پشاور کی علمی و ادبی سرگرمیاں
پرچے کے 76 مضامین کی جانچ پڑتال کرنا، انھیں ترتیب دینا آسان کام نہیں بلکہ بہت توجہ طلب اور محنت کا متقاضی تھا۔
آرٹس اینڈ لیٹرز تحقیقی مجلے اردو 14، 15، 16 کافی عرصے سے میرے مطالعے میں شامل ہیں، ضخامت کے اعتبار سے 830، 573 اور 357 صفحات پر یہ جرائد مشتمل ہیں۔ ''آرٹس اینڈ لیٹرز'' تحقیقی و علمی مضامین سے مرصع ہے۔ مجلہ 16 کا اداریہ بعنوان ''سامی عربی تاریخ سے چند حقائق کا جائزہ'' حیدر قریشی نے لکھا ہے اور انھوں نے قرآنی آیات کے حوالہ جات سے اپنے مضمون کو مدلل اور وقیع بنادیا ہے، قاری سچ اور جھوٹ میں تفریق کرسکتا ہے۔
پرچے کے 76 مضامین کی جانچ پڑتال کرنا، انھیں ترتیب دینا آسان کام نہیں بلکہ بہت توجہ طلب اور محنت کا متقاضی تھا اور وہ بھی درس و تدریس کی ذمے داریوں کو نبھاتے ہوئے ادبی امور کو انجام دینا جوئے شیر لانے سے ہرگز کم نہیں ہے۔ تینوں پرچوں میں کچھ مضامین تو ایسے شامل ہیں جنھیں پڑھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ جیسے دریا کو کوزے میں بند کردیا گیا ہو، اسلوب بیان دلنشیں، عبارت سادہ اور آسان، جسے ادب کے قارئین دلچسپی کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں، ثقیل الفاظ کی بازگشت سے پرہیز کیا گیا ہے، انھی تحریروں میں بعنوان ''فیض احمد فیض کا شعری و مذہبی رویہ'' عطا اللہ اجمل خان نے بے حد دل کش انداز میں قلم بند کیا ہے۔
وہ فیض کی نظموں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ''فیض نے لفظیات کا استعمال ایسی مہارت سے کیا ہے کہ وہ تصویر جو شاعر کے دل و دماغ میں تھی وہ قاری کے سامنے لانے میں کامیاب ہوگئے، مثلاً ان کے پہلے ہی مجموعہ میں نظم ''تنہائی'' ایک مقبول نظم ہے۔
پھر کوئی آیا دل زار نہیں کوئی نہیں
راہ رو ہوگا کہیں اور چلا جائے گا
ڈھل چکی رات بکھرنے لگا تاروں کا غبار
لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ
(چراغ)
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کرلو
اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا
عطا اللہ اجمل خان فیض کے مذہبی رویے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ''عموماً فیض کو سوشلسٹ نظریہ، لینن پرائز کے حصول اور سوویت یونین کی قربت کی وجہ سے ایک الحاد فکر شاعر سمجھا جاتا ہے تاہم ان کی شاعری، مضامین اور فکر کا سنجیدہ مطالعہ یہ حقیقت قاری پر آشکار کردیتا ہے کہ وہ ایک سچے اور کھرے صوفی کی طرح جز میں کل دیکھتے ہیں اور انسان دوستی کے صوفیانہ رنگ میں ڈوبے ہوئے ہیں، وہ خود بتاتے ہیں کہ مجھے جیل میں درس قرآن دیتے ہوئے دیکھ کر ڈیوٹی پر حاضر کرنل نے حیرت سے پوچھا تھا کہ آپکا مذہب کیا ہے؟
میں نے اسے بتایا کہ میرا مذہب وہی ہے جو مولانا روم کا ہے، کرنل صاحب مولانا روم کا نام سن کر مطمئن ہوگئے، کچھ عرصے بعد دوبارہ پوچھا کہ فیض صاحب! مولانا روم کا مذہب کیا تھا؟ میں نے کہا وہی جو میرا ہے، فیض کے ہاں علامتوں، رمز و کنایہ اور امیجری میں قرآن پاک، احادیث اور مقدس روایات کی آمیزش ملتی ہے۔ بس نام رہے گا اللہ کا۔ جو غائب بھی ہے، حاضر بھی، جو منظر بھی ہے، ناظر بھی، اٹھے گا انا الحق کا نعرہ۔ جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو۔
روبینہ کوثر نے عبداللہ حسین کے ''باگھ'' کا فلسفیانہ جائزہ بہت خوبصورتی کے ساتھ لیا ہے، ''باگھ'' عبداللہ حسین کا دوسرا ناول ہے، ''اداس نسلیں'' کے 21 سال بعد منظر عام پر آیا، وہ لکھتی ہیں کہ عبداللہ حسین ایسے کہانی کار تھے جن کو ادب کی لغت میں ناول نگار کہا جاتا ہے، ان کے ناول کائناتی وسعتوں اور تہذیبی گہرائیوں سے گزرتے اور ان کی ذات تک سفر کرتے اور وہ ساری کہانی کو نتیجہ کردیتے ہیں''۔
