جائیدادوں سے متعلق مسائل

بدقسمتی اور ظلم یہ ہے کہ جب یہ ادارے سو رہے ہوتے ہیں تو اس کی سزا بھی شہریوں کو ملتی ہے۔


Adnan Ashraf Advocate February 01, 2018
[email protected]

کراچی کی تیزی سے بڑھتی آبادی اور تیزی سے کم ہوتی زمینوں، لینڈ مافیا و بلڈر مافیا اور حکومت اور متعلقہ اداروں کی عدم توجہ و عدم پلاننگ نے کراچی کو مسائل کا گڑھ بنادیا ہے۔ بدامنی، بجلی، پانی، سیوریج، ٹریفک جام کے مسائل شہر میں غیر قانونی بس اڈے، تجاوزات، ٹینکر مافیا اور ٹینکروں کے حادثات میں بلاناغہ کئی زندگیوں کا اتلاف ہونا ایک معمول بن چکا ہے۔ شہر کا 3 فیصد حصہ دھول اور ایک حصہ کیچڑ کی صورت اختیار کرچکا ہے۔

شہر کے سماجی مسائل میں سب سے بڑا اور بنیادی مسئلہ رہائش کا ہے جو ایک ناگہانی صورت اختیار کرچکا ہے۔ بڑھتے ہوئے خاندانوں میں جائیداد کی وراثت کی تقسیم اور ملک کے دیگر علاقوں سے کراچی کی طرف آبادی کے بہاؤ کی وجہ سے جائیدادوں کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کر رہی ہیں۔ 120 گز کے درمیانے سے مکان کی قیمت بھی ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ چل ہی ہے۔ مکان خریدنا متوسط طبقے کی دسترس سے باہر ہوچکا ہے۔

شہر میں لینڈ و بلڈر مافیا کی شہریوں کو لوٹنے کی سرگرمیاں بھی اپنے عروج پر ہیں جس کے لیے نت نئے طریقے اور ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں، مجبور و بے بس شہریوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے۔ ہاؤسنگ سوسائٹیوں، بنگلوز، فلیٹس کے علاوہ بڑے پیمانے پر پورشن بناکر فروخت کرنے کا بے حد منافع بخش کاروبار اپنے عروج پر ہے۔

چھوٹے چھوٹے سے پلاٹوں اور گلیوں میں پورشنز بناکر غیر قانونی طور پر فروخت کیے جا رہے ہیں، جو سیل ڈیڈ کے ذریعے سب رجسٹراروں کی ملی بھگت سے فروخت کیے جا رہے ہیں ان کی نہ تو سب لیز ہوتی ہے نہ نقشہ، ایسے پورشنز پر نہ تو قرضہ لیا جاسکتا ہے نہ ہی کسی ضمانت میں رکھائے جاسکتے ہیں۔ ایسے تعمیر شدہ پورشنز میں صفائی ستھرائی، مرمت، پانی و سیوریج وغیرہ کا مشترکہ معاملات اور یونین وغیرہ نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے پیچیدہ قسم کے مسائل اور لڑائی جھگڑے جنم لے رہے ہیں۔ بلڈرز اور لینڈ مافیا شہریوں کا بری طرح استحصال کر رہے ہیں، متعلقہ ادارے ان کی سرکوبی کرنے کے بجائے ان کے دست و بازو بنے ہوئے ہیں۔

عوام سے کھربوں روپے لوٹ چکے ہیں۔ شہر میں چائنا کٹنگ پلاٹس کے ذریعے ہزاروں پلاٹس کی بندر بانٹ کی گئی، ان کی باقاعدہ دستاویزات جاری کی گئیں، ان پلاٹوں پر کاروباری اور رہائشی سرگرمیاں عروج پر پہنچیں تو عام شہری بھی اس جانب راغب ہوئے، کچھ نے اپنے اثاثے بیچ کر یا قرض لے کر چھوٹا موٹا کاروبار شروع کیا، کچھ غریبوں نے جو رہائش کی سکت نہیں رکھتے تھے اپنی عمر بھر کی جمع پونجی لگا کر سر چھپانے کی جگہ بنائی۔

