قابل قدر شاعر قتیل شفائی پہلی قسط
پاکستان کی پہلی گولڈن جوبلی فلم ’’نوکر‘‘ کے نغمات لکھنے کا اعزاز بھی قتیل شفائی کو ہی حاصل ہوا تھا۔
یہ وہ دور تھا جب مشاعرے ہماری ثقافت کا بڑے پیمانے پر حصہ ہوا کرتے تھے اور طالب علمی کے زمانے سے ہی قتیل شفائی،کلیم عثمانی اور حمایت علی شاعر کے شیدائی ہوا کرتے تھے ۔ اس زمانے میں ہر کالج میں سالانہ مشاعرے بھی ہوا کرتے تھے اور ان مشاعروں میں نوجوان شاعروں کے علاوہ ملک کے نامور شاعر بھی حصہ لیا کرتے تھے.
کراچی کے علاوہ لاہور سے بھی شاعروں کو مدعو کیا جاتا تھا اور جس مشاعرے میں کلیم عثمانی اور حمایت علی شاعر ہوتے تھے تو ان کا ترنم بھی سب کو بڑا اچھا لگتا تھا اور لوگ ان کے کلام کو ترنم سے سن کر بہت خوش ہوتے تھے لیکن جب کسی مشاعرے میں قتیل شفائی آتے تھے تو بغیر ترنم کے ہی اپنے کلام سے ساری محفل کو گرما دیا کرتے تھے۔ اس دور میں حمایت علی شاعر کی ایک نظم بڑی مقبول تھی۔
تجھ کو معلوم نہیں تجھ کو بھلا کیا معلوم اور ہر مشاعرے میں اس نظم کی ضرور فرمائش ہوا کرتی تھی، اسی طرح قتیل شفائی کی ایک غزل بڑی مشہور تھی جس کا بڑا چرچا رہتا تھا اس غزل کا مطلع تھا:
حسن کو چاند جوانی کو کنول کہتے ہیں
اُن کی صورت نظر آئے تو غزل کہتے ہیں
پھر جب حمایت علی شاعر فلمی دنیا میں آئے تو ان کی مشہور نظم کو فلم ''آنچل'' میں پہلی بار استعمال کیا گیا جسے سلیم رضا کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا اور قتیل شفائی کی مشاعروں میں پڑھی جانے والی مشہور غزل کو فلم ''پائل کی جھنکار'' میں شامل کرلیا گیا تھا اور یہ بھی کیسا حسن اتفاق تھا کہ قتیل شفائی کی اس غزل کو بھی سلیم رضا ہی کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ قتیل شفائی کی ایک غزل کے ذریعے جو فلم قاتل میں شامل کی گئی تھی اس غزل سے ایک ایسی غزل کی گلوکارہ جو ابھی تک صرف خواص کی محفلوں میں شرکت کرتی تھی وہ عوام کی نظروں میں بھی مقبول ہوتی چلی گئی اور وہ گلوکارہ تھی اقبال بانو۔ فلم ''قاتل'' سے جسے شہرت ملی۔ اور اس غزل کا مطلع تھا:
الفت کی نئی منزل کو چلا تو بانہیں ڈال کے بانہوں میں
دل توڑنے والے دیکھ کے چل ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں
اب آتا ہوں میں قتیل شفائی کے ایک اور اعزاز کی طرف۔ وہ یہ کہ ہندوستان کی تقسیم کے بعد جب پاکستان میں فلم انڈسٹری کا باقاعدہ آغاز ہوا تو پاکستان کی پہلی فلم ''تیری یاد'' کے گیت بھی قتیل شفائی نے تحریر کیے تھے اور پاکستان کی پہلی گولڈن جوبلی فلم ''نوکر'' کے نغمات لکھنے کا اعزاز بھی قتیل شفائی کو ہی حاصل ہوا تھا۔ فلم ''نوکر'' میں ان کی لکھی ہوئی ایک شہرہ آفاق لوری نے بڑی دھوم مچائی تھی جس کے بول تھے:
راج دلارے توہے دل میں بساؤں
میری اکھیوں کے تارے میں تو واری واری جاؤں
اور اس سے بہتر لوری پھر آج تک نہیں لکھی گئی اور نہ ہی کوئی لوری اس جیسی مقبول ہوئی۔ قتیل شفائی کے کریڈٹ میں ایک اور بات بھی جاتی ہے کہ ان کی جدوجہد کی وجہ سے EMI گرامو فون کمپنی میں پاکستان کے فلمی گیت نگاروں کو رائلٹی دیے جانے کا قانون پاس کرایا اور اس قانون کے بعد قتیل شفائی، کلیم عثمانی، خواجہ پرویز، تسلیم فاضلی، مسرور انور اور پھر بعد میں مجھے بھی رائلٹی کا حقدار قرار دیا گیا تھا۔ اس سے پہلے کہ میں قتیل شفائی کے باقاعدہ فلمی سفر کی طرف آؤں ان کی ابتدائی زندگی اور ان کی ادبی وشاعرانہ شخصیت کی کتاب کھولوں۔
