’ڈیربنٹ‘ روس کا قدیم ترین شہر

یہ شہر عہد ماضی کی روایات کا امین ہے اور آج بھی دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔


Mirza Zafar Baig February 04, 2018
یہ شہر عہد ماضی کی روایات کا امین ہے اور آج بھی دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔ فوٹو: فائل

Derbent کا یہ شہر بحیرۂ کیسپئن کے درمیان ایک تنگ نائے اور دور یورپ اور ایشیا کے سرے پر سر اٹھائے کھڑے Caucasus Mountain کے درمیان واقع ہے۔ اس کو ہم ایران اور روس کے درمیان ایک بڑی نمکین جھیل بھی کہہ سکتے ہیں جسے دریائے وولگا اپنا پانی فراخ دلی سے فراہم کرکے بھرتا ہے اور علاقائی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ خوب صورتی اور حسن کا باعث بھی بنتا ہے۔

واضح رہے کہ دریائے وولگا دنیا میں پانی کا وہ سب سے بڑا ٹکڑا ہے جو خشکی کے اندر دور تک گھس آیا ہے۔ اسی سنگم پر Derbent کا قدیم اور تاریخی شہر واقع ہے۔

٭Derbent کا لفظ کہاں سے آیا؟

یہ اصل میں قدیم فارسی لفظ ''دربند'' سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے: بند دروازے۔ ماضی بعید میں یہاں سمندر پر اس انداز کی پہاڑیاں تھیں جنہیں دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کوئی بند دروازہ سامنے کھڑا ہے اور سمندر کو چیلینج کررہا ہے کہ خبردار اگر تم ادھر آئے تو تمہاری خیر نہیں۔ اس طرح افسانوی طور پر یہاں سمندر کے سامنے دروازے بندکرکے گویا اسے بتادیا جاتا تھا کہ تمھاری حد اور حکم رانی بس وہیں تک ہے۔

٭تاریخی اہمیت:بہرحال اس ماضی کے قدیم اور تاریخ شہر Derbent کو روس کا قدیم ترین شہر مانا اور تسلیم کیا جاتا ہے اور اس کا تعلق آٹھویں صدی قبل مسیح سے بتایا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں اس شہر کی بڑی تاریخی اہمیت ہے۔

اس اہم ترین محل وقوع کی وجہ سے تاریخ کے گزرتے ادوار کے ساتھ ساتھ اس شہر کی ملکیت بار ہا بدلتی رہی۔ کبھی یہ اہل فارس کے زیرنگیں رہا تو کبھی عربوں نے اس پر حکم رانی کی اور کبھی اس پر منگول قابض ہوگئے تو کبھی تیمور لنگ کی افواج نے اس کو اپنے قبضے میں کرلیا، شروانیوں نے بھی اس پر بہت طویل عرصے تک حکومت کی، مگر انہوں نے اس شہر کی ترقی اور خوش حالی کے لیے متعدد منصوبے بھی بنائے اور بڑی جدوجہد بھی کی۔ اس کے ساتھ ساتھ فارس یعنی ایران کی سلطنتوں اور حکومتوں نے بھی اس شہر بے مثال کی سربلندی کے لیے بڑے کام کیے، شاید اسی لیے یہ شہر تاریخ بھی آج بھی زندہ و جاوید بنا ہوا ہے۔

٭انیسویں صدی:پھر انیسویں صدی آئی تو ماضی کے اس قدیم اور شان دار شہر کی باگ ڈور ایرانیوں کے ہاتھوں سے نکل کر روسیوں کے ہاتھوں میں آگئی۔ اقدار کی یہ منتقلی 1813کے گلستان معاہدے کے تحت وجود میں آئی تھی۔

٭شان دار تاریخ: یہ شہر یعنیDerbent کوئی معمولی شہر نہیں ہے، بلکہ اس کی تاریخ کم و بیش پانچ ہزار سالوں پر محیط ہے، اسی لیے اسے روس کا قدیم ترین شہر کہا اور تسلیم کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ Derbent شہر روس کا انتہائی جنوبی شہر اور داغستان کا دوسرا سب سے اہم شہر سمجھا جاتا ہے۔ ماضی کا یہ شان دار اور پرشکوہ شہر Derbent جو زمانہ قدیم میں کانسی کے عہد کی ایک چھوٹی سی بستی ہوا کرتا تھا، بعد میں مشرقی یورپ کے قرون وسطیٰ کے عظیم الشان شہروں میں شمار کیا گیا۔ اس شہر نے وہ ترقی کی کہ دنیا اسے دیکھ کر ہکا بکا رہ گئی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ شہر شروع سے ہی ایک زبردست شہری (اربن) ڈھانچا ہوا کرتا تھا۔