عبداللہ حسین کا ناول ''باگھ'' ایک علامتی ناول ہے جسکی تمام تر فضا استعاراتی ہے، ''باگھ'' میں ایک پراسراریت قائم ہے، اسلامیہ کالج پشاور سے یہ معیاری پرچے سالنامے کے طور پر سامنے آتے ہیں اسی لیے پورے سال کی ادبی کاوش اور علمی جدوجہد، تحقیقی اور تخلیقی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت سامنے آتا ہے، مجلہ 14 بھی 33 مضامین کا احاطہ کرتا ہے، اسی میں ڈاکٹر محمد عباس کا مضمون بھی موجود ہے، ناصر کاظمی کی شاعری کی پرتیں نفاست کے ساتھ کھولتا ہے اور قاری کے لیے فکر کی راہوں کو ہموار کرتا ہے، ''دیوان ناصر کاظمی میں حقیقت نگاری اور انقلاب کی لہریں'' یہی موضوع ڈاکٹر صاحب کی تحریر کا ہے۔
مضمون نگار نے ناصر کاظمی کی زندگی میں آنیوالی تبدیلیوں اور ان کی شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے قلم کو جنبش دی ہے کہ ''یوں تو ناصر کی تمام شاعری کئی سیاسی، سماجی، نفسیاتی، ذاتی اور اجتماعی حوالے رکھتی ہے لیکن یہاں ان کے مجموعے ''دیوان'' کو حقیقت نگاری اور انقلاب کے تحت پرکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ''دیوان'' کی سولہویں غزل کا تجزیہ اس طرح کرتے ہیں کہ غزل کی فضا بھی حقیقت اور اچھے دنوں کے خواب لیے ہوئے ہے، جس میں شاعر کو اپنے شہر کی گلیوں کی تاریکی کا احساس اور اچھے دنوں کی قوی امید ہے۔
شہر کی بے چراغ گلیوں میں
زندگی تجھ کو ڈھونڈتی ہے ابھی
وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
علمی، تحقیقی، تنقیدی اور تاریخی مضامین کا مجموعہ ''سفر کی دھول'' اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے، اس کی وجہ سے میں بھی رسائل کے ساتھ سفر کرتے ہوئے پشاور پہنچ گئی ہوں پھر کیوں نہ ایک پنتھ دو کاج والا اہم فریضہ انجام دے ڈالوں۔ ''سفر کی دھول'' کے مصنف فصیح الدین ہیں جن کا تعلق پولیس سروس آف پاکستان سے ہے یہ اچھا کام کیا کہ ذہن کی بالیدگی اور تسکین روح کا سامان اہل علم کے لیے لائبریری کی شکل میں موجود ہے، ویسے بھی آج کل کتابیں خریدنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔
سو اس کا انتظام کردیا گیا ہے، یقینا یہ کام ایک مثبت سوچ کے تحت عمل میں آیا ہے، کتاب میں 81 مضامین شامل ہیں اور سب کی اہمیت مسلم ہے، مذہبی، سیاسی، معاشرتی، ادبی، غرض مصنف کے لکھے ہوئے مضامین معاشرے کے کسی نہ کسی پہلو کو اجاگر کرتے ہیں، انتساب شہرت یافتہ خواتین کے نام ہے جنھیں روشنی کے استعاروں کا نام دیا گیا ہے اور اس کی وضاحت اپنے مضمون عرض مصنف ''درماندہ و رہرو کی صدائے دردناک'' میں کر دی ہے۔
''سفر کی دھول '' میں جو مضامین پڑھنے کو ملتے ہیں وہ یقینا قلمکار کے وسیع مطالعہ اور افکار عالیہ کا پتا دیتے ہیں، مضامین کی خوبی یہ ہے کہ اہم واقعات کی نشاندہی کرکے انھیں صداقت کی روشنی سے منور کرتے ہیں۔ ایک جگہ اپنے مضمون ''جنرل شاہد کا جنون۔۔۔۔ ملامت یا سنگھار'' میں لکھتے ہیں کہ ''یہ وہ درس جنوں ہے جس کا پیالہ قیس نے پیا، جسکی شراب سرمد اور منصور نے پی، جس کا ذائقہ ہٹلر، چنگیز خان، تیمور لنگ، سلطان محمد فاتح، ماؤزے تنگ اور چی گویرا نے چکھا، یہ وہ لذت آشنائی ہے جس کے لیے ابراہیم ابن ادھم اور اشرف جہانگیر سمنائی نے تخت و تاج کو لات ماری، یہ وہ بے مثل کیف و سرور ہے جسکے درد کے سامنے اپنے دانت شہید کرتے ہوئے اویس قرنی کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہوئی''۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اس کی فصیح الدین پر بھی وجدانی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور وہ اسی کیفیت میں مبتلا ہوکر لفظوں کے موتیوں سے مالا پروتے چلے جاتے ہیں، تخلیقی و تعمیری سوچ نے فکر کے در وا کیے تو اتنا لکھا کہ 5 کتابیں شایع ہوچکی ہیں ایک شعری مجموعہ ''دچنے چپے'' ، ''امواج جنوں'' جوکہ پشتو زبان میں ہے۔ انگریزی کی دو کتابیں Criminology کے حوالے سے ہیں۔ اتنے اہم عہدے پر رہتے ہوئے لکھنے پڑھنے کے کام کے لیے وقت نکال لینا بے شک بڑی بات ہے اور ایسی بڑی باتیں انھیں کرتے رہنا چاہیے۔