نیم حکیم خطرہ جان
ہم نے ایسے لوگوں کو منظر عام پر لانا ہے جو اپنے عہدے اور اختیارکا بے جا استعمال کرتے ہیں۔
شکریہ ڈاکٹر شاہد آپ نے ہمیں آئینہ دکھایا۔ ہم بہ حیثیت قوم کتنے آپ کے محتاج ہیں۔ آپ جو سوچیں، جوکہیں وہ خبر ہے، آپ کے اسکرین پر زندہ رہنے کے لیے ہم ایندھن ہے۔ ڈاکٹر شاہد پاکستان کی تاریخ کا حصہ ہیں نہ جانے کب سے موجود ہیں ۔ وہ روپ بدل بدل کر آتے رہے، طرح طرح کے نقاب اوڑھے، انداز اپنائے ہمیں اپنی طرف اپنے تجربوں اور تبصروں سے مائل بہ کرم کرتے۔ ہم کیا کرتے ہمارے وجود اور لاشعور میں ڈرکچھ اس طرح سے بیٹھا ہوا ہے کہ ہم جسے حقیقت سمجھتے ہیں وہ حقیقت نہیں ہمارے ڈر کا حصہ ہے۔ ہم خوف اور ہذیانیت کا شکار اس طرح سے چل پڑتے ہیں کہ جیسے ہم اتنے لاچار ہوں کہ کچھ بھی نہیں کرسکتے۔
ڈاکٹر شاہد تو ایک بیانیہ ہیں ایک Escape Goat ہم سب میں شاید ایک ڈاکٹر شاہد موجود ہے۔ تبھی تو کہتے ہیں کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے یا پھر شاید ہر ایک بات کی ایک حد مقرر ہے وہ چاہے Fake Encounter ہو یا پھر fake news ۔ جب دونوں حد سے آگے چلے گئے تو رد عمل بھی اپنی پچھلی روایتیں توڑ چلا ۔ یہ تھی ایک جھلک زندہ قوم ہونے کی۔
صحافت میں ان مصنوعی طریقوں سے چیزوں کو Engineer کرنا کب تک آخر؟ آخر کب تک !! بہت کچھ بدلا ہے ۔ میں صحافت کے اس شعبے سے بالواسطہ یا بلاواسطہ عرصہ دراز سے منسلک ہوں ۔ میری پرورش ایک سادھو اورصوفی طرز کے گھر میں ہوئی ہے۔ وکلاء کی تحریک کا زمانہ تھا جنرل مشرف کو ہٹانا تھا اور جمہوریت کو دوبارہ مستحکم کرنا تھا، مگرکیا تھا اس کی بنیادوں میں دائیں بازوکا بیانیہ بسا ہوا تھا۔ ایک ایسا بیانیہ جس کا حقیقت سے تعلق کم ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب اینکر شپ عروج پر تھی اور میڈیا پر چینلز کا راج تھا۔ ہر ایک کی نظر ٹی وی چینلز پر مرکوز تھی۔ خبروں اور تجزیوں کا دور تھا ۔ لوگ ڈرامے اور انٹرٹینمنٹ چینلز دیکھنا بھول گئے تھے ۔ جتنی سنسنی پھیلاؤ ، حب الوطنی دکھاؤ اتنی ہی ریٹنگ آپکے چینل کی بڑھتی تھی ، مگر میری اسکولنگ میں حقیقت پسندی تھی۔ ہم نے اپنا بوریا بستر سمیٹا اور چل پڑے یہ سوچ کر یہ پیشہ ہمارے مزاج کا نہیں۔
ڈاکٹر شاہد کی یہ خبر کم از کم دو تین ہفتے تو اسکرین کی زینت بنتی اگر اسٹیٹ بینک کی طرف سے کوئی خبر نہ آتی اور پھر ہمارے چیف جسٹس نے عدالت میں ہی اس خبر کو بند کیا اور اس طرح صحافت کے شعبے میں ایک نئے بیانیے نے جنم لیا کم از کم آیندہ کسی صحافی یا اینکر کی ہمت نہیں ہوگی کہ بغیر تحقیق یا ثبوت کے کسی خبرکو منظر عام پر لائیں اور یہی کچھ ہے نیکو لائے اوسٹو وسکی کے ناول میں کہ ''لوہا کیسے کندن بنا'' (How the Steel has Tempered )پاکستان کیسے پاکستان بنے گا؟ یہی ہے وہ فلسفہ جو ہمیں سمجھنا ہے۔
جمہوریت رواں دواں ہے اور اس سسٹم کو روکا نہیں جاسکتا یہ اور بات ہے کہ جمہوریت کو جمہوریت سے ہی خطرہ ہے، بالکل اسی طرح سے جس طرح آزاد صحافت کو خود آزاد صحافت سے خطرہ ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ہماری آزاد عدلیہ کو بھی آزاد عدلیہ سے ہی خطرہ ہو لیکن یو نہی ہمارا سفر رواں ہے پاکستان اور پاکستان بننے کا سفر۔ اس دفعہ اس سفر میں ایک Leap Forward آیا ہے۔