قتیل شفائی نے 1991 میں ہری پور ہزارہ کے سنگلاخ چٹانوں جیسے علاقے میں پیدا ہوکر یہ احساس دلایا کہ پتھروں کا سینہ چیرکر ہی میٹھے پانی کے چشمے پھوٹتے ہیں اسی لیے ان کی شاعری میں جھرنوں اور چشموں کا ترنم بسا ہوا ہے۔ قتیل شفائی کا اصلی نام محمد اورنگ زیب تھا اور انھوں نے نوعمری سے ہی شعر کہنا شروع کردیے تھے جب یہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہری پور سے راولپنڈی آئے تو یہاں انھیں شاعری کے ایک استاد حکیم محمد شفا کی قربت مل گئی۔
ایک بزرگ شاعر اور استاد کی شاگردی میں ان کی شاعری پروان چڑھتی رہی اور حکیم محمد شفا کے نام کی مناسبت سے ان کا تخلص بھی قتیل شفائی رکھا گیا تھا۔ قتیل شفائی کے والد ان کی کم عمری میں ہی انتقال کرگئے تھے اس لیے ان کی کوئی زیادہ بہتر تعلیم نہ ہوسکی تھی انھیں ادب اور شاعری کا قدرتی شوق تھا پھر مطالعے کی وجہ سے ان کا شعری ذوق بڑھتا چلا گیا۔
پھر یہ پنڈی سے لاہور آگئے اور یہاں کی ادبی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگے اسی دوران مشہور ادبی رسالے ادب لطیف کے کچھ عرصہ ایڈیٹر بھی رہے اسی دوران ان کی تخلیقات پاکستان کے ادبی رسائل کے علاوہ دہلی کے بھی معیاری ادبی رسالوں میں بھی شایع ہوتی رہیں اور ان کی ایک خاص پہچان بنتی چلی گئی ذیل میں ان کی چند غزلوں کے مطلع اور کچھ اشعار بھی درج کیے جا رہے ہیں:
مرحلہ رات کا جب آئے گا
جسم سائے کو ترس جائے گا
چل پڑی رسم جو کج فہمی کی
بات کیا پھر کوئی کہہ پائے گا
٭٭٭
اپنے ہونٹوں پہ سجانا چاہتا ہوں
آ تجھے میں گنگنانا چاہتا ہوں
آخری ہچکی ترے زانو پہ آئے
موت بھی میں شاعرانہ چاہتا ہوں
٭٭٭
رات کے سناٹے میں ہم نے کیا کیا کھائے ہیں
اپنا ہی جب دل دھڑکا ہم سمجھے کہ وہ آئے ہیں
٭٭٭
جب تصور مرا چپکے سے تجھے چھو آئے
دیر تک اپنے بدن سے تری خوشبو آئے
اب ان کی ابتدائی دور کی ایک غزل کے چند اشعار قارئین کی نذر ہیں۔
رقص کرنے کا ملا حکم جو دریاؤٔں میں
ہم نے خوش ہو کے بھنور باندھ لیے پاؤں میں
اُن کو بھی ہے کسی بھیگے ہوئے منظر کی تلاش
بوند تک بو نہ سکے جو کبھی صحراؤں میں
جو بھی آتا ہے بتاتا ہے نیا کوئی علاج
بٹ نہ جائے ترا بیمار مسیحاؤں میں
جس برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
اس کو دفناؤ مرے ہاتھ کی ریکھاؤں میں
قتیل شفائی کی غزلیں اب رفتہ رفتہ ریڈیو اور ٹیلی وژن کے فنکاروں کی بھی توجہ کا مرکز بنتی جا رہی تھیں اور کئی غزلوں کو بہت سے ریڈیو اور ٹیلی وژن کے فنکار گاتے ہوئے شہرت کے ہم سفر بنتے جا رہے تھے یہ ایسی ہی ایک غزل تھی:
یارو کسی قاتل سے کبھی پیار نہ مانگو
اپنے ہی گلے کے لیے تلوار نہ مانگو
گر جاؤ گے تم اپنے مسیحا کی نظر میں
مر کر بھی علاجِ دل بیمار نہ مانگو
سچ بات پہ ملتا ہے سدا زہر کا پیالہ
جینا ہے تو پھر جرأت اظہار نہ مانگو
اُس دور کی ایک اور خوبصورت غزل جس کا مطلع ہے:
صدیوں کا رت جگا مری راتوں میں آگیا
میں اک حسین شخص کی باتوں میں آگیا
یا پھر ایک اور دلکش غزل کا دل میں اترنے والا یہ مطلع:
نہ خواب ہمارے ہیں نہ تعبیریں ہیں
ہم تو پانی پہ بنائی ہوئی تصویریں ہیں
اس دور کی بے شمار غزلیں پاکستان کے نمایاں اردو رسائل میں شایع ہوتی رہی تھیں جنھیں بعد میں گلوکارہ اقبال بانو، فریدہ خانم اور مہدی حسن بھی غزل کی محفلوں میں گاتے رہے ایک ایسی ہی دلنواز غزل کے چند اشعار بھی قارئین کی نذر کرنے کو دل چاہ رہا ہے:
یہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے مجھے
کہ سنگ تجھ پہ گرے اور زخم آئے مجھے
قتیل شفائی کی بے شمار غزلیں جنھیں اپنے دور کے گلوکار اور گلوکارائیں گاتی رہیں اور پھر ان میں سے کئی غزلیں فلموں کی ضرورت بھی بنتی چلی گئیں۔ اب میں آتا ہوں ان کی فلمی دنیا سے وابستگی کی طرف۔
(جاری ہے)