کئی عشروں سے جاری اور دن بہ دن گمبھیر ہوتے شہری مسائل اور متعلقہ اداروں اور حکومت کی عدم توجہی پر عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے بالآخر عدالت عظمیٰ کو نوٹس لینا پڑا، جس سے ارباب اختیار اور متعلقہ اداروں میں کھلبلی مچ گئی۔ عدالت کی جانب سے تشکیل کردہ واٹر کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) امیر ہانی مسلم نے پروجیکٹ ڈائریکٹر کو فوری طور پر ہٹانے کا حکم دیتے ہوئے سیکریٹری بلدیات کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی سفارش کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا ہے کہ آبی منصوبوں کے لیے جاری کردہ 150 ارب روپے کی رقم کہاں گئی؟

عدالت عظمیٰ نے شہر میں غیر قانونی تعمیرات، سرکاری زمینوں پر قبضہ اور رفاہی پلاٹوں کی حیثیت تبدیل کرنے اور چائنا کٹنگ جیسے معاملات پر متعلقہ اداروں کی سرزنش کرتے ہوئے ان کے فوری خاتمے کا حکم دیا تو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور کے ڈی اے نے بادل ناخواستہ اپنی کارروائیوں کا آغاز کیا، سیکڑوں شادی گھر گرا دیے گئے، جن شادی گھروں کو کے ڈی اے نے مسمار کیا انھیں ہی دوبارہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے مسمار کرکے اپنی کارکردگی کی فہرست میں شامل کرلیا، جواز یہ دیا گیا کہ کے ڈی اے نے انھیں مکمل طور پر مسمار نہیں کیا تھا۔

اتھارٹی کی پولیس نے کچھ مکانات کی منزلیں اور تعمیراتی شٹرنگ کو بھی گرایا، چائنا کٹنگ پر تعمیر کردہ مکانات بھی گرائے گئے، پلاٹ الاٹ کرنے والے اور انھیں بیچ کر مال بنانے والے تو نکل گئے، جن غریبوں نے یہ پلاٹ خرید کر اپنے سر چھپانے کی جگہ بنائی تھی وہ سولی پر لٹکے ہوئے ہیں کہ نہ جانے کب ان کے گھروں کو بھی مسمار کردیا جائے۔

عدالت عظمیٰ کے حکم کے باوجود اس قسم کی خبریں متواتر آرہی ہیں کہ شہر میں مرکزی جگہوں پر غیر قانونی تعمیرات کا دھندا اب بھی بلڈر مافیا اور ایس بی سی اے کی ملی بھگت سے جاری ہے۔ اتھارٹی مبینہ بھاری نذرانوں کے عوض غیر قانونی تعمیرات کے بوگس Completion Certificate جاری کر رہی ہے، جن کے ذریعہ بلڈرز گیس و بجلی کے کنکشن حاصل کر رہے ہیں، اتھارٹی کے ایک ڈی ایس پی نے خود جعلی نقشے اور بوگس کمپلیشن پلان کے ذریعے اپنے گھر پر گیس و بجلی کے کنکشن حاصل کیے، اینٹی کرپشن نے جب مذکورہ مکان کے منظور شدہ نقشے کا ریکارڈ طلب کیا تو انکشاف ہوا کہ اتھارٹی کے پاس اس کا کوئی ریکارڈ ہی نہیں ہے۔

غیر قانونی تعمیرات کی سرپرستی اور حقیقی انہدامی کارروائی نہ ہونے پر اتھارٹی کی جانب سے محکمہ جاتی تادیبی کارروائی کرتے ہوئے 54 اہلکاروں کو محض ایک گریڈ تنزلی یا ایک سال کے لیے انکریمنٹ روکنے کی سزا دینے پر ہی اکتفا کیا گیا ہے۔ ایک خبر یہ ہے کہ اتھارٹی نے 1994ء کے بعد رفاہی پلاٹوں کے تبدیلی استعمال کے اجازت نامے منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

