طلبہ کے ساتھ ناروا سلوک
نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد بلوچ عوام میں عمومی طور پر اور نوجوانوں میں شدید احساس محرومی پیدا ہوا۔
پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ اور بلوچ اور پختون طلبہ کے درمیان جھگڑا ہوا۔ لاہور میں زیر تعلیم پختون اور بلوچ طلبہ نے اپنے ساتھی طلبہ کے ساتھ یکجہتی کے لیے لاہور پریس کلب کے سامنے مظاہرے میں حصہ لیا۔ 30کے قریب طالب علموں کو گرفتار بھی کیا گیا۔ ان پر دہشت گردی کی دفعات بھی لگائی گئیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں، ترقی پسند طلبہ نے اس صورتحال پر احتجاج کیا۔ حسین نقی اور عاصمہ جہانگیر نے آواز بلند کی۔
بلوچستان کے وزیر داخلہ لاہور آئے، یوں یہ دفعات ختم ہوئیں اور طلبہ کو ضمانت پر رہائی ملی۔ پنجاب یونیورسٹی سمیت ملک کی پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں میں طلبہ تنظیموں کے درمیان جھگڑے اور فساد ایک معمول کی بات ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں جمعیت کی اجارہ داری کی تاریخ خاصی قدیم ہے۔
عمومی طور پر جب تعلیمی اداروں میں اس طرح کے تصادم ہوتے ہیں تو انتظامیہ مداخلت کرتی ہے۔ انتظامیہ کی درخواست پر پولیس آتی ہے۔ پولیس والے عموماً دونوں طرف کے طالب علموں کو گرفتار کرتے ہیں، اگر تصادم میں آہنی اسلحہ استعمال نہ ہوا ہو یا کوئی طالب علم ہلاک یا شدید زخمی نہیں ہوا ہو تو دونوں طرف کے طلبہ کو ذاتی مچلکوں اور تنبیہہ کے بعد رہا کردیا جاتا ہے۔
یوں اگرکوئی فرد ہلاک ہوجائے تو علیحدہ ایف آئی آر درج ہوتی ہے اور قانون کے مطابق عمل ہوتا ہے۔ عام طور پر ہر یونیورسٹی کی ڈسپلین کمیٹی متحرک ہوتی ہے۔ ہنگامہ کرنے والے طلبہ کو ڈسپلین کمیٹی کے اظہار وجوہ کے نوٹس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ڈسپلن کمیٹی معروضی صورتحال کے مطابق فیصلے کرتی ہے۔
ایک اخبار میں شایع ہونے والی خبر میں الزام لگایا گیا کہ بلوچ طلبہ ایک ترانہ گارہے تھے جس میں بلوچستان کی آزادی کا ذکر تھا۔ بلوچی زبان اور کلچر سے عدم واقفیت نے اس صورتحال کو خراب کر دیا۔ بلوچوں کا ترانہ وہاں ایک قومی ترانے کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ بلوچی ترانہ ایوب دور میں بلوچ سردار نوروز خان اور اس کے بیٹوں کو پھانسی دینے کے بعد تحریرکیا گیا تھا۔ اس ترانے میں میر چاکر خان کا ذکر ہے۔
میر چاکر اعظم رند بلوچ نے شیر شاہ سوری کے خلاف فتح حاصل کرنے میں مغل بادشاہ ہمایوں کا ساتھ دیا اور اس طرح شہسوار بلوچ نے ایرانیوں کے خلاف جنگ لڑی اور میر حمل ہوت نے پرتگالیوں کے خلاف جنگ کی، یہ سب بلوچ ہیرو تھے۔ جب نواب نوروز خان کو پھانسی دی گئی تو استاد عبدالمجید گوادری نے ترانہ تحریر کیا جوکہ ہر بلوچ اپنے پروگراموں اور جشنوں میں پڑھتا ہے۔ یہ بلوچوں کے لیے ''لب پہ آتی ہے دعا '' کی طرح ہے۔ اس ترانے کا عنوان ہے ''ماچکیں بلوچانی، ماچکیں بلوچانی'' جس کے معنی ہم بلوچوںکے اولاد ہیں، ہم بلوچوںکے اولاد ہیں کے ہیں۔
بلوچستان گزشتہ 17 برسوں سے خانہ جنگی کی صورتحال کا شکار ہے۔ نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد بلوچ عوام میں عمومی طور پر اور نوجوانوں میں شدید احساس محرومی پیدا ہوا۔ بلوچ طلبہ کی تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے ایک احتجاجی مہم شروع کی۔ مقتدرہ نے طاقت سے اس مہم کو کچلنے کی کوشش کی، کوئٹہ اور پھر کراچی سے بلوچ طلبہ لاپتہ ہوئے۔ جب ڈاکٹر اﷲ نذر اور ان کے ساتھیوں نے کراچی پریس کلب کے سامنے بھوک ہڑتال کی تو اس بھوک ہڑتال میں شرکت کرنے والے طلبہ کو نامعلوم افراد اٹھا کر لے گئے۔