ہم نے ایسے لوگوں کو منظر عام پر لانا ہے جو اپنے عہدے اور اختیارکا بے جا استعمال کرتے ہیں۔ ہماری تاریخ ایسے ہی لوگوں نے مسخ کی یا ہمیں پھر شاید تاریخ کا ادارک کرنا نہیں آتا ہم تاریخ کو نظریوں میں الجھ کر دیکھتے ہیں۔کبھی کبھار یہ نظریے ہماری آنکھوں میں یرقان اتار دیتے ہیں اور حقیقتیں بھی ہمیں یرقان زدہ نظر آنے لگتیں ہیں ۔ اسی لیے توکسی نے کہا ہے کہ Patriotism is Last Refuge of Scoundrel اور پھر اس حقیقت میں بہت سے درباری جنم لیتے ہیں جو شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہوتے ہیں۔ کل تک یہ درباری مشرف کے دربار میں تھے اور پھر وکلاء تحریک میں شامل ہوئے، پھر انھوں نے ایک نئی سمت پکڑی۔ حقیقت سے کھیلنا، سنسنی پھیلانا یہاں تک کہ غداری کے لیبل لگانا، مذہبی تعصب پیدا کرنا ان کا شیوا بن گیا۔ یہ اپنی اخلاقیات کا تعین بھی نہ کرسکے اور نہ کوئی روک نہ کوئی ٹوک تھی۔
مان لیجیے جنرل ضیاء الحق نے بہت ترامیم کیں آئین میں، یہ ترامیم بہت سے لوگوں کو مختلف زاویوں میں صحیح نظر بھی آئیں لیکن جنرل ضیاء الحق کا آئین میں یوں ترامیم کرنا بنیادی طور پر جمہوریت کو مسخ کرنا تھا اور ان کے اس سفر میں آج کے دور کے سب بڑے جمہوریت پسند میاں نواز شریف بھی شامل تھے۔ اس ترتیب سے اگر ہم یہاں تحریر کرتے چلے تو بات دور تلک تک جائے گی۔
اور یہ بھی ذرا مان لیجیے! میاں صاحب کہتے سچ ہیں کہ شیخ مجیب کی اولین خواہش حکومت بنانے کی تھی اور یہ ان کا حق تھا جب کہ یہ ہم تھے جو اس حق کے سامنے رکاوٹ تھے۔
اور ایسی کئی مسخ شدہ باتیں جو ہمارے بیانیے کا حصہ ہیں جو ہمارے روح کو ڈستی ہیں اور جس سے ہماری آیندہ کی راہوں کو گرہ لگ جاتی ہیں، ہمیں سوچ سمجھ کر خندہ پیشانی سے اپنی تاریخ کو درست کرنا ہوگا۔ زینب ہماری تاریخ کے لیے نیا موڑ ہے اور ایسے کئی واقعات ہیں جو ہماری راہوں کو متعین کریں گے۔ کیونکہ اس دفعہ ہم نے ان حقیقتوں کو Forensic پیمانوں سے پرکھنا ہے۔
جب ڈاکٹر شاہد یہ کہہ رہے تھے کہ عمران کے 80 اکاؤنٹ تھے جب کہ اس کے تیس اکاؤنٹ کا ثبوت وہ کورٹ کے پاس پیش کر رہے ہیں اور پھر اسٹیٹ بینک کے افسران کا بیان، دراصل وہ Forensic Expert تھے ایک لحاظ سے۔ اور پھر سپریم کورٹ نے JIT تشکیل دی کہ Forensic view آسکے۔ خود DNA کیا ہے۔Forensic report ہے۔ ہمیں اس طرح سے ایسی تاریخ کو بھی دیکھنا ہوگا جس کو Forensic کی آنکھ سے دیکھنے کے عمل کو Historicism کہا جاتا ہے۔
ہم اپنے بیانیہ کو ان قصیدہ خواہوں، افواہیں پھیلانے والوں اور ہمارے جذبات کو الجھانے والوں کے حوالے نہیں کرسکتے۔
ہمارے ساتھ یہی کچھ ہورہا تھا اور ہورہا ہے۔ حقیقت اور ہوتی ہے افسانہ اور ہوتا ہے۔ ہماری تاریخ بہت خوبصورت ہے۔ ہمیں اپنی تاریخ کو ترتیب دینا ہوگا۔ یہ ہماری آیندہ کی نسلوں پہ اک بہت بڑا احسان ہوگا جو ہم اس طرح سے کرتے جائیں گے۔