سدھائے ہوئے گھوڑے
نیب کا رعب داب بڑے بڑے حکمران بھی بہ امر مجبوری تسلیم کرتے ہیں۔
ایک شاعر کے بقول مجنوں کو صرف دو ہی عذاب لاحق تھے ایک لیلیٰ کے وصال کا اور دوسرا اس کے ہجر کا۔ جب وصال ہوتا تو اس کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے اور وداع اور ہجر تو ہے ہی ایک سوہان روح آزار۔ یہ فارسی کے ایک شاعر کا خیال ہے لیکن ایک اردو شاعر نے بھی جو اپنی بے تکی اور مزاحیہ شاعری کی وجہ سے مشہور تھا یہی بات کہی ہے اس نے جب محبوب کا تصور کیا تو سارا مزاح اور بے تکا پن جاتا رہا۔ استاد امام دین گجراتی نے کہا کہ
دو ہی گھڑیاں عمر بھر میں مجھ پر گزری ہیں کٹھن
اک ترے آنے سے پہلے اک تیرے جانے کے بعد
لیکن افسوس کہ ہماری حکومت کا حال بیان کرنے کے لیے کسی شاعر کو تحریک نہیں ہوئی حالانکہ اس پر دو نہیں کئی عذاب گزر رہے ہیں اور اس کے علاوہ کئی آزار اس کو لاحق ہو چکے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ اگر ایک سرکاری ادارہ حکومت کی بات مانتا ہے تو اس کا فیصلہ بھی حکومت کے خلاف سمجھا جاتا ہے اور جو ادارہ نہیں مانتا وہ تو مخالف اقدام کرتا ہی ہے۔
نیب کا رعب داب بڑے بڑے حکمران بھی بہ امر مجبوری تسلیم کرتے ہیں نیب نے میاں نواز شریف کے خلاف عدالتی فیصلے کے بعد عدالتی احکامات کی روشنی میں مختلف معاملوں میں تحقیقات کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور تحقیقات کے بعد میاں صاحب کے خلاف دائر کیے گئے کیسوں کے فیصلے ہوں گے جن کے نتائج حکومتی پارٹی کے لیے پریشان کن بھی ہو سکتے ہیں۔
میاں صاحب کا یہ استدلال ہے کہ ان کو الیکشن اور جمہوری عمل سے باہر رکھنے کی ترکیبیں سوچی جا رہی ہیں جو ان کے خلاف عدلیہ کے فیصلے کے بعد نادیدہ اور نواز نا پسند طاقتوں کا اگلا لائحہ عمل ہو سکتا ہے کہ ہر قیمت پر نواز شریف کو انتخابی عمل سے باہر رکھا جائے تا کہ وہ سیاست کے میدان اپنی مرضی کے گھوڑے خود دوڑا سکیں اور جب یہ سدھائے ہوئے گھوڑے میدان فتح کر لیں تو ان پر اپنی مرضی سے سواری کی جا سکے گی۔
نیب کا اس تمام سلسلے میں بنیادی کردار ہے کیونکہ ہر روز ایک نیا مقدمہ یا ضمنی مقدمہ میاں نواز شریف کے لیے کھل رہا ہے اور میاں صاحب نے بڑے بھولپن میں کہا ہے کہ ا ن کو اب پتہ چلا ہے کہ وکیل کتنی زیادہ فیسیں لیتے ہیں دیکھتے ہیں یہ زیادہ فیسوں والے وکیل میاں صاحب کے لیے کتنے سود مند ثابت ہوتے ہیں۔
اسی طرح ایک اور ادارہ جو عدلیہ کے نام سے موسوم ہے ان دنوں اپنی ساکھ کو نظریہ ضرورت کے الزام سے نکالنے کی کوشش کر رہا ہے اس نے کئی حکومتی انتظامی معاملات میں بد انتظامی کو دیکھ کر خود ہی ان کو ٹھیک کرنے کا عندیہ دیا ہے اعلیٰ عدلیہ کا یہ اقدام عوام کی نظر میں حکومتی بد انتظامی کے خلاف ایک عوامی فیصلہ ہے اس کے خلاف سیاستدانوں نے اپنی ناپسنددیدگی کا بھی اظہار کیا ہے لیکن اگر دیکھا جائے تو شاید ہی کوئی تو ایسا بھی ہو جو عوامی مسائل کے حل کے لیے آگے آئے اور ان کو روز مرہ کے مسائل سے نجات دلائے اگر حکومت یہ کام خود نہیں کرے گی تو پھر اس پر تنقید کو تو برداشت کرے یہ حکومت کے لیے برے وقت کی ایک اور علامت ہے اوپر سے الیکشن سر پر ہیں جن میں عوامی موڈ کا ابھی تک کسی کو کچھ اندازہ نہیں کہ عوام کس کو اپنا اگلا حکمران منتخب کریں گے۔
