انصاف میں تاخیر
وکلاء حضرات کی آئے روز کی ہڑتالیں بھی حصول انصاف میں تاخیر کا موجب بن رہی ہیں۔
RIYADH:
جن تابڑ توڑ حملوں کی زد میں ان دنوں ملک کا معتبر ترین ادارہ ہے شاید ہی کوئی دوسرا ادارہ آج تک اس طرح سیاستدانوں کا تختہ مشق بنا ہو اور یہ مشق مسلسل جاری ہے۔ لگتا ایسے ہے کہ اس مشق کے بغیر سیاسی کھلاڑی اپنے آپ کو سیاست میں فٹ نہیں کر پائے اس لیے وہ مسلسل اس مشق میں مصروف ہیں تا کہ اس سے کوئی قابل عمل نتائج حاصل کر سکیں۔
دوسری طرف جو ادارہ نشانے پر ہے اس کے وارثان کا ضبط کمال کا ہے کہ نہ جانے اس میں ان کی کون سی مصلحت پوشیدہ تھی کہ وہ پہلے تو اپنی مسلسل توہین کو برداشت کیے جارہے تھے اور اس عوامی توہین سے صرف نظر کر تے رہے شاید جواب کے لیے کسی مناسب موقع کا انتظار تھا اس لیے ضبط کرتے ہوئے بے جا تنقید کو بھی خندہ پیشانی سے قبول کیا جاتا رہا لیکن بالآخر عدالت نے اپنے ایک کھلم کھلا ناقد کو توہین عدالت میں معمولی سزا دے کر دوسروں کو بھی سرزنش کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ عدلیہ مخالف تقریروں سے باز آجائیں جن میں عدلیہ کے معزز جج صاحبان کو براہ راست نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ایک خبر نظر سے گزری ہے جس کو انوکھی تو نہیں کہا جا سکتا ہے کہ اس طرح کی کئی مثالیں ہمارے ہاں پہلے سے موجود ہیں۔ عدالت کی جانب سے فیصلے اس وقت آئے جس وقت یا تو مدعی ہی اس دنیا سے رخصت ہو چکے تھے یا پھر ملزمان ہی اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا پا گئے اس لیے اس نئی خبر کو دلچسپ ضرور کہا جا سکتا ہے خبر کے مندرجات کے مطابق سو سالہ مقدمے کا فیصلہ بالآخر ہو ہی گیا۔
اراضی کے متعلق کیس جو کہ خیر پور ٹامیوالی کی چھپن سو کنال کے متعلق اس کے دو حقیقی وارثان یعنی بہن نے بھائی کے خلاف 1918ء میں دائر کیا تھا گھومتے گھماتے انگریز دور میں دائر کیا گیا یہ کیس 2005ء میں پاکستانی سپریم کورٹ میں پہنچ گیا جہاں پر مزید تیرہ سال انتظار کے بعد اس کیس کا فیصلہ ہو ہی گیا جس میں مذکورہ اراضی کو شریعت کے مطابق ورثا میں تقسیم کرنے کا حکم دیا گیا۔
اس کیس کے پس منظر کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ جنوبی پنجاب کے شہر بہاولپور کی ایک تحصیل خیر پور ٹامیوالی کے رہائشی نصر اللہ کی پڑدادی روشنائی بیگم جو اس وقت صوبے راجستھان میں قیام پذیر تھیں اپنے بھائی شہاب الدین کے خلاف زمین کی تقسیم کے متعلق ایک درخواست انڈین سول کورٹ میں 1918ء میں دائر کی۔
برصغیر کی تقسیم سے پہلے یہ درخواست راجستھان میں ہی زیر سماعت رہی لیکن قیام پاکستان کے بعد یہ پاکستان منتقل ہوگئی کیونکہ اس کے وارثان کو ان کی بھارت میں موجود جائیداد کے بدلے میں ضلع مظفر گڑھ اور ضلع بہاولپور میں چھپن مربع زمین الاٹ کر دی گئی۔ اس جائیداد کے بارے میں وارثان میں مقدمہ چلتا رہا کبھی ایک عدالت تو کبھی دوسری عدالت۔
