بے سروپا باتیں
جس کا دور ہوتا ہے وہ اپنے لوگ بھرتی کرلیتے ہیں اب تو نوکریاں یا خدا دے یا ’’قائد اعظم‘‘ دے۔
KARACHI:
اکثر آپ ایسی باتیں سنتے، پڑھتے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق بھی نہیں ہوتا اور پڑھ کر آپ کے اندر سے ایک آواز آتی ہے ''جھوٹ ہے'' پھر کہنے والے کے بارے میں بھی ایسے ہی تاثرات اور خیالات پیدا ہوتے ہیں ''جھوٹا/جھوٹی ہے'' اس وقت آپ سنی جانے والی بات کو بے سروپا کہہ سکتے ہیں اور اس پر کوئی قد غن نہیں ہے قد غن تو خیرکہیں اور کوئی نہیں۔
ایوانوں کے اسپیکرز پارٹی کے نمائندے بن جاتے ہیں جبکہ حلف اٹھایا تھا کہ یہ حرکت نہیں کروںگا/ کروںگی'' پاکستان میں حلف برداری ایک رسم ہے۔ وعدہ اور عہد نہیں، سوائے ان لوگوں کے جو اس کی پاسداری کرتے ہیں۔ ڈاکٹر خدمت کا عہد کرکے قصاب بن جاتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ وہ انسانوں کا علاج کرنے کا عہد کرکے آتے ہیں جو اچھے لوگ ہیں وہ زیر بحث نہیں۔
ہر ادارہ بد عنوان لوگوں سے اٹا اٹ بھرا پڑا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے جس کا دور ہوتا ہے وہ اپنے لوگ بھرتی کرلیتے ہیں اب تو نوکریاں یا خدا دے یا ''قائد اعظم'' دے۔ قائد اعظم کی وضاحت کی ضرورت نہیں، قوم جانتی ہے کہ قائد اعظم اب بھی ہمارے کام آرہے ہیں۔
اس ملک میں ایک وزیر مملکت بھی ہوتا ہے اور ہم سوچتے ہیں کہ اگر یہ مملکت کا وزیر ہے تو اصل وزیر کس کا وزیر ہے۔ خیر یہاں تو وزیراعظم کے دل میں کوئی اور وزیراعظم ہوتا ہے۔ یا اﷲ اب تو پاکستان اور پاکستانیوں کو آزادی نصیب فرمادے، ان کے دل و دماغ کار آمد فرمادے۔ (آمین)
بے سروپا باتوں میں ایک بات وزیر مملکت برائے اطلاعات فرماتی ہیں ''آرٹسٹ ملک کا چہرہ ہیں، اصل اثاثہ ہیں'' مزید فرمایا ''قومی ثقافت میں آرٹسٹوں کی معاونت وقت کی ضرورت ہے، پاکستانی قوم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے مثال قربانیاں دی ہیں، قومی کلچر پالیسی کا جلد اعلان کیا جائے گا، جس کے تحت تمام صوبوں کو ایک پلان دیا جائے گا تاکہ وفاق اور صوبوں میں رابطے بحال کیے جاسکیں۔''
یہاں تک کی اس خبر میں کس قدر لطائف پائے جاتے ہیں، ستر سال کے بعد بھی صوبوں اور مرکز میں کوئی ہم خیالی یا ایک دوسرے کی معاونت کا جذبہ نہیں پایاجاتا کس قدرکمال کی بات ہے، آزادی کے بعد بھی آزاد نہیں یا پھر اس طرح آزاد کہ لکھا نہیں جاسکتا۔