سب سیاسی جماعتیں یہ دعوے کر رہی ہیں کہ اگلی حکومت ان کی ہو گی حکمران پارٹی اپنی کارکردگی کی بنیاد پر انتخابات میں جا رہی ہے لیکن اس کے لیڈر میاں نواز شریف ابھی تک عوامی منصوبوں کا اپنی تقریروں میں ذکر کرنا پسند نہیں کررہے حالانکہ ان کی حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ انھوں نے ملکی ترقی کے کام سب سے زیادہ کیے ہیں اس لیے عوام ان کو ہی منتخب کریں گے لیکن میاں صاحب ابھی تک اپنے خلاف عدلیہ مخالف فیصلے سے باہر نہیں نکل سکے اور بڑے عوامی اجتماعات میں ان کا سارا زور اس بات پر ہے کہ ان کو غلط نکالا گیا اور عوام عدلیہ کے ججوں کے اس فیصلے کو مسترد کر دیں اس بات کا فیصلہ تو آنے والا وقت کرے گا کہ ان کی نااہلی کس طرح ہوئی اور وقت بڑا بے رحم ہوتا ہے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ میاں نواز شریف اپنے مستقبل کے بارے میں ابھی تک گو مگوں کی کیفیت میں ہیں اور وہ یہ نہیں چاہ رہے کہ ان کی جگہ کوئی اور لے اس لیے فی الوقت وہ اپنی ساری توانائیاں عدلیہ کے خلاف ہی استعمال کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں اور کوئی ایسی صورت بنانے کی کوشش میں ہیں کہ وہ پارلیمانی سیاست میں واپس آجائیں۔ نواز شریف کی نااہلی کے بعد ان کی حکومت پر دوسرا حملہ بلوچستان میں کیا گیا جس کے بارے میں کسی کو وہم و گمان بھی نہیں تھا کیونکہ ایک معاہدے کے تحت ایک وزیر اعلیٰ اپنی مدت پورے کر کے جا چکا تھا اور دوسرا وزیر اعلیٰ اپنے اقتدار کی گھڑیاں گن رہا تھا کہ ایک انہونی ہو گئی اور ق لیگ حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی۔
سینیٹ کے انتخابات جن کے بارے میں افواہوں کا بازار گرم تھا شیڈول کے مطابق ہونے جارہے ہیں اگر کوئی غیر متوقع بات نہ ہوگئی تو نواز لیگ اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے آئے گی اور عام انتخابات سے قبل اس آزمائش میں سرخرو ہو کر اپنی جیت کی بنیاد رکھے گی۔ جمہوریت اور جمہوری اداروں کے لیے انتخابی عمل زندگی ہیں اور یہ ادارے تب ہی مضبوط ہوتے ہیں جب ان میں جمہوری عمل کو جاری رکھا جائے۔
پسند ناپسند کی بنیاد اقتدار میں کسی کے حصے میں بھی آسکتا ہے لیکن جمہوریت تب ہی مستحکم ہوتی ہے جب جمہوری عمل چلتا رہے اس میں نئے پرانے لوگ منتخب ہوتے رہتے ہیں اور بالآخر وہ وقت آجاتا ہے جب اقتدار ایسے لوگوں کے پاس پہنچ جاتا ہے جو واقعی ملک سے مخلص ہوتے ہیں ا س لیے ملکی اور جمہوری نظام کی بقاء اسی میں ہے کہ یہ عمل جاری رہے انتخابات ہوتے رہیں اور عوام اپنی پسند کے حکمران منتخب کرتے رہیں تو شر پسند قوتیں خود ہی ختم ہو جاتی ہیں ان کو ختم کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی اور سدھائے ہوئے گھوڑے واپس اپنے تھان پر پلٹ جاتے ہیں۔