یہ ایک ایسی تنگ سمندری پٹی کے میدانوں میں واقع ہے جس کی چوڑائی 3کلومیٹر سے بھی کم ہے۔ اس کے ساتھ دفاعی فصیل کی چوڑی دیواریں بھی ہیں جو دور تک Caucasus پہاڑوں میں کوئی چالیس کلومیٹر تک اندر چلی گئی ہیں۔

٭ ایک بے مثال محل وقوع اور آمدنی کا ذریعہ:پورے Caucasus خطے میں Derbent کی پوزیشن بحیرۂ کیسپئن اور پہاڑوں کے درمیان بڑی زبردست ہے۔

اس کی وجہ سے Derbent کے حکم رانوں کو وہ پوزیشن مل گئی کہ وہ یورپی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے درمیان گزرنے والے ٹریفک کو کنٹرول کرتے تھے اور یہاں سے گزرنے والے تجارتی قافلوں پر لیوی ٹیکس بھی وصول کرتے تھے۔

Derbent کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ اپنے محل وقوع کی وجہ سے بہت سے حکم رانوں کو بہت محبوب رہا۔

یہ شہر شروع سے ہی بڑی تاریخی اہمیت کا حامل رہا۔

اس شہر کا یہ نیا اور جدید ترین نام اسے چھٹی صدی عیسوی میں اس وقت دیا گیا جب اس شہر کو از سر نو تعمیر کیا گیا اور یہ اہم کام فارس کے ساسانی حکم رانوں نے کیا تھا۔

٭دفاعی فصیلیں:Derbent کی شان دار جڑواں پتھروں کی دیواریں جو پہاڑوں سے لے کر سمندر تک پھیلی ہوئی ہیں، اسی پہلے دور میں تعمیر کی گئی تھیں۔ یہ دیواریں 12میٹر بلند اور تین میٹر چوڑی ہیں اور دونوں کے درمیان 300سے 400میٹرز کا فاصلہ ہے۔ Derbent کا قدیم شہر انہی دونوں دیواروں کے درمیان تعمیر کیا گیا تھا۔ البتہ ان دیواروں یا فصیلوں کے باہر ہر چیز نئی اور جدید ہے۔یہاں Naryn-Kala نامی قلعہ بھی واقع ہے جو اس پہاڑی کے اوپر واقع ہے جو شہر کے اوپر لٹکا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ یہ دفاعی قلعہ ان دفاعی تعمیرات کے مرکز یا قلب میں واقع ہے۔

٭عربوں کے زیرتسلط:654 میں Derbent عربوں کے زیرتسلط آگیا اور انہوں نے اسے ''باب الابواب'' کا نام دیا تھا یعنی ''دروازوں کا دروازہ'' جس سے اس شہر کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ان عربوں نے اس شہر کو ایک اہم ترین انتظامی مرکز میں بدل دیا اور یہاں اسلام کی تبلیغ بھی کی اور اس کی نشر و اشاعت بھی کی جس سے یہاں اسلام کو فروغ ملا۔ اس دور میں یہاں مساجد بھی تعمیر ہوئیں اور جامع مساجد یعنی بڑی مساجد بھی بنوائی گئیں۔

٭Derbent کی آبادی:نویں صدی عیسوی میں Derbent سب سے بڑا شہر تھا جس کی آبادی 50,000 سے زائد نفوس پر مشتمل تھی۔ عربوں کے بعد یہ خطہ امریکیوں کے زیرنگیں آگیا جنہوں نے وہاں ایسی مضبوط اور مستحکم سلطنت کی داغ بیل ڈالی جو تیرھویں صدی تک قائم رہی جس کے بعد قدیم اور جنگجو منگولوں نے اس صدی کے اوائل میں اس خطے پر اپنا قبضہ جمالیا۔

