بولی وڈ اور اسرائیل کی متوقع ثقافتی جیت
اب بولی وڈ کے ذریعے اسرائیل، دنیا بھر میں تہذیبی اور ثقافتی طور پر اپنی جگہ بنانا چاہتا ہے۔
گزشتہ دنوں، اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہوکے دورۂ بھارت کی بازگشت ہر جگہ سنائی دی ۔ ماہرین نے مختلف زاویوں سے اس دورے کو دیکھا اور مستقبل کے بارے میں قیاس آرائیاں کیں ۔ اس حوالے سے خبروں کا جائزہ لیتے لیتے میری نظروں سے ایک تصویرگزری، جس میں بولی وڈ کے نامور ستاروں کے درمیان نیتن یاہو راجا اندر بنے کھڑے جگمگا رہے ہیں اور بگ بچن بڑے تفاخر سے اس حسین لمحے کوکیمرے کی آنکھ میں قید کر رہے ہیں۔
سطحی نظر سے اس تصویرکو دیکھا جائے تو یہ نیتن یاہوکی فن اور فنکاروں سے دلی قربت اور لگاوٹ کے واضح ثبوت کے سوا کچھ بھی نہیں، لیکن کہتے ہیں ناں کہ ظاہر عموماً دھوکا ہی دیتا ہے۔اس لیے بہتر ہوگا کہ اس فلمی منظر سے باہر آکر حقیقت کی دنیا میں پاؤں دھرتے ہیں اور نیتن یاہوکی بولی وڈ سے بے انت محبت کی وجوہات تلاش کرتے ہیں۔
بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات کے پچیس سال مکمل ہونے پر نیتن یاہو نے بھارت کا دورہ کرکے اس وقت کو یادگار بنانا چاہا ۔ دورے میں، ان کے ساتھ ایک سو تیس افراد پر مشتمل اسرائیلی تاجروں کا وفد بھی تھا۔ روایات کے برعکس بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بنفسِ نفیس ایئرپورٹ جا کر اسرائیلی وزیر اعظم کا استقبال کر کے ثابت کیا کہ وہ چار ہاتھ آگے بڑھ کر دوستی کے سفر میں اسرائیل کا ساتھ دینے کو تیار ہیں۔ نیتن یاہو کے دورہ بھارت میں سب سے زیادہ اہم ان کا دورہ ممبئی رہا، جہاں ''شلوم بالی وڈ'' کے نام سے تاج محل ہوٹل میں ان کے لیے ایک خاص تقریب کا اہتمام کیا گیا۔
نیتن یاہو نے بولی وڈ کے فلمی ستاروں سے ملنے کی خواہش خود ظاہر کی تھی ۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نیتن یاہو نے بولی وڈ کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملائے اور کہا،''دنیا بولی وڈ کو پسند کرتی ہے، اسرائیل بولی وڈ کو پسند کرتا ہے اور میں خود بھی بولی وڈ کو ہی پسند کرتا ہوں'' تقریب میں انھوں نے بھارت اسرائیل دوستی کا بھی خوب راگ الاپا اورکہا''میں چاہتا ہوں بھارت اور اسرائیل کے ایک ایک شہری کو ہماری بے مثال دوستی کے بارے میں معلوم ہو'' ساتھ ہی کہا''ہمیں بولی وڈ پر یقین ہے، ہمیں انڈیا پر یقین ہے اور ہمیں اسرائیل اور بھارت کے تعلقات پر یقین ہے'' شلوم بولی وڈ تقریب میں اسرائیل کی جانب سے بھارتی فلم سازوں اور اداکاروں کو راغب کرنے کے لیے ایک ویڈیو بھی دکھائی گئی۔
حیفہ، ایلات، مسادا، یروشلم اور تل ابیب کے دل فریب مقامات اس ویڈیو کا حصہ تھے، جہاں فلموں کی شوٹنگ کے لیے بولی وڈ کے ستاروں کو دعوت دی گئی۔ نیتن یاہو کی تقریر کو ہندی میڈیا میں اگر خا ص الخاص جگہ دی گئی تو دوسری جانب، تقریب کے اختتام پر آسکر کی طرز پر لی گئی ایک سیلفی کو پوری دنیا کے میڈیا میں بھی سرخی کے طور پر پیش کیا گیا۔