دہشت گردی کے خلاف کون لڑ رہا ہے وہ بہر حال یہ لوگ نہیں ہیں، قربانی دہشت گرد لے رہے ہیں اور معاشی دہشت گردی حکومت نے کی ہوئی ہے ۔ غریب لوگوں کی جمع شدہ پونجی پر ''ڈار'' نے منافع کم کرکے سترہ فی صد سے چھ فی صد کردیا اور آرٹسٹوں کے ساتھ کیا ہوا۔
گزشتہ دور حکومت میں وہ جو ملک کا چہرہ ہیں بقول خاتون کے ان سے ان کے فن کے حقیر معاوضے پر ڈھائی فی صد ٹیکس لیا جاتا تھا جو غلط تھا آپ حقیقتاً حقیر معاوضہ دیتے ہیں۔ خصوصاً ریڈیو کے فنکاروں کو اور اب اس دور میں یہ ٹیکس 20 فی صد کردیاگیا ہے۔ کیا معاونت ہے فنکاروں کی سبحان اﷲ۔
500 روپے کی عیاشی اگر آپ ریڈیو کے فنکار کوکروائیںگے تو 100 روپے کی ٹیکس جیب تراشی بھی کریںگے۔ ٹیکس کی صورت، کیا بچے گا ان کے پاس جوکہیں ہاتھ بھی غیرت کی وجہ سے نہیں پھیلاسکتے۔ فنکار غربت کی موت مر رہے ہیں اور حکومت اس میں معاونت کررہی ہے کہ وہ جلد سے جلد دار فانی کوکوچ کر جائیں۔ اس سے زیادہ اچھا حال ٹی وی اور اسٹیج کے فنکاروں یا گلوکاروں کا بھی نہیں ہوگا۔ جھوٹ کا کاروبار دھڑلے سے جاری ہے۔
جو آرٹسٹ یا ملازم ریٹائرمنٹ کے بعد 12 سال پورے کرچکے ہیں ان کی پنشن Restore تو کردیں مگر تاخیر سے اور پنشنرز ریڈیو پاکستان اور دوسرے وزارت اطلاعات کے بقایاجات کی منتظر ہیں۔ خصوصاً آرٹسٹوں سے Tax اور دنیا میں سب سے کم Payment اور سب سے زیادہ ٹیکس۔
فنکاروں کو ٹیکس معاف ہونا چاہیے اور خصوصاً 60 برس سے زیادہ کو تو معاوضہ بھی زیادہ دینا چاہیے اور وہ بھی ٹیکس فری محترمہ نے فلم انڈسٹری کو بحالی کے لیے ٹیکس چھوٹ کا اعلان فرمایا۔ پہلے ٹیکس لگا لگاکر اس واحد تفریح کو ختم کردیا لوگ جرائم کی طرف مڑ گئے اب بھی چھوٹ کم ازکم دس سال ٹیکس ختم کرنا چاہیے۔
تھیٹر کا حال برا ہے۔ تھیٹر فنکار بھوکے مررہے ہیں۔ چند فن کار اگر لاکھوں کمارہے ہیں تو اس میں سے پوری برادری کا تو بھلا نہیں ہوجاتا تھیٹر پر سخت چیک اور یہ بھی کم از کم پانچ سال ٹیکس فری ہو تو اس کو بھی ایک انڈسٹری کے مطابق پھلنے پھولنے کا موقع ملے۔
سفارشی صحافیوں کو قومی اداروں کا سربراہ بنانے سے گریز کیا جائے اور میرٹ بحال کیا جائے۔ من پسند اخبارات کو ADD دینے اور خصوصاً اوروں سے زیادہ دینے کا سلسلہ بند کیا جائے، سفارشیوں کو دنیا بھر کی سیر نہ کرائی جائے، یہاں بھی میرٹ کو پیش نظر رکھا جائے۔
