غربت اور امارت کی تاریخی جنگ

جب ارتکاز دولت چند لوگوں اور گروہوں تک محدود ہو تو معاشرے کا توازن بگڑ جاتا ہے۔


Zamrad Naqvi February 05, 2018
www.facebook.com/shah Naqvi

ایران کے صدر حسن روحانی نے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کو خبردار کیا ہے کہ اگر عوام کے دیرینہ مطالبات پر کان نہ دھرے گئے تو انجام رضا شاہ پہلوی کی طرح خوفناک ہوسکتا ہے۔ انقلاب ایران کی 39 ویں سالگرہ کی مناسبت سے منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بانی انقلاب آیت اللہ خمینی کے دس سالہ دور کو بہترین عرصہ قرار دیا۔

انھوں نے کہا کہ ایرانی شہنشاہ نے عوام کی آواز پر لبیک کہنے کے بجائے اپنی آمرانہ پالیسی جاری رکھی جس کے نتیجے میں ایران میں انقلاب کی راہ ہموار ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ عوام کو اظہار رائے کی آزادی سے کسی صورت روکا نہیں جا سکتا۔ عوام کو تنقید اور احتجاج کا حق حاصل ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ انسانوں کی آزادی اظہار کی جدوجہد ہزاروں سال پر محیط ہے۔ جیسے ہی انسان نے ترقی کی، مویشی پالنے کا ہنر، اوزار کی ایجاد، وسائل پیداوار کا قبضہ حاصل کیا تو اس کے ساتھ ہی ملکیت کا احساس اس میں جاگزیں ہو گیا۔ ایک شخص مالک اور دوسرے محکوم غلام ہوگئے۔ ابتدا میں مادر سری نظام تھا یعنی عورت گھر اور قبیلے کی سربراہ ہوتی تھی۔

دوسرے انسانوں کو غلام بنانے کی ابتدا مرد نے سب سے پہلے عورت کواپنا غلام بناکر کی۔ مرد نے اس کا درجہ مویشی سے بھی کم تر کردیا۔ گھر سے باہر جانے پر پابندی عائد کردی۔ آزادی اظہار کا حق عورت سے چھین لیا۔ عورت کے بارے میں تمام فیصلے مرد نے کرنے شروع کردیے۔ یہ سلسلہ مزید آگے بڑھا، مرد نے دوسرے مردوں کو اپنا غلام بنالیا۔ عورت کی آزادی مرد کی آزادی سے مشروط ہے۔ جب تک وسائل پیداوار پر فرد یا گروہ کا قبضہ ہے۔ مرد ہو یا عورت دونوں کی آزادی ممکن نہیں۔

انسان کی جبلت ہے کہ وہ دوسرے انسانوں کو غلام بناکر پوری دنیا پر قبضہ کرلے۔ دولت اور لامحدود ملکیت کی بھوک نہ ختم ہونے والی ہے۔ ہزاروں سال سے یہ ناانصافی اور ظلم کا نظام چلا آرہا ہے کہ ایک شخص کے پاس اربوں کھربوں ہیں جب کہ دنیا میں اربوں افراد بمشکل دو وقت کی روٹی نہیں حاصل کرپاتے ہیں۔ ہزاروں سال سے جاری اس ناانصافی کا ایک ہی حل ہے کہ چند لوگوں کے پاس جمع بے پناہ دولت کو چھین کر ان لوگوں میں تقسیم کردیا جائے جن کے پاس کچھ نہیں۔

تاریخ میں انسان کو اس ظلم سے بچانے کے لیے بہت سے مذہبی اور غیر مذہبی نظریے آئے لیکن پرنالہ وہیں کا وہیں ہے۔ آج بھی روزانہ ہزاروں لوگ بھوک سے مر جاتے ہیں۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ دنیا کی آدھی دولت صرف ایک فیصد امیر لوگوں کے پاس ہے۔ انسانوں کو اس ظلم سے بچانے کے لیے سوویت یونین میں سات دہائیوں تک سوشلزم کا نظریہ کامیابی سے کام کرتا رہا لیکن امریکی سازشوں نے اسے بھی ختم کردیا۔

ماضی میں عظیم سلطنتیں وجود میں آئیں جس میں ایک شخص بادشاہ یا شہنشاہ کے نام پر بیک وقت کئی براعظموں کو محکوم رکھتا تھا۔ تمام دولت اور وسائل پیداوار اس کے قبضے میں تھے۔ وہ اپنی رعایا کا آقا تھا، یہاں تک کہ اسی کی ماں بہن، بھائی بھی اس کے غلام تھے۔ ذرا سے شک پر وہ اپنے ان عزیز رشتوں کی گردنیں اڑا دیتا تھا۔ ماضی میں دنیا کے تمام بادشاہوں کا یہی حال تھا۔

