فاصلہ بڑھتا جارہا ہے

ایک جانب چند جاگیرداروں کے پاس لاکھوں ایکڑ زمین ہے تو دوسری طرف کروڑوں کسان بے زمین ہیں۔


Zuber Rehman February 05, 2018
[email protected]

ISLAMABAD: سرمایہ دارانہ نظام ایک ایسا نظام ہے جو امارت اور غربت کی خلیج کو بڑھاتا جاتا ہے۔ نامور فلسفی بالزاک کا کہنا ہے کہ ''ہر بڑی دولت کے پیچھے جرم چھپا ہے''۔ محنت کشوں پر شب خون مارے بغیر کوئی دولت مند بن ہی نہیں سکتا ہے۔ دنیا کے دس بڑے سرمایہ داروں میں سات امریکا کے ہیں، جب کہ اسی امریکا کے شہر لاس اینجلس میں سینتالیس ہزار لوگ فٹ پاتھوں پر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔

امریکا میں اس وقت مکانوں کے کرایوں میں تیس فیصد اضافہ اور تنخواہوں میں تیس فیصد کی کمی کی گئی ہے۔ حکومت کی جانب سے ایک غیر ہنرمند مزدور کی کم از کم تنخواہ پندرہ ہزار روپے اعلان کردہ حکم نامے پر نوے فیصد مزدوروں پر عمل نہیں ہو رہا ہے۔ انھیں آٹھ ہزار تا بارہ ہزار روپے سے زیادہ تنخواہیں نہیں ملتیں۔ ٹھیکیداری نظام محنت کشوں پر آسیب کی طرح مسلط ہے۔ انھیں لیبر قوانین کے تحت کوئی بھی حقوق حاصل نہیں۔

گنے کے کاشکاروں سے سستا گنا مل مالکان خریدتے ہیں جب کہ عوام کو چینی مہنگے داموں میں بیچتے ہیں۔ تھرپارکر میں بچے غذا اور عدم علاج کی وجہ سے روز لقمہ اجل ہورہے ہیں۔ اس خطے میں زیادہ پایا جانے والا خوبصورت پرندہ مور، رانی کھیت کی بیماری میں مر رہے ہیں، جب کہ اس کا سستا علاج موجود ہے۔ اور دوسری جانب امیر، امیرترین بننے کے لیے سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کے دو سو ارب ڈالر کی لوٹی ہوئی رقوم جمع کیے ہوئے ہیں۔

پاناما لیکس کے ملزموں میں پاکستان کے چار سو پینتیس اشرافیہ کے افراد شامل ہیں۔ ہمارے ملک کی اشرافیہ (جاگیردار، سرمایہ دار، نوکرشاہی اور بورژوا سیاسی رہنما) نے دو کھرب روپے سے زیادہ کے قرض لے کر معاف کروالیا۔ اس کرپشن کو منظر عام پر آنے کے باوجود کئی سال ہورہے ہیں لیکن اس حوالے سے اب تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ اس کے علاوہ 'بہاماس لیکس' آف شور کمپنیوں میں پاکستان کے سیکڑوں لٹیروں کی دولت جمع ہے۔

ایک جانب چند جاگیرداروں کے پاس لاکھوں ایکڑ زمین ہے تو دوسری طرف کروڑوں کسان بے زمین ہیں۔ اسمبلی ارکان، جنرلز، نوکرشاہی اور اعلیٰ افسران لاکھوں کروڑوں روپے ہر ماہ بٹور رہے ہیں۔ دوسری جانب ریٹائرڈ اسکول ٹیچرز، جن میں خواتین اساتذہ کی بڑی تعداد موجود ہے اور ان میں زیادہ تر بیوائیں ہیں، انھیں چار پانچ سال سے پنشن نہیں ملیں۔

ایک نجی چینل کے رپورٹر نے 25 جنوری کی صبح ریٹائرڈ اسکول ٹیچرز کے مسائل سے لائیو پروگرام میں عوام کو آگاہ کیا، جس میں ریٹائرڈ خواتین اساتذہ نے روتے گڑگڑاتے ہوئے کہا کہ ہمارے شوہر انتقال کرچکے ہیں، ہم بیوہ ہیں، ہمیں کئی سال سے پنشن نہیں دی جارہی ہے، افسران ایک لاکھ روپے رشوت طلب کر رہے ہیں۔

ان بدترین مسائل کے باوجود مزدور کسان طلبا، نوجوان اور خواتین اپنے حقوق سے دستبردار نہیں ہوئے ہیں، بلکہ جدوجہد کرکے اپنے مطالبات منوا رہے ہیں۔ مختلف یونیورسٹیز کے طلبا نے جدوجہد کے ذریعے اپنے مطالبات منوائے۔ اسی طرح چھاچھرو اور عمرکوٹ کے ہاریوں نے بھی جدوجہد کے ذریعے سندھ ہاری کمیٹی کی رہنمائی میں اپنی قبضہ کی ہوئی زمین وڈیروں سے واپس لی۔

آل سندھ پرائمری ٹیچرز ایسوسی ایشن کے اساتذہ نے بھی زبردست تحریک چلا کر اپنے مطالبات منوائے، لیڈی ہیلتھ ورکرز اور گنا کاشتکاروں نے بھی جزوی طور پر اپنے مطالبات منوائے۔ایک بینک کی یونین نے تھرڈ پارٹی یعنی ٹھیکیداری نظام کو ختم کروانے کے لیے اس نکتے کو چارٹرڈ آف ڈیمانڈ میں پاکستان کے کسی ادارے نے پہلی بار منظور کیا۔ کلریکل اور نان کلریکل اسٹاف کی مستقل بھرتیوں کا معاہدہ ٹریڈ یونین کی تحریک میں تاریخ ساز واقعہ ہے۔ واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی متحدہ ورکرز یونین نے اپنے چارٹرڈ آف ڈیمانڈ منوائے، نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے طلبا یونین کی بحالی کی تحریک جاری رکھی ہوئی ہے۔

حال ہی میں 1953 کی طلبا تحریک میں ڈی ایس ایف کے شہدا کی یاد میں ہیومین رائٹس کمیشن کراچی صدر کے دفتر میں ایک سیمینار منعقد ہوا۔ سیمینار کی ابتدا میں طلبا تحریک پر مبنی ایک تفصیلی ڈاکومنٹری دکھائی گئی۔ 8 جنوری 1953 کی طلبہ تحریک کی ڈاکومنٹری میں ڈاکٹر ہا رون احمد، سلیم آسمی، شاہدہ ہارون، اقبال علوی، مظہر جمیل اور دیگر سابق طلبا رہنماؤں کے انٹرویوز سنائے گئے۔ اس ڈاکومنٹری میں بارہا کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کا ذکر آیا۔

سیمینار سے ڈی ایس ایف کے رہنماؤں ثاقب خورشید، نغمہ شیخ، ہیومن رائٹس کمیشن کے رہنما اسد بٹ، خواجہ اسلم، کمیونسٹ پارٹی کے رہنما راقم اور عوامی ورکرز پارٹی کے رہنما احمر عزیزی نے خطاب کیا۔ حکمرانوں نے طلبا کے مطالبات مانے لیکن کچھ طلبا کی شہادت کے بعد۔

اسی طرح 21 فروری 1952 میں مشرقی پاکستان میں ایپسو نے بنگلہ زبان کو قومی زبان کے طور پر منوانے کے لیے تحریک چلائی، اس تحریک میں موتیا، برکت اور سلام نامی طالب علم شہید ہوئے، بعد ازاں ان کے مطالبات 1954 میں مانے گئے اور بنگلہ زبان کو بھی پاکستان کی قومی زبان کے طور پر تسلیم کرلیا گیا۔ اب تو اقوام متحدہ نے بھی 21 فروری کو عالمی طور پر مادری زبان کا دن قرار دیا ہے۔ ادھر مغربی پاکستان میں 1953 میں ڈی ایس ایف پر اور 1954 میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگا دی گئی تھی۔

جنرل ضیاالحق کے مارشل لاء کے دور میں طلبا تنظیموں پر پابندی عائد کردی گئی تھی، تاحال یہ پابندی لگی ہوئی ہے۔ بہرحال ان تمام پابندیوں اور عوام کے مسائل کا واحد حل ایک امداد باہمی یا کمیونسٹ سماج ہے، جہاں کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست۔ سب مل کر پیداوار کریں گے اور مل کر کھائیں گے۔ وہ دن جلد آنے والا ہے جب ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہوگا، سرحدیں ختم ہوجائیں گی۔ دنیا کی ساری دولت کے مالک سارے لوگ ہوں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