افغانستان کو دوست بنائیے
بساط سے بڑھ کر کام کیاہے مگرالمیہ یہ ہے کہ ہمارے بیانیے کودنیا تسلیم نہیں کررہی۔
کابل میں گزشتہ چنددنوں میں حددرجہ خون ریزی ہوئی ہے۔وہ علاقہ جہاں حکومتی ادارے اورغیرملکی سفارتخانے ہیں،دارالحکومت کا محفوظ ایریا گرداناجاتاہے۔ پہلاحملہ ہوٹل انٹرکونٹی نینٹل پرہوا۔ غیرملکیوں سمیت بیس سے زیادہ لوگ مارے گئے۔ہوٹل کی لابی میں دہشتگرد چلاچلاکرپوچھتے رہے کہ گورے کدھرہیں، انھیں قتل کرناہے۔نتیجہ میں چودہ غیرملکی شہری قتل کردیے گئے۔معاملہ یہاں نہیں رُکا۔
چھ دن پہلے بارود سے بھری ایمبولنس کو اسی محفوظ علاقے میں اُڑادیا گیا۔ ایک سولوگ مارے گئے ،دوسو سے زیادہ زخمی ہوئے۔ حملے کے بعدکی ایک تصویرانتہائی تکلیف دہ تھی۔ایک ضعیف افغان سرجھکاکربے بسی سے عام لوگوں کے جسم کے چیتھڑے اُڑتے دیکھ رہاتھا۔مرنے والوں میں اکثرعام شہری تھے جن کا جنگ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ انھیں قطعاًیہ اندازہ نہیںہوگاکہ انھیں کیوں قتل کیاجارہاہے۔چاردن قبل، دہشتگردوں نے کابل کی ٹریننگ اکیڈمی پر الصبح حملہ کردیا۔ گیارہ کیڈٹ جان بحق ہوئے۔
ایک ہفتہ میں ڈیڑھ سوکے قریب لوگ مارے جاچکے ہیں۔ان تمام واقعات کی ذمے داری جہادی تنظیموں نے قبول کی ہے۔ افغان حکام نے چندایسی تنظیموں پرذمے داری ڈالی ہے جوان کے بقول پاکستانی سرزمین سے افغانستان میں دہشتگردی کررہے ہیں۔
اب یہ ایک معمول ہے کہ افغان حکام کہتے ہیں کہ دہشتگردی ہمارے ملک میں مقیم جہادی تنظیمیں کررہی ہیں۔ اورہم یہ کہتے ہیں کہ بالکل نہیں۔ہم نے تمام دہشتگردتنظیموں کاقلع قمع کردیاہے مگر خون ریزی افغانستان میں رک رہی ہے اورنہ پاکستان میں۔یہ درست ہے کہ پاکستان نے دہشتگردوں کے خلاف فتح حاصل کی ہے۔ مگربلوچستان اور کے پی میں ہمارے نوجوانوں کوشہیدکرنے کے واقعات تسلسل سے جاری ہیں۔
اب تک صورتحال اتنی نہیں بگڑی تھی،جتنی اب ہے۔ امریکا سمیت تمام اہم ممالک دہشتگردی کے خلاف ہماری جدوجہد کی تعریف ضرورکرتے ہیں۔مگراب ایسے اقدامات کرنے پراصرار کیا جارہا ہے جوہمارے لیے سوہان روح ہیں۔ہم کہہ رہے ہیں کہ اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے۔
بساط سے بڑھ کر کام کیاہے ۔مگرالمیہ یہ ہے کہ ہمارے بیانیے کودنیا تسلیم نہیں کررہی۔ ٹرمپ نے ہماری امداد بہت حد تک بندکردی ہے۔امکان ہے کہ دہشتگردوں سے جنگ میں صرف جزوی فرق پڑیگاکیونکہ ہم نے اپنی عسکری طاقت اتنی مضبوط کرلی ہے کہ امداد روکنے سے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ مگرسکے کے دوسرے رخ پرغورکرنے کی بھی اَشدضرورت ہے۔
پاکستان کو بتدریج تنہااورمحصورکیاجارہاہے۔ چند ملکوں کوچھوڑکرایک عمومی تاثر پیدا کیا گیا ہے کہ ہم دہشتگردی کی جنگ میں تمام جہادی گروہوں پرہاتھ نہیں ڈال رہے۔یہ تاثراس وقت دنیاکے مضبوط ترین ممالک میں جڑ پکڑ چکا ہے۔ہماری بات اوربیانیے کومن وعن تسلیم نہیں کیا جارہا۔ ہماری ہربات کومنفی رنگ دیا جارہا ہے۔سفارت کاراس حدتک موثرنہیں ہوپارہے،جتنے کہ انڈین،افغانی اورامریکی سفارت کارہیں۔
