اسی طرح اینکرز اور ماڈریٹر کا کردار ہونا چاہیے ۔ اینکرکا مطلب ہے خود اعتمادی اور استحکام عطا کرنا۔ جب کہ ماڈریٹر کا مطلب یہ ہے کہ ایک ایسا شخص جو بحث مباحثے یا گفتگو میں توازن و غیر جانبداری برقرار رکھ سکے۔ جو لوگوں کی رہنمائی کرے یا انھیں صحیح راستہ دکھا سکے۔ ہمارے ٹی وی چینلز کے اینکرز یا ماڈریٹرز لفظی معنی کے برعکس دکھائی دیتے ہیں۔ حالانکہ یورپ و امریکا میں میڈیا کے مختلف شعبوں میں مناسب تربیت دی جاتی ہے اور انھیں اپنے شعبے کے حوالے سے باخبر رکھا جاتا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ فنون لطیفہ کے ہر شعبے کی مختلف ضروریات اور ترجیحات ہیں۔ کمپیئرنگ، صدا کاری، خبریں پڑھنا ودیگر شعبے انفرادیت کے حامل ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں ہر شعبے کی خاصیت اور خالص پن کو برقرار رکھا جاتا ہے اور اسے مطلب اور تشریح کے حصار سے باہر نہیں آنے دیا جاتا۔ کمپیئر اور نیوز کاسٹرز ادارے کو جوابدہ ہوتے ہیں۔ انھیں اپنی ذاتی رائے، پسند و ناپسند ظاہر کرنے کا اختیار نہیں نہیں دیا جاتا۔

اداروں کا جھکاؤکسی بھی سیاسی پارٹی کی طرف کیوں نہ ہو، مگر انھیں غیر جانبداری سے بات کرنی پڑتی ہے،کیونکہ وہاں پر میڈیا پرسن اپنے شعبے سے کمٹڈ ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ انھیں لفظوں کے ساتھ چہرے کے تاثرات کو بھی ضابطے میں رکھنا پڑتا ہے۔ علاوہ ازیں عوامی سطح پر انھیں ہر مکتبہ فکر کے حامل لوگوں کے جذبات کا احترام کرنا پڑتا ہے۔

میں نے جتنے بھی بحث مباحثے دیکھے ہیں۔ چاہے بی بی سی، سی این این یا باہر کے کسی بھی چینل پر ہوں، ہمیشہ کوئی نہ کوئی حل پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی رائے وگفتگو تہذیب کے دائرے کے اندر ہوتی ہے۔ بحث برائے بحث کا رجحان نہیں ملتا اور نہ ہی میزبان، مہمان سے ہتک آمیز گفتگو کرتے ہیں۔ لفظوں کے بعد لب و لہجہ اہمیت رکھتا ہے۔

ہمارے ہاں چیخ کر بات کرنا کامیابی کی علامت سمجھا جاتا ہے، گفتگو کے دوران ایسے چٹکلے چھوڑے جاتے ہیں کہ اکثر مختلف مکتبہ فکرونظریاتی اختلاف رکھنے والے لوگ آپس میں لڑ پڑتے ہیں۔ یہ رویے سطحی اور دور جدید کے تقاضوں سے مبرا ہیں۔ جدید دورکی ضرورت ہے کہ حقیقت پسندانہ اور منطقی رویے اختیار کیے جائیں اور افواہوں کو پھیلانے سے گریز کرناچاہیے۔ جو سماجی زندگی میں انتشار پیدا کرنے کا سبب بن جاتے ہیں۔

چاہے صحافت ہو، ابلاغ عامہ یا اخبارات ہوں الفاظ کی حرمت مجروح ہونے سے گریز کرنا چاہیے۔ آخر ہم اپنی نئی نسل کے سامنے رویوں کی کون سی مثالیں قائم کر رہے ہیں اورکب تک ہم دوغلے رویوں سے قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکتے رہیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