دلچسپ امر تو یہ ہے کہ نیتن یاہو کے اس دورے کے موقعے پر ہی ''نیتن یاہو واپس جاؤ'' کے نام سے ایک تحریک بھی چلائی گئی، جس کے تحت بولی وڈ کے ہی بعض نامور ستاروں نے شلوم بولی وڈ تقریب کا بائیکاٹ کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔ معروف فلم ساز آنند پٹھوردن، جو مزاحمتی تحریک کا حصہ رہے، نے کہا،''حقیقی انڈیا ہمیشہ فلسطین کے حقیقی عوام کا ہی دوست رہے گا، خواہ وہ مسلمان ہوں، عیسائی ہوں یا پھر یہودی۔''
یہ بات اب کس سے ڈھکی چھپی ہے کہ بین الاقوامی سطح پر اسرائیل کو ہمیشہ ناپسندیدہ رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہودی کمپنیوں اور مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کی مہمات بھی پوری دنیا میں چلائی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ دنیا کی بعض نامور شخصیات اسرائیل جانے تک سے انکارکر دیتی ہیں۔ اپنی پالیسیوں کے سبب عالمی فضا اسرائیل کے حق میں پوری طرح ہموار نہیں ہو پاتی۔ ایسے منظرنامے میں اسرائیل کا بولی وڈ پر ہاتھ رکھنا معمولی بات نہیں۔
میڈیا میں فلموں کی اہمیت سے انکار کیا ہی نہیں جا سکتا اور فلمی دنیا میں بولی وڈ کا سورج سرچڑھ کر بولتا ہے۔ ممبئی کی ملٹی بلین ڈالر کی فلمی صنعت سے ہر سال 1900 فلمیں ریلیز ہوتی ہیں۔ دنیا کا وہ کون سا خطہ ہے جہاں بولی وڈ کی فلمیں دیکھی نہ جاتی ہوں۔ ذہنوں کو بنانے اور بگاڑنے میں سیاسی کھلاڑیوں نے ہمیشہ فلمی صنعت کو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے ہی استعمال کیا ہے۔
لاکھوں کی تعداد میں پروپیگنڈا فلمیں بنائی گئیں، جن کے ذریعے حالات، واقعات اور شخصیات کی شبیہہ بنائی اور بگاڑی گئی، جہاں تک بات ہے بھارتی فلمی صنعت کی! تو یہاں ابتدا ہی سے یہودیوں کا فعال کردار رہا ہے، جس دور میں ہندو اور مسلم گھرانوں کی عورتوں کا فلموں میں کام کرنا ایک عجوبہ تھا ، اس وقت یہودی خواتین کے ذریعے ہی بھارتی فلمی صنعت کی داغ بیل ڈالی گئی، جن میں دو نمایاں نام نادرہ اور سلوچنا کے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ بولی وڈ یہودیوں کے ان احسانات کا بدلہ چکائے۔
بے جا اسرائیلی پالیسیوں اور مظالم نے اسرائیل کی مقبولیت میں واضح کمی کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب بولی وڈ کے ذریعے اسرائیل، دنیا بھر میں تہذیبی اور ثقافتی طور پر اپنی جگہ بنانا چاہتا ہے۔ اسرائیل اب بولی وڈ کی سیڑھی پر قدم جماکر دنیا پر اثرانداز ہونے اور عالمی رائے عامہ اپنے حق میں ہموارکرنے کی کوششیں کرے گا۔
