کراچی کو بچانے کے لیے
کراچی کا شمار 14 اگست 1947 تک ہندوستان کے چھوٹے شہروں میں ہوتا تھا
پاکستان میں جتنے بھی پرتشدد گروپ تھے وہ ریاست کی مرضی سے بنے۔ جو بھی دہشت گردی میں ملوث ہوا ریاست نے اسے گلے لگایا۔ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے یہ بات کہہ کر ملک کی 70 سالہ تاریخ کو عیاں کردیا۔ ریاستی تشدد سے لے کر گھر میں تشدد کی روایت نے معاشرے کی ساخت کو مجروح کردیا۔ ریاستی تشدد نے عام آدمی کا ریاستی اداروں پر اعتماد ختم کیا، اب کسی کو بھی نہ تو ریاستی اہلکاروں، ججوں اور افسروں پر اعتماد ہے، نہ مریض ڈاکٹر پر، طالب علم استاد پر، کلائنٹ وکیل پر اور صارف دکاندار پر اعتماد کرنے کے لیے تیار ہے۔
ایم کیو ایم کی رکن قومی اسمبلی اور سماجی کارکن کشور زہرا نے ''پاکستان کا معاشی دارالحکومت کراچی ریاستی تشدد کی زد میں'' کے عنوان سے کراچی پریس کلب میں ایک سیمینار کو منظم کیا، جہاں مختلف پس منظر کے حامل پروفیشنلز نے کراچی میں ریاستی اور غیر ریاستی تشدد کے نقصانات کا تجزیہ کیا۔ ماہرین اقتصادیات مبشر زیدی کی رائے ہے کہ ووٹ بینک کی سیاست پر معیشت چلانے کی کوشش ہمیشہ ناکام رہے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ کراچی شہر کا ووٹ بینک ہمیشہ ملک بھر سے علیحدہ رہے گا۔ اسکالر شہر بانو نے کہا کہ سماجی تنزلی انتہا پر ہے۔ نوجوان ناراض ہوجائے تو بندوق نکال لیتا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کو غصہ آجائے تو وہ سرکاری بندوق سے سامنے والے کو مجرم قرار دے کر قتل کردیتا ہے۔ پرتشدد گروپ تشدد کرتے ہیں تو ریاست جواب میں تشددکرتی ہے۔
کراچی کا شمار 14 اگست 1947 تک ہندوستان کے چھوٹے شہروں میں ہوتا تھا۔ پھر ہندوستان کے بٹوارے کے بعد انسانی ہجرت کا ہولناک تجربہ ہوا۔ کراچی شہر ڈیڑھ لاکھ نفوس پر مشتل تھا۔ اب لاکھوں لوگوں کے آنے سے شہر کی آبادی اچانک بڑھ گئی مگر اس تبدیلی کے ساتھ ریاستی اور غیر ریاستی تشدد بدترین شکل میں موجود رہا۔ نیٹی جیٹی پل سے متصل مندر کے مہاراج کہتے ہیں کہ تشدد کا شکار پہلے غیر مسلم شہری بنے، کئی مندروں پر قبضہ کیا گیا، کچھ کو تجارتی مقاصد کے لیے تبدیل کردیا گیا اور کچھ مندروں میں دیگر مذاہب کی عبادت گاہیں قائم ہوئیں۔کراچی شہر میں طلبا کی تعداد بڑھ گئی مگر تعلیمی اداروں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوا۔
اس کے ساتھ ہی فیسیں بڑھادی گئیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ پہلے ہی کم تھی، بستیوں کے قیام کے ساتھ پبلک ٹرانسپورٹ کی اہمیت اور بڑھ گئی۔ بائیں بازو کی طلبہ تنظیم ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی کوششوں سے طلبا کے لیے تعلیم کو عام اور سستا کرنے کے لیے جدوجہد منظم کی گئی۔ 8جنوری 1953کو پہلی دفعہ آزاد ملک میں ریاستی تشدد کے ذریعے نوجوانوں کو دبانے کی کوشش کی گئی۔ دارالحکومت کراچی سے راولپنڈی منتقل کیا گیا تاکہ ایک طرف کراچی اور اندرون سندھ کے لوگ محرو م کردیے جائیں اور دوسری طرف مشرقی بنگال کے عوام کا دباؤ دارالحکومت پر محسوس نہ ہو۔ دوسری طرف ملک کے صنعتی دارالحکومت نے جنرل ایوب خان کے مقابلے میں کراچی کے عوام نے محترمہ فاطمہ جناح کو منتخب کیا تو ایوب آمریت کی پولیس نے لیاقت آباد میں عوام پر گولیاں چلائیں۔ اس طرح بدترین ریاستی تشدد نے کراچی کی ترقی کو روکنے کی کوشش کی، مگر ملک کا صنعتی دارالحکومت ترقی کرتا چلا گیا۔
بیوروکریسی نے کراچی کو جدید ترین شہر میں تبدیل کرنے کے لیے انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے منصوبہ بندی نہیں کی، شہر بے ہنگم طریقے سے بڑھتا گیا۔ کراچی کی آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ پانی اور بجلی کے نئے وسائل، جدید سیوریج سسٹم کے قیام اور جدید ترین پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام کے قیام پر توجہ نہیں دی گئی۔ اسی طرح سرکاری شعبے میں تعلیم اور صحت کا نظا م توسیع نہیں پاسکا۔ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے پاکستان جیسی رجعت پسند جماعتیں کراچی کی ترجمان بن گئیں۔70 کی دہائی کے وسط میں ان غیر جمہوری قوتوں نے لسانی تنازع کھڑا کرنے کی کوشش کی۔ حقیقتاً سندھی اردو تنازعہ کا کوئی جواز نہ تھا۔ 80 کی دہائی میں جنرل ضیاء الحق نے افغان جہاد کے نام پر مذہبی انتہاپسندی کو تقویت دی۔کراچی فرقہ وارانہ فسادات میں ایسے وقت جھونک دیا گیا جب ملک کے عوام 1973 کے آئین کی بحالی کے لیے ایم آر ڈی کے پلیٹ فارم تلے جدوجہد کررہے تھے، اس طرح ریاستی تشدد جاری رہا اور آج یہ تشدد بدترین شکل اختیار کرچکا ہے۔
1987 میں مہاجر قومی موومنٹ کے قیام کے بعد ریاستی اور غیر ریاستی تشدد مختلف اشکال میں کراچی میں موجود رہا۔ مہاجر قومی موومنٹ، متحدہ قومی موومنٹ میں تبدیل ہوگئی مگر سیاسی تحریکوں کے طالب علموں کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم نے پہلے نچلے متوسط طبقے اور نچلے طبقہ کو منظم کیا اور پھر متوسط طبقہ ایم کیو ایم کا اسیر ہوگیا اور آخر اردو بولنے والے امراء کا طبقہ بھی ایم کیو ایم کی حمایت کرنے لگا۔ 1988 سے 2013 کے انتخابات میں ایم کیو ایم کی اکثریتی جماعت کے طور پر کامیاب ہوئی۔
یہ بات درست ہے کہ ایک سیکولر اور لبرل جماعت ہونے کی بناء پر یہ باقی جماعتوں سے مختلف تھی، متعدد بار ریاستی تشدد کا شکار بھی ہوئی مگر ایک حقیقت یہ ہے کہ ایم کیو ایم ایک بند ڈھانچہ والی جماعت کے طور پر ارتقاء پذیر ہوئی۔ شخصیت پر مبنی اس کی بنیاد اور فاشسٹ رجحانات نے ایم کیو ایم کے تشخص کو مجروح کیا، جس بناء پر ریاستی اداروں کی بلیک میلنگ کا شکار ہوئی۔ ایم کیو ایم کو مقتدرہ نے جمہوری راستے کو روکنے کے لیے استعمال کیا۔ ایم کیو ایم پر عسکری فورس رکھنے کے الزامات لگے۔ سیاسی تحریکوں کے طالب علم اس ضمن میں برصغیر کی سب سے پہلی جماعت کانگریس کی مثال پیش کرتے ہیں۔ کانگریس بیسویں صدی کی برصغیر کی مقبول ترین جماعت تھی۔ موہن داس گاندھی اور پنڈت نہرو کی پرکشش شخصیتوں کی بناء پر لوگ کانگریس کی طرف متوجہ ہورہے تھے۔
دوسرے الفاظ میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ کانگریس شخصیت پرستی کا شاہکار تھی، مگر مہاتما گاندھی اور پنڈت نہرو نے کانگریس کو کھلی جمہوری تنظیم کے طور پر ارتقاء پذیر کیا اور عدم تشدد کے راستے کو نجات کا راستہ قرار دیا۔ کانگریس میں ایک ہی وقت میں مولانا ابوالکلام آزاد اور سبھاش چندرپوش جیسے مکتبہ فکر کی سوچ رکھنے والے رہنما بھی موجود رہے۔ محمد علی جناح نے بھی مسلم لیگ کو ایک کھلی تنظیم کے ڈھانچہ میں منظم کیا۔ مسلم لیگ میں جناح پر تنقید کرنے والے مولانا حسرت موہانی جیسے اکابرین موجود رہے۔ جناح نے ہمیشہ عدم تشدد کو اپنی بنیادی پالیسی بنایا۔ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی یہ بات درست ہے کہ پاکستان میں جتنے پرتشدد گروپ بنے وہ ریاست کی مرضی سے بنے اور گروپوں نے جب ریاست کی پالیسی سے انحراف کرنے کی کوشش کی تو ریاستی اداروں نے انھیں تشدد کا نشانہ بنایا۔ یہ بات پھر ثابت ہوگئی کہ تشدد ریاستی اداروں کی طرف سے ہے یا غیر ریاستی اداروں کی طرف سے نقصان ہمیشہ عوام کا ہوتا ہے۔
ایم کیو ایم ایک کھلے ڈھانچہ کی جمہوری تنظیم بن کر ایک طرف کراچی کے عوام کے لیے نجات دہندہ کا کردار ادا کرسکتی ہے اور اسی طرح وہ جمہوری ریاست پر قابض ریاست کی بلیک میلنگ سے بچ سکتی ہے۔ کشور زہرا نے اس سیمینار میں مختلف مکاتب فکر کے اکابرین کو جمع کر کے ان کی گفتگوکو آزادی سے تنقید کا موقع دے کر جمہوری اقدار کی پاسداری کی ایک نئی مثال قائم کی ہے۔ کشور کی یہ بات درست ہے کہ ایک طرف مذہبی انتہاپسندی کے عفریت اور دوسری طرف ریاستی تشدد نے کراچی کے عوام کی زندگی کو اجیرن کردیا ہے۔ کراچی کا انفرااسٹرکچر قرون وسطیٰ کے شہروں کی یاد دلارہا ہے۔ عوام خود کو لاچار محسوس کررہے ہیں۔ کراچی کی ترقی سے ہی پورے ملک کی ترقی منسلک ہے۔ کراچی کو بچانے کے لیے سب کو آواز بلند کرنی چاہیے۔