٭حکم رانوں کی تبدیلی:Derbent کی قسمت کے بارے میں تاریخ نے بھی اس کے ساتھ بڑے بڑے مذاق کیے، مورخ اور تاریخ داں اس بات پر حیران ہیں کہ اس کے بعد آنے والی کئی صدیوں میں اس شہر کے حکم راں بدلتے رہے اور یہ شہر مختلف لوگوں اور افراد کے زیرتسلط آتا رہا۔

ایک زمانے میں یہ شہر شروانی بادشاہوں کے کے کنٹرول میں بھی رہا جو آذربائی جان کے ایک جدید سلطنت تھی۔ انہیں Shirvanshahs کہا جاتا تھا۔ یہ ان کا خطاب بھی تھا اور لقب بھی۔ ان کے علاوہ یہاں یعنیDerbent پر ایرانیوں نے بھی حکومت کی اور عثمانیوں نے بھی اور انہوں نے اپنے اپنے حساب سے اس شہر کو ترقی بھی دی اور اسے آنے والے وقتوں کے لیے ایک مضبوط اور مستحکم شہر بنایا جس پر انہوں نے بڑی شان اور وقار کے ساتھ حکومت کی۔ پھر انیسویں صدی میں روس اور فارس کی جنگ کے خاتمے پر Derbent داغستان کے بڑے حصوں کے ساتھ روسی بادشاہت میں شامل ہوگیا۔

٭آج کا Derbent:آج کا Derbent ایک جدید شہر بن چکا ہے جس کی دفاعی فصیلیں اور یہاں کی زمانۂ قدیم کی باقیات اور کھنڈرات دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے کشش کا باعث ہیں جو دنیا بھر کے ملکوں سے بڑے شوق سے انہیں دیکھنے یہاں آتے ہیں۔ ان دفاعی فصیلوں پر بنائے گئے حفاظتی مینار آج بھی پرانی حالت میں موجود ہیں۔ ان میناروں میں محفاظ بھی ہوتے ہیں اور وہ حسب دستور اس دفاعی فصیل کی نگرانی کرتے ہیں۔

٭خلیفہ ہارون الرشید اور Derbent:کہا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں معروف عباسی خلیفہ، ہارون الرشید بھی اس عظیم تاریخی شہر میں رہتا تھا، اسی نے اس شہر کو آرٹس اور تجارت و سوداگری کا مرکز بنایا تھا۔ وہ ہمیشہ سے فنون کا دیوانہ تھا، علم کے فروغ کا شیدائی تھا اور دنیا بھر میں اس نے اپنی دل چسپی کی وجہ سے علم و ادب کی بڑی خدمت کی۔ عرب تاریخ دانوں کے مطابق نویں صدی عیسوی میں Derbent کی آبادی نصف لاکھ تھی اور دسویں صدی عیسوی میں عربوں کے زوال کے بعد Derbentامارات کا دارالحکومت بنادیا گیا۔ مگر چوں کہ یہ اکثر اپنی پڑوسی عیسائی ریاستوں سے برسر پیکار رہتے تھے، اس لیے تاریخ میں ایک ایسا وقت بھی آیا جب اس کی پڑوسی عیسائی ریاست Sarir کو اس کی سیاست میں دخل اندازی کا موقع مل گیا، اس کے باوجود امارات نے اپنے حریف کو شکست فاش دے کر اپنی ترقی اور خوش حالی کے حصول کا سفر جاری رکھا۔ یہ بات 1239عیسوی کی ہے جب اس خطے پر منگولوں نے دھاوا بولا تھا۔ چودھویں صدی میں Derbent پر تیموری سپاہ نے قبضہ کرلیا۔

٭شروان شاہوں کا عہد: شروان شاہوں کا عہد اس خطے پر 861سے1538تک قائم رہا۔ غالباً یہ اسلامی دنیا کا سب سے طویل دور تھا جو اس علاقے یا اس قدیم تاریخی شہر نے دیکھا تھا۔

یہ عہد اپنے ثقافتی کارناموں اور جیوپولیٹیکل تحقیق اور ریسرچ کے حوالے سے بے مثال تھا۔ شروان کے بادشاہ ''شروان شاہ'' کہلاتے تھے۔ انہوں نے اٹھارویں بادشاہ ''فریدون اول'' کے دور سے متعدد بار Derbend پر حملے کیے گئے اور اس شہر کو فتح کرنے کی کوشش کی جاتی رہی، شروع میں تو وہ کام یاب نہ ہوسکے، مگر وہ وقت بھی آیا جب آخر کار وہ کام یاب ہوا۔ اس شہر پر حکم رانی کرنے کے لیے گورنر مقرر بھی کردیا گیا ، پھر گزرتے وقت کے ساتھ اس شہر کے حاکم بھی بدلتے چلے گئے اور یہ شہر ایک بار پھر ماضی کی دھول میں دب گیا۔