افغانستان ہرجگہ اپنے آپ کومظلوم ثابت کررہاہے اوردنیاکوباورکرارہاہے کہ اس کے شہری،جن تنظیموں کی بدولت قتل ہورہے ہیں،انکاتعلق ہماری زمین سے ہے۔یہ حددرجہ خطرناک بیانیہ ہے اوراسکوزائل کرنا بے حدضروری ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس بیانیے کے مقابلے میں اپناقومی بیانیہ ثابت کرنے میں کامیاب نہیں ہوپا رہے۔ناکام ہونے کالفظ استعمال نہیں کررہاکیونکہ اس سے دل شکنی بھی ہوگی اورملک میں منفی تاثرپھیل سکتا ہے۔ یہ ناختم ہونے والی بحث ہے۔ اصل نکتہ یہ ہے کہ کون سے اقدامات کیے جائیں کہ پاکستان اور افغانستان میں انتہائی کشیدہ تعلقات بہتر ہوسکیں۔
عسکری معاملات اورایک دوسرے پرالزامات توچلتے رہیںگے۔گزراش ہے کہ پاکستان یونیورسٹیوں اورکالجوں کے اعتبارسے کافی بہترہے۔پرائیویٹ اسکول،کالج اور یونیورسٹیاں قدرے بہترتعلیمی ضروریات پوری کررہی ہیں۔ اگرہم قومی سطح پران اداروں کے مالکان کے ساتھ بیٹھ کر فیصلہ کریں کہ ہمارے ادارے افغانستان کے پُرامن علاقوں میں ذیلی تعلیمی ادارے کھولیں،جن میں افغان اورپاکستانی اساتذہ اورخواتین ٹیچررکھے جائیں اوروہ باقاعدہ تعلیم دیں۔ ہمارے پاس پرائیویٹ میڈیکل کالجز اور انجینئرنگ یونیورسٹیاں موجودہیں۔
ایک زمانے میں سیکڑوں افغان طلباء ہمارے ٹیکنیکل اداروں میں زیرِتعلیم تھے۔یہ تعدادگھٹتے گھٹتے تقریباً نہ ہونے کے برابرہوچکی ہے۔ اگرہم اسکول، کالج، یونیورسٹیاںاورمیڈیکل کی تعلیم دینے والے ادارے، افغانستان کے پرامن علاقوں میں کھولتے ہیں تو تھوڑے عرصے میں مقامی لوگوں کی اکثریت ہمارے متعلق مثبت سوچنے پر مجبور ہوجائیگی۔
ہمارا''سافٹ امیج''تعلیم کی ترویح سے جتنا بہتر ہوسکتاہے،اتناکسی دیگر طریقے سے نہیں ہوسکتا۔تربیت یافتہ انفرادی قوت کی طرف آئیے۔ہمارے پاس اعلیٰ سطح کے انجینئر، ڈاکٹر، آرکیٹکٹ، پیرامیڈیکل اسٹاف موجود ہے۔ کیایہ ممکن نہیں کہ حکومت کی سطح پراپنی افرادی قوت کوافغانستان میں کام کرنے کی سہولت مہیاکریں۔اگرہمارے فنی ماہرین افغان اداروں میں کام کرناشروع کردیں تویہ بھی خاموش سفارت کاری کی بہترین مثال بن سکتی ہے۔
بالکل اسی طرح ایک مربوط پالیسی کے تحت افغان طلباء اورطالبات کو پاکستان کے اداروں میں تعلیم دی کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ اگر افغانستان کے نوجوان ہمارے تعلیمی اداروں میں پڑھیں گے توان کا ذہن پاکستان کے حق میں ہوجائے گا۔ یہ باہمی تعلقات بہتربنانے کے لیے اتنا غیرمعمولی کام ہے،جس کا شاید ابھی ہم پورا اندازہ نہیں کر سکتے۔ ہندوستان بعینہ یہ سب کچھ کررہاہے۔
مثال دیناچاہوںگا۔ایک سرکاری وفد میں اُردن جانے کااتفاق ہوا۔شام کوکھانے پراُردن کے نائب وزیر مہمان خصوصی تھے۔ہمارا سفارتی عملہ بھی موجودتھا۔نائب وزیرنے انتہائی شستہ اُردومیں بات کرنی شروع کردی۔ سارے حیرت زدہ رہ گئے۔ بتایاکہ پیشے کے لحاظ سے انجینئر ہیں اورکراچی کی انجینئرنگ یونیورسٹی میں زیرِتعلیم رہے ہیں۔ان کی ایک بہن فیصل آباد زرعی یونیورسٹی میں پڑھتی رہی۔انھیں کراچی،لاہوراورفیصل آبادکے تمام مشہورعلاقوں کا بخوبی علم تھا۔