ڈی جی کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں واضح کیا گیا ہے کہ اتھارٹی کی جانب سے رفاہی نوعیت کے ان پلاٹوں سے بلڈنگ پلان کی منظوری دی جائے گی جن کا استعمال اراضی 1994ء سے قبل تبدیل ہوگیا تھا، ان کی منظوری بھی ماسٹر پلان ڈپارٹمنٹ کی تجدید سے مشروط ہوگی، اس اعلان سے شہر کی کمرشل و رہائشی تعمیرات مسمار کرنے اور بلیک میلنگ اور رشوت کی ایک نئی راہ استوار ہونے کے امکانات ہیں۔

کراچی کے شہریوں سے جائیداد کی خرید و فروخت کے سلسلے میں جو رجسٹریشن فیس، کیپٹل ویلیویشن ٹیکس، ایڈوانس ٹیکس، گین ٹیکس، ویلتھ ٹیکس، ٹاؤن ٹیکس وغیرہ لیے جا رہے ہیں ان کی شرح بھی دیگر صوبوں کے مقابلے میں زیادہ ہے، جائیدادوں کی قیمتوں کے غیر حقیقت پسندانہ تعین اور ٹیکسوں کی شرح بھی ایک بڑی زیادتی ہے، جس کی وجہ سے بہت سی قانونی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں، سندھ بورڈ آف ریونیو، فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی تعین کردہ قیمتوں اور مارکیٹ ویلیو میں بڑا فرق پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے خریدار ایگریمنٹ میں حقیقی قیمت جب کہ جائیداد کی منتقلی کی دستاویزات میں سرکاری قیمت ظاہر کرنے پر مجبور ہوتا ہے، ورنہ اس کو لاکھوں روپے مزید ادا کرنے پڑتے ہیں۔ خاص طور پر وراثت کی جائیداد میں یہ مشکل درپیش آتی ہے کہ اگر حقیقی قیمت ظاہر کی جائے تو ان کی منتقلی پر لاکھوں روپے کے اضافی اخراجات آجاتے ہیں جو اس کے بعد ہر منتقلی پر ادا کرنا پڑتے ہیں۔

اگر سرکاری قیمت ظاہر کی جائے تو خدشہ رہتا ہے کہ کہیں ورثا کو جائیداد کی اصل قیمت کے تناسب سے حصہ دینے سے محروم نہ کردیا جائے۔ کمپلیشن سرٹیفکیٹ کے بغیر جائیداد کلیئر کی جا رہی ہیں، حالانکہ بلڈنگ کنٹرول آرڈیننس کے تحت اتھارٹی کی ذمے داری ہے کہ وہ بلڈرز کو کمپلیشن سرٹیفکیٹ لیے بغیر خریداروں کو قبضہ نہ دینے دے۔ خریداروں کو تو علم ہی نہیں ہوتا کہ کمپلیشن سرٹیفکیٹ کیا ہوتا ہے۔ بلڈرز تو قبضہ دے کر نکل چکا ہوتا ہے، 20 یا 30 سال بعد خریدار اس کو کہاں سے ڈھونڈ کر لائیں۔ یہ سراسر SBCA کی نااہلی، ملی بھگت اور بے رحمی ہے، جس کی سزا بے قصور شہری بھگت رہے ہیں۔

بدقسمتی اور ظلم یہ ہے کہ جب یہ ادارے سو رہے ہوتے ہیں تو اس کی سزا بھی شہریوں کو ملتی ہے اور جب ان کو جگایا جاتا ہے تو اس کی سزا اور پریشانیاں بھی شہریوں کے حصے میں آتی ہیں، مگر یہ کردار کبھی کیفر کردار تک نہیں پہنچتے، اس سنگین پہلو کو عدالتوں کو خاص طور پر مدنظر رکھنا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں