سیاستدان نگراں وزیراعظم کا فیصلہ نہ کرسکے
انھوں نے ایک دن غور کیا اور دوسرے دن انھوں نے اپنے ہی ایک ساتھی کو نگراں وزیر اعظم نامزد کر دیا۔
پاکستان کے عام انسانوں کو پورے پانچ برس تک دل کھول کر پریشان کرنے کے بعد جمہوری حکومت گارڈ آف آنر لے کر رخصت ہوگئی ہے۔خیبر سے لے کر کراچی تک ، وہ کونسا شہر ہے جہاں سے آہ وبکا بلند نہ ہوئی ہو۔لیکن جمہور کے حاکم اپنی مدت ملازمت پوری کرکے خوش وخرم گھروں کو چلے گئے، کوئی احتساب نہ پوچھ گچھ بلکہ ایک آدھ دن سستانے کے بعد دوبارہ ووٹ لینے انتخابی میدان میں اتر جائیں گے۔
اب پکے وزیراعظم کی جگہ جسٹس ریٹائرڈ میر ہزار خان کھوسو نگراں وزیر اعظم بن کر اقتدار سنبھال چکے ہیں۔ چوراسی برس کے کھوسو صاحب کو اس منصب تک الیکشن کمیشن نے پہنچایا۔غور کیا جائے تو وہ کسی سیاستدان کے احسان مند نہیں ہیں۔ایک معنی خیز بات یہ ہوئی کہ الیکشن کمیشن کے پانچ ارکان میں سے چار نے ان کے حق میں فیصلہ دیا جب کہ پنجاب سے الیکشن کمیشن کے رکن جسٹس ریاض کیانی نے جسٹس ریٹائرڈ ناصر اسلم زاہد کے حق میں ووٹ دیا۔ یوں الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی نگراں وزیراعظم کا متفقہ فیصلہ نہیں کر سکا۔ سمجھ سے باہر ہے کہ ریاض کیانی صاحب نے اپنے ساتھیوں کے فیصلے کی تائید کیوں نہیں کی ۔
آئین کے مطابق نگراں وزیر اعظم کا فیصلہ قائد حزب اقتداراور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر نے باہمی صلاح و مشورے سے کرنا ہوتا ہے۔ لیکن افسوس راجہ پرویز اشرف اور چوہدری نثارعلی خان کوئی فیصلہ نہ کر سکے۔ممکن ہے ، وہ مجبور ہوں کیونکہ وہ بیچارے اپنے مینڈیٹ سے آگے نہیں بڑھ سکتے تھے ۔پھرمعاملہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس چلا گیا لیکن یہاں بھی سیاستدان اپنے اپنے مورچے پر ڈٹے رہے البتہ ٹی وی کیمروں کے سامنے آکر کہتے رہے کہ قوم کو اچھی خبر ملے گی لیکن خوشخبری یہ ملی کہ کوئی فیصلہ نہ ہوسکا۔
آخری فیصلہ الیکشن کمیشن نے کرنا تھا'یہاں سرد گرم چشیدہ سابق جج صاحبان بیٹھے تھے ، انھوں نے ایک دن غور کیا اور دوسرے دن انھوں نے اپنے ہی ایک ساتھی کو نگراں وزیر اعظم نامزد کر دیا۔ بلا شبہ سیاستدانوں نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ وہ اپنے طور پر کوئی فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔انھوں نے تقریباً ایک ہفتہ تک قوم کو انتظار کے عذاب میں مبتلا کیے رکھا لیکن وہ کوئی فیصلہ نہیں کر سکے۔حکومت اور اپوزیشن سے پوچھا جاسکتا ہے کہ جناب موجودہ حکومت بھی آپ ہیں اور اگلی حکومت بھی آپ ہی ہیں ، پھر نگراں کا فیصلہ کرنے کی جرات کیوں پیدا نہیں کی؟ اب الیکشن کمیشن نے کوئی نہ کوئی فیصلہ تو کرنا تھا' قرعہ میر ہزار خان کھوسو کے حق میں نکلا۔جنھیں سب نے تسلیم بھی کرلیا۔
میر ہزار خان کھوسو کی شہرت ایک غیر سیاسی شخصیت کی ہے'ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک سادہ مزاج اور ایماندار شخص ہیں تاہم انھوں نے ایک بار پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن ضرور لڑا لیکن اب کسی سیاسی جماعت کے ساتھ ان کی وابستگی نہیں ہے' اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ انھیں نگراں وزیر اعظم مقرر کرنے کا فیصلہ درست اقدام ہے۔