فیصلہ کبھی ایک وارث کے حق میں کبھی دوسرے وارث کے حق میں آتا رہا اور اس کے ساتھ وارثان وفات بھی پاتے رہے اور اس پرانی بات کو تقویت ملتی رہی کہ اگر دادا نے مقدمہ کیا تو اس کا فیصلہ اس کے پوتے پڑپوتوں کی نسل میں جا کر ہی ہو گا۔ کئی نسلیں جو اس جائیداد کے لیے انصاف کے حصول کی خاطر انتظار کرتے کرتے منوں مٹی تلے جا سوئی ہیں۔
اس جائیداد کے متعلق بھی کچھ ایسی ہی صورتحال رہی اور دو وراثان کے درمیان شروع ہونے والے اس مقدمے کے اب تقریباً ایک ہزار کے قریب وارث موجود ہیں۔ ان کے حصے میں اس جائیداد کے ٹکڑے ہونے کے بعد کتنا حصہ آتا ہے یہ تو محکمہ مال کے پٹواری ہی بتا سکتے ہیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ سو سالہ یہ مقدمہ ہمارے انصاف کے نظام کے بارے میں ایک بہت بڑا سوال چھوڑ گیا کہ ہمارا نظام عدل بوسیدہ اور اس حالت کو پہنچ چکا ہے کہ وہ نئے وقت کی ضروریات اور تقاضوں کو پورا کرنے سے بالکل قاصر ہے۔
انصاف کے نظام کی حالت زار کا رونا تو ہر وقت رویا جاتا ہے لیکن کبھی کوئی سنجیدہ کوشش اس کی اصلاح یا اس میں بہتری لانے کے لیے نہیں کی گئی۔ مقدمات کی تعداد زیادہ ہے جب کہ ان کو سلجھانے والے ججوں کی تعداد ان کے مقابلے میں خاصی کم ہے جس کی وجہ سے عدلیہ پر بوجھ میں دن بدن اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ مقدمات کے فیصلے کئی سال کے بعد جا کر ہوتے ہیں نظام میں اس قدر سقم موجود ہیں کہ مقدمہ باز پارٹیاں اس کا فائدہ اٹھاتی ہیں جو کہ ایک بڑی وجہ ہے جس کے باعث فیصلوں میں تاخیر ہوتی ہے۔
پاکستان کے چیف جسٹس صاحب نے نئے رہنماء پالسی خطوط جاری کیے ہیں جن میں کچھ معاملات جن میں کرایہ داری، حکم امتناعی اور وراثت کے مقدمات کو چھ ماہ میں نمٹانے پر زور دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے بھی کئی معزز چیف صاحبان کی جانب سے مقدموں کو جلد از جلد حل کرنے کے لیے کئی اقدامات تجویز کیے گئے لیکن ان سے کچھ بھی نہ نکل سکا اور معاملات جوں کے توں رہے اور عوام کے کورٹ کچہری کے چکر حسب معمول جاری رہے۔
پاکستان کے مختلف محکموں میں ملازمین کی تعداد ان کی ضروریات سے کہیں زیادہ ہے لیکن جہاں پر ضرورت ہے وہاں یہ تعداد انتہائی کم ہے۔ یہی حال ہماری عدلیہ کا بھی ہے مقدمات کی شرح کے حساب کے ججوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے اس کے علاوہ وکلاء حضرات کی آئے روز کی ہڑتالیں بھی حصول انصاف میں تاخیر کا موجب بن رہی ہیں۔
عدلیہ کے فیصلوں کو بروقت بنانے کے لیے سب سے پہلے معزز جج صاحبان کی تعداد میں اضافہ ناگزیر ہے جس کے لیے عدالتی نظام میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے اور یہ اصلاحات جس قدر جلد ہوں سب کا مفاد اسی میں ہے ورنہ مقدمات کے فیصلے اسی طرح سو سال کے بعد بھی ہوتے رہیں گے اور ہم چارو ناچار اس انصاف کو قبول کرنے پر راضی ہوں گے ورنہ انصاف کے بارے میں تو یہ مشہور جملہ کہا جاتا ہے کہ انصاف میں تاخیر انصاف نہ دینے کے برابر ہوتی ہے اور ہماری زندگی ایسے المیوں سے بھری پڑی ہے۔