٭21ویں شروانی بادشاہ کا کارنامہ:اس کے بعد 21ویں شروانی بادشاہ آخستان اول نے اس شہر کو فتح کرلیا، مگر بعد میں شمالی غارت گروں نے اسے ان سے پھر چھین لیا اور اس شہر کی قسمت ایک بار پھر تاریکیوں میں کھونے لگی۔

٭ابراہیم اول کا عہد:تیمور لنگ کے بعد ابراہیم اول جو 33واں شروانی بادشاہ تھا، اس نے شروان پر عمدگی سے حکم رانی کی اور اسے ایک آزاد ریاست قرار دے دیا۔ ابراہیم اول نے شروان کی قسمت ہی بدل ڈالی۔ اس نے اپنی ریاست کی حدود میں بھی اضافہ کیا۔ اسی بادشاہ نے 1437میں Derbend کے شہر کو فتح کرلیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شروانیوں نےDerbend شہر کو سیاسی بنیادوں پر بھی مستحکم کیا اور اس کے لیے متعدد اچھے فیصلے بھی کیے، یہ انہی شاہوں کی عمدہ پالیسیاں تھیں جن کی وجہ سے اس شہر کی قسمت ہی بدل گئی۔ مگر بعد میں سولھویں صدی کے اوائل میں شروان کی سلطنت کو صفوی سلطنت کے شاہ اسماعیل نے فتح کرلیا۔ جب شاہ اسماعیل نے شروانیوں کو مکمل شکست فاش دی تو اس نے Derbend بھی نہ چھوڑا اور یہ عظیم تاریخی شہر بھی اسی کے قبضے میں چلا گیا۔

٭آگے کی کہانی:Derbend ایرانیوں کے قبضے میں رہا، مگر اسی دوران یہ وقفے وقفے سے عثمانی ترکوں کے قبضے میں بھی جاتا رہا جیسے 1583میں بیٹل آف ٹارچز کے بعد جب استنبول کا معاہدہ ہوا، پھر اس وقت بھی جب روسیوں نے اس شہر پر قبضہ کیا اور ایرانیوں نے داغستان پر بھی قبضہ کیا۔ روسیوں نے 1722-23کی مہم جوئی کے بعد 1735کا معاہدہ کیا تھا جو Treaty of Ganja کہلاتا ہے۔ یہ معاہدہ شاہی روس اور صفوی ایران کے درمیان کیا گیا تھا۔ اس کے تحت روس کو Derbent کا شہر ایران کو واپس دینا پڑا۔ پھر 1747میں Derbent کا شہر Derbent Khanate کا دارالحکومت بن گیا۔ 1796میں فارسی مہم جوئی کے دوان Derbent پر روسیوں نے جنرل ویلی ریئن زوبو کی قیادت میں دھاوا بول دیا، مگر انہیں اندروانی سیاسی مسائل کے باعث پسپا ہونا پڑا جس کے نتیجے میں یہ شہر ایک بار پھر فارسیوں کے پاس چلا گیا۔

٭Derbent کی آبادی:1886میں Derbent میں کل آبادی میں اکثریت روسیوں کی تھی جو مجموعی آبادی کا 58,9% تھے۔ ایرانی نسل کے لوگوں کی تعداد 8,994 تھی یعنی یہ لوگ اس شہر میں دوسرے نمبر پر تھے۔

٭محل وقوع اور جغرافیہ:جدید Derbent شہر بحیرۂ کیسپئن کے مغربی کناروں پر تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کے جنوب میں تاباسارن پہاڑوں کی ڈھلوانوں پر دریائے روباس بہتا ہے۔ آج کے اس جدید شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ بھی موجود ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ Derbent شہر کی اپنی بندرگاہ بھی ہے۔ ریلوے کا نظام بھی ہے جس کے تحت جنوب میں باکو تک ٹرینیں چلتی ہیں اور باکو سے بہ ذریعہ سڑک روستوف بھی جایا جاسکتا ہے۔ اس شہر یعنی Derbent کے شمال میں ایک بے مثال یادگار بھی تعمیر کی گئی ہے جسے Kirk-lar کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ یہ یادگار اصل میں چالیس ہیروز کی یاد میں بنائی گئی ہے جنہوں نے 728میں عربوں کی یلغار کے خلاف داغستان کا بھرپور دفاع کرتے ہوئے اپنی سرزمین کے لیے اپنی جانیں قربان کی تھیں۔ یہاں آنے والے لوگ اور سیاح اس یادگار پر جاتے ہیں اور ان ہیروز کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔

Derbent کے جنوب میں پچاس میل طویل Caucasian wall ہے جو سمندری ہواؤں اور اس کے غیرمعمولی طوفانوں کی شدت سے تحفظ کے لیے بنائی گئی ہے۔ اسے دیوار سکندر بھی کہا جاتا ہے۔ اس نے بحیرۂ کیسپئن کے فولادی دروازوں کے ساتھ تنگ آب نائے کو بند کررکھا ہے۔ جب یہ دیوار صحیح سلامت تھی تو اس کی بلندی 9 میٹر یا 29فیٹ تھی اور اس کی موٹائی لگ بھگ تین میٹر یا دس فیٹ تھی۔ اس کے فولادی دروازے ہیں اور دیوار پر متعدد واچ ٹاورز بھی بنے ہوئے ہیں جو ایران کی سرحد سے تحفظ فراہم کرتے ہیں۔

٭کاروبار اور تجارت:Derbent کا شہر تجارت اور کاروبار کا ایک بڑا عالمی مرکز ہے جس کے رابطے دنیا بھر کے اہم ملکوں اور تاریخی شہروں سے بھی ہیں۔ اس شہر بے مثال میں ہر طرح کی ضرورت کی مشینیں بھی بنائی جاتی ہیں، خوراک، ٹیکسٹائل، ماہی گیری اور متعدد تعمیراتی مواد کی فراہمی بھی اسی تاریخی شہر سے کی جاتی ہے۔ یہاں پارچہ بافی بھی ہوتی ہے اور دنیا کے کئی ملکوں میں یہاں کا بنایا ہوا کپڑا کافی پسند کیا جاتا ہے۔

یہاں کی وڈ انڈسٹری یعنی لکڑی کی صنعت بھی بہت مشہور ہے۔ اس شہر کی لکڑی کو بہت پسند کیا جاتا ہے، اس میں بڑی عمدہ قسم کی اور نایاب لکڑی شامل ہے جن کی مدد سے تعمیر کیے جانے والے مکانات بہت عمدہ اور مضبوط ہوتے ہیں۔ ان متذکرہ بالا اشیا کے علاوہ اس شہر کی ایک اور speciality بھی ہے، وہ یہ کہ یہ شہر روسی برانڈی کی تیاری کا ایک بڑا مرکز بھی ہے۔ یہاں کا تعلیمی نظام بھی اچھا خاصا ہے۔ اس شہر میں ایک یونی ورسٹی بھی موجود ہے اور اس کے ساتھ ساتھ متعدد ٹیکنیکل اسکول بھی شامل ہیں جہاں یہاں کے بچے اور بچیاں عمدہ تعلیم حاصل کرکے دنیا بھر کے کسی بھی تعلیمی ادارے میں داخلہ لے سکتے ہیں۔ یہاں کے لوگ بہت خوش مزاج ہوتے ہیں، دوسروں کی مدد کرکے خوش ہوتے ہیں۔ اپنے ہاں آنے والے مہمانوں کا بھرپور استقبال کرتے ہیں، ان کی ہر طرح سے میزبانی بھی کرتے ہیں۔ مہمانوں کو اپنے لیے خوشی اور خوش حالی کا سبب سمجھتے ہیں۔

Derbent میں ایک بہت بڑا میوزیم ہے اور اس کے شان دار اور حسین پہاڑ بھی بے مثال اور قابل دید ہیں، اس شہر کے ساحلوں کا کوئی جواب نہیں ہے، شاید اسی لیے یہ شہر دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور وہ بھی اس شہر کو دیکھنے اور اس کے ماضی کی کہانیوں کے بارے میں جاننے اور ان سے لطف اندوز ہونے کے لیے یہاں کھنچے چلے آتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