بولی وڈ کے لیے اسرائیل نے نہ صرف اپنے دروازے کھولنے کی رضامندی دی ہے بلکہ یہاں بھاری سرمایہ کاری کا بھی لالچ دیا ہے۔ بھاری مالی مفادات اور برتری کی خواہش میں ایسی پیشکشوں اور مواقعے سے فائدہ اٹھانے میں بولی وڈ کا کوئی ثانی ہی نہیں۔ تجارتی نقطۂ نظر سے اسرائیل کی پیشکش موقع پرست بولی وڈ کے لیے نہایت مسحورکُن ہے۔ بولی وڈ کو رجھانے کا اسرائیلی حربہ نیا نہیں بلکہ کافی سالوں سے جاری ہے۔
بولی وڈ کی رواں ماہ اپریل میں جاری ہونے والی فلم ''ڈرائیو'' کے لیے بھی جافا اور تل ابیب کی لوکیشن کو استعمال کیا گیا ہے، جس کے مالی اخراجات نیتن یاہو کے حکم سے اسرائیل کی وزارت خارجہ و سیاحت نے برداشت کیے۔ گزشتہ سال ہی اسرائیل کے ایک وزیر مائیکل اورین نے ممبئی کا دورہ کیا تھا، جس میں انھوں نے بولی وڈ کے نامی گرامی پروڈیوسرز سے ملاقاتیں کرکے انھیں فلم سازی کے لیے اسرائیل آنے کی دعوت دی تھی۔
گزشتہ سال ہی دسمبر میں اسرائیل کی وزارت خارجہ کی جانب سے بولی وڈ کے پانچ ہدایت کاروں اور فلم سازوں کو اسرائیل بلایا گیا اور انھیں ان جگہوں کے دورے کروائے جہاں ممکنہ طور پر فلموں کی عکس بندی کی جاسکتی ہے اور اب نیتن یاہو کی بولی وڈ کے ستاروں سے ملاقات یہ ثابت کرتی ہے کہ اسرائیل ہر قیمت پر اپنی رہی سہی عزت کو بچانے، اپنی بقا اور شہرت کے لیے ثقافتی آلے کے طور پر بولی وڈ کا استعمال کرنے کو بے تاب ہے۔ نیتن یاہو کے پاس بولی وڈ کے علاوہ اب کوئی امید نہیں بچی۔
پوری دنیا میں فن اور ثقافت سے تعلق رکھنے والے نامور ستارے اسرائیل کو ثقافتی طور پر تنہا کر تے جارہے ہیں۔ فنکاروں نے باہمی اشتراک سے یہ طے کیا ہے کہ جب تک اسرائیل بین الاقوامی قوانین کی پاس داری نہیں کرتا اور فلسطینیوں کے مطالبے کی تکمیل نہیں کرتا اس وقت تک وہ اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں رکھیں گے۔
اسی لیے برطانیہ کی معروف اداکارہ اور گلوکارہ روجر واٹر، امریکی گلوکارہ لارن ہل، برطانوی ہدایت کار کین لوچ، بھارتی نژاد امریکی فلم ساز میرا نائر اور بے شمار فلمی ستاروں نے اسرائیل کے لیے یا اسرائیل جاکر اپنے فن کا مظاہرہ کرنے سے انکار کردیا ہے۔ گزشتہ ماہ نیوزی لینڈ کی مشہور گلوکارہ لورڈ نے احتجاجاً، تل ابیب میں منعقد ایک کنسرٹ میں اپنی شرکت منسوخ کردی۔ اس عالمی ردعمل کے ردعمل میں نیتن یاہو کی امیدوں کا تمام تر مرکز بولی وڈ بن چکا ہے۔
بھارت اور اسرائیل کا نظریاتی اتحاد تو بے مثال ہے، دونوں جگہ انتہائی دائیں بازو کی حکومتیں ہیں۔ دونوں سیاسی میدان میں موقعے سے فائدہ اٹھانا بھی خوب جانتے ہیں۔ یہی جراثیم بولی وڈ میں بھی موجود ہیں۔ اب بولی وڈ میں اسرائیلی سرمایہ کاری سے جو فلمیں بنیں گی ان میں ایک پاک پَوِتر اسرائیل کی شبیہہ بنا کر پیش کی جائے گی۔ اسرائیلی فوجیوں کی مظلومیت کا رونا رویا جائے گا۔ فلسطینیوں کو ظالم بنا کر پیش کیا جائے گا۔ اسرائیل کی متوقع ثقافتی جیت کا سہرا جلد ہی بولی وڈ کے سر بندھنے والا ہے۔