مسلم لیگ ن نے بھی الیکشن کمیشن کے فیصلے کو تسلیم کر لیا' یہ ان کی جمہوری اسپرٹ ہے تاہم کیا یہ زیادہ بہتر نہ ہوتا کہ اپوزیشن لیڈر اور وزیر اعظم خود ہی اس پر فیصلہ کر لیتے' اس سے ن لیگ کے سیاسی قد کاٹھ میں اضافہ ہوتا اور وہ سینے پر ہاتھ مار کر کہہ سکتی کہ دیکھو، ہم نے صدر زرداری کے پیش کردہ نام کو قبول کر لیا' بالکل اسی طرح جیسے پیپلز پارٹی نے ن لیگ کے تجویز کردہ فخر الدین جی ابراہیم کو بطور چیف الیکشن کمشنر تسلیم کر لیا تھا لیکن دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ سیاستدان ابھی تک اپنی ذات سے آگے دیکھنے پر تیار نہیں ہیں۔یہی وجہ ہے کہ نگراں وزیراعظم کا فیصلہ ٹیکنوکریٹس نے کیا اور کوئی سیاستدان اس منصب پر نہ آسکا۔
میر ہزار خان کھوسو بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں' یہ بھی ایک اچھی بات ہے کہ بلوچستان سے نگراں وزیر اعظم لیا گیا ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ نگراں وزیر اعظم بلوچستان سے ہیں جب کہ صدر زرداری سندھ کے بلوچ ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان کا تعلق بھی بلوچستان سے ہے۔میرا خیال ہے کہ اب بلوچستان کے عوام کو یہ احساس نہیں ہونا چاہیے کہ اقتدار کے ایوانوں میں ان کی شنوائی نہیں ہے۔
اگر ن لیگ کا نامزد نگراں وزیر اعظم لیا جاتا تو وہ سندھ سے ہونا تھا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن دونوں نے نگراں وزیر اعظم کے لیے جو نام تجویز کیے' ان میں کسی کا تعلق پنجاب سے نہیں تھا' پیپلز پارٹی کے دو نام تھے' جن میں میر ہزار خان کھوسو بلوچستان سے تھے جب کہ دوسرا نام ڈاکٹر عشرت حسین تھے' ان کا تعلق کراچی کے اردو بولنے والوں سے تھا۔ ن لیگ کے تین ناموں میں رسول بخش پلیجو' معروف قوم پرست اور سوشلسٹ خیالات کے حامل سندھی لیڈرہیں' وہ سندھ ہی نہیں بلکہ ملک بھر کے ترقی پسند حلقوں میں انتہائی عزت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں' جب اے این پی وجود میں آئی ، تب وہ اس کے مرکزی سیکریٹری جنرل بنے تھے۔
ان کے صاحبزادے ایاز لطیف پلیجو عوامی تحریک اور نیشنلسٹ الائنس کے لیڈر اور میاں نواز شریف کے اتحادی ہیں' میری ذاتی خواہش تھی کہ وہ نگراں وزیراعظم بنتے لیکن پیپلز پارٹی نے ان کے نام کو منظور نہیں کیا۔ جسٹس ریٹائرڈ ناصر اسلم زاہد قابل احترام جج رہے اور ان کا تعلق کراچی سے تھا۔بہرحال نگراں وزیراعظم آنے سے ملک کا انتخابی منظر نامہ واضح ہو گیا ہے۔ نگراں سیٹ اپ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں سابق ججوں کی اکثریت ہے' سیاستدانوں کا نگراں حکومتوں میں حصہ بالکل نہیں ہے، دوسرے لفظوں میں اسے ہم ججوں کی حکومت کہہ سکتے ہیں۔
سیاست دانوں کا یہ استدلال تسلیم کہ الیکشن کمیشن کو نگراں وزیر اعظم چننے کا اختیار انھوں نے ہی آئین میں شامل کیا تھا۔ اب اگر اس کا فیصلہ وہ نہیں کر سکے تو یہ کوئی غیر آئینی کام نہیں ہوا۔ سیاست دانوں کا ازخود نتیجے پر نہ پہنچنا اپنی جگہ ناکامی ہے لیکن ایک بات حوصلہ افزاء ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار خوش اسلوبی سے یہ مرحلہ طے کیا گیا ہے۔ معین قریشی جیسے کسی وزیر اعظم کو امپورٹ نہیں کیا گیا اور نہ ہی آئی ایم ایف کے کسی مقامی کردار کو جگہ مل سکی ۔میر ہزار کھوسو نا صرف پاکستانی ہیں بلکہ ان کا تعلق اس صوبے سے ہے جہاں سب سے زیادہ احساس محرومی پایا جاتا ہے۔
مجھے امید ہے کہ ان کی موجودگی میں اس احساس محرومی میں کمی ہو گی اور بلوچستان میں الیکشن کا انعقاد مشکل نہیں رہے گا۔ بلوچستان والے ایسا ضرور محسوس کریں گے کہ ان کے اپنے صوبے کی ایک محترم شخصیت کے ہوتے ہوئے کوئی ان کا مینڈیٹ چرانے کی جرات نہیں کرے گا۔ چیف الیکشن کمشنر کے عہدے پر پہلے سے فخرو بھائی کی شکل میں ایک غیر متنازعہ شخصیت موجود ہے۔ مجھے یہ توقع بھی ہے کہ اس بار الیکشن کے نتائج پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکے گا۔باقی اﷲ مالک ہے۔