لاہورمیں لکشمی چوک کے دیسی کھانوں کی کافی دیرتعریف کرتے رہے۔نائب وزیرسے اپنائیت کا جو سلسلہ شروع ہوا،اس کی بنیادی وجہ ہمارے تعلیمی ادارے تھے۔شائدلوگوں کویقین نہ آئے۔ہمارے پروفیشنل کالجوں میں دنیابھرسے لوگ پڑھنے کے لیے آتے تھے۔ ایران، فلسطین،سعودی عرب،اُردن،یواے ای یعنی ہرطرف سے طالبعلم یہاں پہنچتے تھے۔تعلیم مکمل کرنے کے بعدآخری دم تک یہ لوگ ہمارے ملک کے خیرخواہ رہتے ہیں۔یہ ہماراوہ اثاثہ ہے جس پر ہم ہرطرح کابھروسہ کرسکتے ہیں۔
یہی پالیسی افغانستان کے معاملے میں انتہائی فعال طریقے سے اپنانے کی ضرورت ہے۔تھوڑے سے عرصے میں ہم اپنے ہزاروں سفیرپیداکرلیN گے۔ اسپتالوں کے اعتبارسے پاکستان، افغانستان سے بہت بہترہے۔ایک پالیسی کے تحت افغانی شہریوں کوہمارے پرائیویٹ اسپتالوں میں علاج کرانے کی اجازت ہونی چاہیے۔ مریضوں کے لیے ویزہ کی نرمی بھی کردی جائے توکوئی حرج نہیں بلکہ اس کافائدہ ہی فائدہ ہے۔ ہو سکتاہے کہ جوگزارش کررہاہوں، محدودطریقے پرہوبھی رہا ہو۔ مگراسے فعال اورمربوط بنانے کی ضرورت ہے۔
ایک اورجہت انتہائی اہم ہے۔افغان کلچر اور موسیقی انتہائی اعلیٰ درجہ کی ہے۔فنونِ لطیفہ میں دونوں ملکوں کاتعاون انتہائی کم ہے۔کیایہ نہیں ہوسکتاہے کہ ہمارے موسیقار اور گلوکارافغانستان جاکرموسیقی کے فن پارے پیش کریں۔ متبادل سطح پرافغان گلوکار، ہمارے ملک میں اپنے اپنے شو منعقد کریں۔ایک افغان گلوکار، ناشناس اس خوبصورت آواز کا مالک ہے کہ سننے والادنگ رہ جاتاہے۔اکیلے بیٹھ کرناشناس کی غزلیں سنیں۔ آواز کارچاؤاورلطف آپکو مسحور کر لیتا ہے۔
علم نہیں کہ ناشناس زندہ ہے،یاکہ آخری سفرپر روانہ ہوچکا ہے۔گلوکاروں اوروفودکے تبادلے حددرجہ مفیدہوسکتے ہیں۔فنونِ لطیفہ کاعنوان اس حدتک وسیع ہے کہ اس میں کام کرنے کی بہت گنجائش موجودہے۔آج تک نہیں سناکہ افغانستان سے کوئی ثقافتی طائفہ،ہمارے بڑے شہروں میں آیا ہو۔ وہاں افغان موسیقی کے کنسرٹ ہوئے ہوں۔
اس رابطے سے دونوں حکومتوں کواپنے اپنے سخت رویے نرم کرنے میں مددملے گی۔اسی طرح افغان کھانے اَزحد لذیذ ہیں۔ تجویزہے کہ دونوں ممالک میں باہمی تعاون کے ذریعے سے کھانوں کے نمائشی بازارلگنے چاہیے۔اگریہ تجربہ کامیاب ہوجائے توپھران تمام معاملات کوباقاعدہ منظم سالانہ پروگرام میں بدل دیناچاہیے۔
یہ سب کچھ کیوں عرض کررہاہوں۔جہاں بھی پاکستان اورافغانستان کاذکرآتاہے۔لڑائی،خودکش حملے، جنگ اور مارکٹائی کے سوا کچھ بھی سننے کونہیں ملتا۔ دونوں ملکوں کی حکومتیںایک دوسرے پراعتمادنہیں کرتیں۔ بداعتمادی کی باہمی فضااب خطرے کے آخری نشان کو بھی عبورکرچکی ہے۔
تھوڑی دیرکے لیے جنگ کے زاویے سے سوچنا چھوڑ دیجیے۔تعلیم،فنی تعاون،فنونِ لطیفہ کے معاملات اور دیگر زاویوں سے تعاون کیجیے۔ معاملات آہستہ آہستہ بہتر ہوجائیں گے۔دہشت گرد تنظیمیں نہ ہماری دوست ہیں اور نہ افغانستان کی۔ عسکری سطح پرمعاملات اپنی جگہ، مگر سیکڑوں ایسے شعبے ہیں جن میں باہمی دشمنی کوکم بھی کیا جاسکتاہے اورکچھ عرصے کے بعدختم بھی۔ معاملہ اب صرف سوچ بدلنے کاہے!