بلوچستان میں دیگر صوبوں سے آ کر آباد ہونے والے ڈاکٹر، اساتذہ، صحافیوں، وکلاء، سرکاری ملازمین، پولیس افسران حتی کہ خواتین بھی ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے، یوں بہت سے اساتذہ، ڈاکٹر اور سرکاری ملازمین بلوچستان چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ پھر بلوچستان میں تعلیم اور صحت کا شعبہ شدید متاثر ہوا۔اس کے ساتھ ہی لاپتہ ہونے والے سیاسی کارکنوں کی مسخ شدہ لاشیں ملنے لگیں، یوں لاپتہ کارکنوں کے لاپتہ ہونے اور مسخ شدہ لاشیں ملنے کا سلسلہ پہلے قومی سطح پر اجاگر ہوا اور پھر یہ بین الاقوامی مسئلہ بن گیا۔
جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے ایجنڈے میں یہ معاملہ شامل ہوگیا۔ اقوام متحدہ نے اپنا فیکٹ فائنڈنگ مشن پاکستان بھیج دیا۔ اس وقت آصف زرداری صدر اور یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم تھے۔ میموگیٹ اسکینڈل کی بناء پر پیپلز پارٹی کی حکومت سخت دباؤ میں تھی۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اقوام متحدہ کے مشن سے تعاون نہیں کیا مگر لاپتہ افراد کے لواحقین اور انسانی حقوق کے کارکن مشن کے سامنے پیش ہوئے۔ پھر اس مشن کی ایک منفی رپورٹ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے ایجنڈا میں شامل ہوئی۔اس صورتحال میں پاکستان کا امیج متاثر ہوا۔ جب پاکستانی وفد نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کا مسائلہ اٹھایا تو بھارتی مندوب اس رپورٹ کا حوالہ دینے لگے۔
بلوچستان میں 2008ء میں پیپلز پارٹی نے حکومت بنائی، نواب اسلم رئیسانی وزیر اعلیٰ بنے تو وہ بلوچستان کے حالا ت قابو نہ کر سکے، ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ، فرقہ وارانہ بنیادوں پر قتل، اغواء برائے تاوان، سیاسی کارکنوں کے اغواء اور مسخ شدہ لاشیں ملنے کا سلسلہ جاری رہا۔ جب 2013ء میں نیشنل پارٹی کے ڈاکٹرعبدالمالک وزیر اعلیٰ بنے تو انھوں نے بلوچستان کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے متعدد اقدامات کیے۔
ڈاکٹر مالک منحرف بلوچ رہنماؤں کو ملک واپسی کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ انھوں نے ایک قبائلی لشکرکے خاتمے کے لیے جدوجہد کی۔ یہ لشکر ہزارہ منگول برادری کی نسل کشی، فرقہ وارانہ حملوں اور سیاسی کارکنوں کے اغواء اور مسخ شدہ لاشوں کے معاملات میں ملوث بتایا جاتا تھا۔ صوبے میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی۔
اسی زمانے میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے پنجاب کی یونیورسٹیوں میں بلوچستان کے طالب علموں کی نشستوں میں خاطرخواہ اضافہ کیا۔ انھوں نے بلوچ طلبہ کو وزیر اعلیٰ ہاؤس میں خوش آمدید کیا اور اعلان کیا کہ اس پسماندہ صوبے کے طلبہ کے لیے مزید مراعات دی جائیں گی، اس پیشکش سے خاصے طلبہ نے فائدہ اٹھایا۔
بلوچستان میں سیاسی کارکنوں اور دانشوروں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو سمجھتی ہے کہ بلوچ جوانوں کو 1973ء کے آئین کے تحت حقوق حاصل کرنے کے لیے پرامن جدوجہد کرنی چاہیے۔ سردار اختر مینگل، حاصل بزنجو اور ڈاکٹر عبدالمالک وغیرہ نے ہمیشہ قوم پرست سیاست کی ہے۔ ان کے بزرگوں نے بلوچوں کے حقوق کے لیے تاریخی قربانیں دی ہیں۔
اگرچہ اختر مینگل اور حاصل بزنجو اور ڈاکٹر مالک کا علیحدہ علیحدہ جماعتوں سے تعلق ہے مگر یہ رہنما انتخابی سیاست پر یقین رکھتے ہیں۔ اختر مینگل نے اپنے آبائی علاقے وڈھ میں یونیورسٹی کے قیام کے لیے زمین عطیے کے طور پر دی ہے۔ وزیر داخلہ احسن اقبال نے گزشتہ دنوں اس سرکاری یونیورسٹی کا سنگ بنیاد بھی رکھ دیا ہے۔
یہ رہنما سمجھتے ہیں کہ بلوچ نوجوانوں کو جدید تعلیم حاصل کرنی چاہیے، یوں بلوچ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے دیگر صوبوں میں قیام پذیر ہیں۔ ان طلبہ نے بندوقوں کے راستے کو مسترد کیا ہے اور تعلیم کا راستہ اختیار کیا ہے۔ ان کو تھانوں میں بند کرنے اور تشدد کا نشانہ بنانے سے صورتحال خراب ہو گی۔ اب تو پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف بھی کہتے ہیں کہ انھیں شیخ مجیب الرحمن بننے پر مجبور نہ کیا جائے۔ یہ بات ان بلوچ اور پختون طلبہ پر صادق آتی ہے۔ ہم سب کو میاں نواز شریف کی بات سے ہی سبق حاصل کرنا چاہیے۔