ریڈیو اسٹیشنوں کے اندرونی حالات بد ترین، نالائق عملہ جو سفارشی ہے، رات دن ''سب اچھا'' کی گردان نے ملک کے سب سے بڑے نشریاتی نیٹ ورک کے بخیئے ادھیڑ دیے سرکاری ایف ایم فیل اور پرائیویٹ پھل پھول رہے ہیں۔ سیلز کا عملہ ''سفید ہاتھی'' ساز باز کرکے بزنس پرائیویٹ ایف ایم کو دلوا دیتے ہیں اور وہاں سے کمیشن اور ریڈیو سے شاہانہ تنخواہ۔
کیا کیا لکھیں۔ حیدرآباد ہی کو لے لیجیے دوپہر 12 بجے سے ایک بجے تک ریڈیو آف، یہ پرائم ٹائم ہے لاکھوں، کروڑوں کا بزنس ختم، سرکاری ریڈیو دن میں بند؟ کیا ہم پتھروں کے دور میں واپس چلے گئے ہیں۔
ذرا معلوم تو کریں ریڈیو نے کوئی دس پندرہ سال میں ریشماں، مائی بھاگی، مہناز، اے نیئر، مسعود رانا یا کوئی اور فنکار یا بڑا ڈراما آرٹسٹ پیدا کیا کوئی نامور رائٹر لایا کوئی خاموشی ہے سب بھنگ افیم پی کر سورہے ہیں سرکاری ادارہ ہے تنخواہ تو ملے گی۔ پہلی تاریخ کو کون درد سری کرے۔
وزارت اطلاعات کے دوسرے شعبوں کا بھی یہی حال ہوگا۔ قائد اعظم کا یوم پیدائش دھوم دھام بلکہ دھام دھوم سے منالینے سے میڈیا ترقی نہیں کرتا۔ فنکاروں کے معاوضے گزشتہ دس سال سے نہیں بڑھائے گئے، مہنگائی کہاں سے کہاں چلی گئی۔ وہ فنکار جن کا روٹی رزق یہی ہے وہ کیا کریں۔
بیان دینا ایسا کچھ مشکل نہیں اور اب تو سپریم کورٹ کے باہر خاصی پریکٹس ہوچکی ہے، اگر آپ کی زبان یہ ہوگی تو آپ کے زیر انتظام اداروں کا بھی یہی حال ہوگا۔ لگتا یوں ہے کہ افسر کہیں کھپانا ہو یا کسی کو نوازنا ہو تو ریڈیو، ٹی وی اور اگر وزیر کوئی کھپانا ہو تو وزارت اطلاعات۔
وزارت اطلاعات کسی بھی ملک کا آئینہ ہوتی ہے اور سب سے زیادہ توجہ فوج کے بعد اس پر اور خصوصاً اس کے نشریاتی اداروں پر دی جاتی ہے۔ بی بی سی، وائس آف امریکا، چائنا ریڈیو، ریڈیو ایران زاہدان، قطر، دبئی، سعودی عرب اور دنیا بھر میں یہ ادارے ملک کے خارجی Indicator ہوتے ہیں اور پاکستان کے ادارے ٹھس۔
پاکستان کے اداروں کا بھی قبلہ درست ہونا چاہیے۔ نالائقوں کو نکال کر ماہرین کو رکھنا چاہیے۔ ''بھرتی'' کا رواج AMA گیسٹ پروڈیوسر ختم کرنا چاہیے تمام شعبوں میں وزارت اطلاعات کے ایڈ ہاک ازم کا خاتمہ کرکے مستقل بنیادوں پر اچھے، ماہر لوگ میرٹ پر رکھے جائیں، چالاک لوگ اور چالاکیاں ختم کرنی چاہئیں یہ صرف ابھی نہیں بلکہ ہمیشہ ہونا چاہیے۔ میرا یہ کالم موجودہ اور آنے والی حکومت نہیں بلکہ حکومتوں کے لیے ہے اور اسے لازم سمجھنا چاہیے کہ اس وزارت کے تحت ہر جگہ ایکسپرٹس ہوں اور معاشی طور پر مطمئن چاہے وہ آرٹسٹ ہوں یا اس وزارت کے اداروں کے باقاعدہ ملازم۔