اسلامی تاریخ میں سلطنت عثمانیہ اس کی ایک بڑی مثال ہے۔ جہاں اسلام صرف رعایا کے لیے تھا۔ بغیر نکاح کے عورت رکھنا، بڑے بڑے حرم جہاں دنیا جہاں سے خوبصورت لڑکیاں مال غنیمت یا اغوا کرکے لائی جاتی تھیں۔ شراب رعایا کے لیے حرام بادشاہ کے لیے حلال، خواتین سخت پردے کے حصار میں اور بادشاہ مادر پدر آزاد، مفتی اعظم کی گردن حکم عدولی پر کسی بھی وقت اڑائی جاسکتی تھی۔ تمام درباری بشمول مفتی اعظم رکوع کی حالت میں بادشاہ کو سلام اور اسی کے لباس کے نچلے حصے کو چومنا باعث فخر سمجھتے تھے۔

اس بدترین دور کے بعد بادشاہت کا نظام جمہوریت میں بدلا جس میں لوگوں کو آزادی اظہار کی اجازت ملی۔ سب سے پہلے آزادی اظہار انقلاب فرانس کے نتیجے میں ملا۔ انقلاب فرانس تاریخ انسانی کا ایک انتہائی شاندار واقعہ تھا۔ یہ وہ انقلاب جس نے ہزاروں سال کی تاریخ میں پہلی مرتبہ انسانوں کو آزادی بخشی۔ ورنہ اس سے پہلے انسانوں کا درجہ بھیڑ بکریوں سے زیادہ نہ تھا۔ بادشاہ اور کلیسا کا گٹھ جوڑ ٹوٹا اور ان کو شکست ہوئی۔ جاگیرداری نظام کو شکست ہوئی۔

مذہبی رہنماؤں، پادریوں اور بادشاہ کا یہ ایک ایسا منحوس اتحاد تھا جس نے ہزاروں سال انسانوں کو اپنا غلام بنائے رکھا۔ تمام دولت وسائل پیداوار پر یہ دونوں بلاشرکت غیرے قابض، عوام کے حصے میں صرف بھوک، غربت، تباہی و بربادی تھی۔ انقلاب فرانس کے نتیجے میں جمہوریت کا آغاز ہوا جس میں عوام کو آزادی ملی، جمہوریت کا آغاز ہوا۔ حکمران طبقے قابل احتساب ٹھہرے لیکن جیسے جیسے جمہوری نظام پر سرمایہ دارانہ نظام کا شکنجہ مضبوط ہوا، انسانی آزادی، معاشی غلامی میں بدل گئی۔

اب پوری دنیا کی گنتی کی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے جن کے مالک چند سو لوگ ہیں اربوں انسانوں کو اپنا غلام بنالیا ہے۔ بظاہر یہ غلامی نظر نہیں آتی لیکن یہ غلامی ماضی کی غلامی سے کم نہیں۔ جہاں تک امریکا یورپ میں آزادی اظہار کا تعلق ہے اس کی بھی ایک حد ہے۔ اگر یہ حکمران طبقوں کے مفادات سے ٹکرائے یا انھیں خطرے میں ڈالے تو اس آزادی اظہار کے پر کتر دیے جاتے ہیں۔

ایران میں بھی (مغربی) سرمایہ دارانہ لامحدود ملکیت کا نظام رائج ہے۔ وہاں پر بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جن کے پاس بے شمار دولت ہے چاہے وہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی۔ اسلام کا معاشی نظام تو ''قل العفو'' ہے۔ یعنی اگر ضرورت سے زائد دولت ہے تو آپ ان کو دے دیں جن کے پاس کچھ نہیں۔ یعنی اسلام میں کوئی شخص ضرورت سے زائد دولت نہیں رکھ سکتا۔ جب ارتکاز دولت چند لوگوں اور گروہوں تک محدود ہو تو معاشرے کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ ایک طرف بے پناہ دولت دوسری طرف کھانے کو کچھ نہ ہو۔

ایران میں ہونے والے حالیہ فسادات اسی کا نتیجہ تھے۔ ایک طرف بے پناہ دولت دوسری طرف بڑھتی ہوئی مہنگائی، بیروزگاری او غربت۔ سڑکوں پر آنے والے ایرانی ہی تھے کوئی اور نہیں۔ ارتکاز دولت ہو یا ارتکاز اختیارات دونوں ہی انسانوں کے لیے تباہی لاتے ہیں۔ ایران میں بھی تمام اختیارات صرف ایک فرد میں ہی مرکوز ہیں۔ وجہ کچھ بھی ہو ماضی کی بادشاہت اور موجودہ نظام میں کیا فرق ہے۔ اسی لیے ایرانی صدر حسن روحانی نے خبردار کیا ہے کہ مذہبی آمریت کا انجام بھی ماضی کی شہنشاہیت کی طرح خوفناک ہو سکتا ہے۔

سیل فون: 0346-4527997

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں