ڈپریشن ایک مرض ہے

ڈپریشن میں مبتلا کوئی بھی شخص چند دنوں میں، چند ہفتوں میں یا چند مہینوں میں بالکل تندرست ہوسکے گا


Shehla Aijaz February 07, 2018
[email protected]

سی ڈی سی (بیماری کے کنٹرول اور بچاؤ کے سینٹر) کے مطابق بارہ برس سے بڑی عمر کے افراد میں ہر دو ہفتے کے پیریڈ میں ڈپریشن پیدا ہوتا ہے۔ ڈپریشن کے بڑھتے ہوئے مسائل دنیا بھر کے انسانوں میں پائے جا رہے ہیں جس سے آج کی دنیا کو بڑا خطرہ ہے۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جس سے ایک عام انسان سے لے کر بڑا طاقتور انسان تک متاثر ہوسکتا ہے۔ اس بات کا اندازہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کی اس رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے جس کے مطابق ڈپریشن دنیا بھر میں پائی جانے والی عام بیماری جو معذوری کا موجب بننے میں سرفہرست ہے۔ پوری دنیا میں ایک تخمینے کے مطابق تین سو پچاس ملین افراد اس بیماری سے اثر انداز ہو رہے ہیں۔

ڈپریشن آخر ہے کیا؟ یہ ایک ایسی دماغی طور پر بے ترتیبی کا نام ہے جو انسان میں بے رغبتی، اداسی، دکھ و غم اور زندگی سے مایوسی کی کیفیت کو پیدا کرتی ہے۔ اس کے پیدا ہونے کی کیا وجوہات ہیں، اس کا اندازہ لگانا بظاہر آسان لیکن درحقیقت مشکل بھی ہے، کیونکہ کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ پیچیدہ جینیٹک بایولوجیکل اور کچھ گردو پیش اور نفسیاتی طور پر بھی انسان میں پیدا ہوجاتی ہیں، اس کے دورانیے کے مطابق بھی کچھ کہنا مناسب نہیں کہ ڈپریشن میں مبتلا کوئی بھی شخص چند دنوں میں، چند ہفتوں میں یا چند مہینوں میں بالکل تندرست ہوسکے گا۔

کیونکہ اس بیماری کا تعلق نزلہ و بخار یا اسی طرح کی علامات رکھنے والی بیماریوں سے نہیں ہے، لہٰذا اس کی تشخیص میں بھی ڈاکٹرز کو دقت پیش آتی ہے، کیونکہ اسے دواؤں کی ضرورت نہیں ہوتی، ایک اچھا ماہر نفسیات ہی اس مرض کی تشخیص اور علاج کرسکتا ہے۔ اس کی علامات بھی اسی طرح عام بیماریوں سے مختلف ہوتی ہیں، مثلاً تنہائی پسند کرنا، خوشی سے بے رغبتی، دکھ اور رنج و الم کی باتیں کرنا، خودبخود رونا، ہاتھوں پیروں میں رعشہ آنا، چڑچڑاہٹ، بے خوابی، اضطراب و ہیجان طبیعت میں پیدا ہونا، بے آرام محسوس کرنا، کھانے میں دل نہ لگنا، وزن میں کمی، ہاتھ پیروں کا پھول جانا یا ٹھنڈا پڑنا، ہر وقت احساس گناہ، احساس جرم، کسی کام میں یکسوئی نہ ہونا جب مرض شدت اختیار کرلیتا ہے تو انسان خودکشی کی کوشش بھی کرتا ہے۔

اس کے بیٹے کی عمر محض چوبیس پچیس برس تھی۔ جوانی میں ہی شوہر کا انتقال بھی ہوگیا تھا لیکن بیٹے کی اچانک موت نے ان کے اعصاب پر برا اثر ڈالا، گو ان کے چار بچے ہیں لیکن بڑے بیٹے کے بعد جسمانی طور پر تو انھیں بخار نزلہ زکام کی دوائیں دے کر تندرست کردیا گیا لیکن اندرونی طور پر وہ گھلتی گئی۔ کھانے سے رغبت نہ رہی، اسی لیے غذا کم ہوتی گئی۔ بچے اپنی اپنی زندگیوں میں مگن رہے۔

کسی نے ماں کی جانب اس انداز سے نہ دیکھا کہ اس بیچاری کو بھی ان کی ہمدردی اور دل جوئی کی ضرورت ہے اور آہستہ آہستہ وہ بیڈ پر لیٹ گئی۔ اس کے گھر والے آتے، اسے دیکھتے، محبت سے بات چیت کرتے تو اس کی بے رونق آنکھوں میں دیے جل جاتے، چہرے پر مسکراہٹ پھیل جاتی لیکن ان کے جانے کے بعد وہ پھر سے ایک بیمار عورت بن جاتی۔ اسے ایک اچھے ماہر نفسیات کی ضرورت تھی، ایک ایسے معالج کی جو اس کے دماغ میں ہونے والی بے ترتیبی کو سنبھال سکتا، اسے نیند کی ضرورت تھی، دماغی سکون درکار تھا لیکن اسے یہ میسر نہ تھا۔ چند ماہ قبل اس کا جوان بھائی دل کے عارضے میں چل بسا، یہ ایک دوسرا شاک تھا جو اس کے بیمار ذہن کو لگا، اس کی بیماری میں اور شدت آئی، وہ جس ڈپریشن کے مرض میں مبتلا تھی اس کے نام پر اسے ایک گولی بھی نہ ملی اور وہ تنہائیوں، اداسیوں میں گھرتی چلی گئی، کھانے سے دل گھبرانے لگا، یہاں تک کہ غذا نلکی پر آگئی جس سے اسے خوف آتا تھا، یوں ایک لمبی چوڑی صحت مند خاتون ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گئی۔ آج وہ ایک اسپتال کے آئی سی یو میں اپنے بستر پر بے حس پڑی ہے۔ وجہ بیماری کیا ہے؟ انھیں بلڈ پریشر بھی ہے، شوگر بھی ہے، لیکن بیماری کیا ہے؟ جواب ندارد۔

ہم میں سے اکثر اس حقیقت سے نابلد ہیں یا شاید اپنی زندگی کی مستیوں میں اس طرح گھری ہیں کہ اپنے عزیز و اقارب اپنے پیاروں کی کیفیات کو دیکھتے بھی ہیں لیکن سمجھتے نہیں، کیونکہ ڈپریشن جیسی خطرناک بیماری کی خطرناک اسٹیج ہماری عقل میں نہیں سماتی۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے کہ جس میں انسان اس حد تک مبتلا ہوجاتا ہے کہ وہ موت کو گلے لگانا پسند کرتا ہے۔

دماغی صحت سے تعلق رکھنے والے ایک برطانوی ادارے کا کہنا ہے کہ وہاں معالجین کے پاس جو مریض آتے ہیں ان میں ایک بڑی تعداد ایسی ہوتی ہے جو تشویش میں مبتلا ہوتے ہیں، جب دماغ پر دباؤ زیادہ ہوتا ہے تو مزاج میں چڑچڑاپن اور جسم میں تناؤ پیدا ہوجاتا ہے، نتیجتاً انسان صحیح طریقے سے کام نہیں کرسکتا، اس برطانوی ادارے کا کہنا ہے کہ تشویش اور ذہنی دباؤ کم کرنے کے طریقے موجود ہیں۔

نہانے کے لیے ٹب میں نیم گرم پانی بھر کر اس میں تھوڑا باتھ نمک ملادیں، نمک میں ایسی خصوصیات ہوتی ہیں جو آپ کے خون کے دوران کو بہتر بناتی ہیں، عضلات کے تناؤ کو کم اور مساموں کو کھول کر جلد صاف کرتی ہیں، دوران خون بہتر ہوگا اور کھنچاؤ اور دکھن کم ہوگی تو آپ یقینا سکون محسوس کریں گے۔

ان خاتون کی عمر اندازاً ساٹھ برس کی تھی، وہ چند برسوں سے تنہا ایک اپارٹمنٹ میں زندگی گزار رہی تھیں لیکن ان کا آنا جانا اپنے بہن بھائیوں اور عزیز و اقارب کے گھر رہتا تھا، اپنے ایک بھتیجے کی بدسلوکی اور برے انداز گفتگو پر ان خاتون کو سخت دکھ ہوا، اسی دکھ میں وہ رکشے میں سوار ہوکر اپنی بہن کے گھر پہنچنا چاہتی تھیں لیکن وہ جس دکھ اور ڈپریشن میں گھر گئی تھیں کہ ان کے ذہن سے گھر کا پتا ہی محو ہوگیا، گو وہ نزدیک ہی تھا لیکن پورا گھنٹہ انھوں نے گھر ڈھونڈنے میں صرف کردیا، بڑی مشکل سے گھر پہنچیں تو رکشے والے نے شکایت کی کہ یہ خاتون کب سے ادھر ادھر گھما رہی تھیں۔

بہرحال گھر پہنچ کر انھوں نے ساری دکھ بھری بات سنائی، انھوں نے کچھ دن وہیں قیام کیا اور جب دوبارہ اپنے اپارٹمنٹ پہنچی تو ان کی کیفیت بگڑنے لگی۔ اپنے ہی بیٹے جیسے بھتیجے کے منہ سے ذلت آمیز الفاظ کسی طور پر ذہن سے دور ہونے پر تیار نہ تھے اور وہ اپنے وجود سے دور ہوتی گئی، یہاں تک کہ ایک دن اپنے گھر میں بے ہوش حالت میں پائی گئی۔ اسپتال لے جایا گیا تو بلڈ پریشر کم تھا، ڈرپ لگا کر بظاہر تندرست کرکے فارغ کردیا گیا لیکن ذہن بیمار ہی تھا، اسے سکون چاہیے تھا، پرسکون نیند چاہیے تھی جو درکار نہ تھی۔ کسی سمجھدار عزیز نے ماہر نفسیات کا مشورہ دیا جو ایک بھلا مانس بھی ہے۔

فون پر گفتگو سے معالج نے اندازہ لگالیا کہ وہ ایک مضبوط اعصاب کی مالک ہیں لیکن شاک کی وجہ سے بار بار ان کی طبیعت میں بے ربطگی پیدا ہوجاتی ہے لیکن اگر انھیں ڈپریشن کی دوا باقاعدگی سے دی جائے تو وہ جلد صحت یاب ہوسکتی ہیں، معالج کے مطابق ان خاتون کا کیس ایک عام سا کیس تھا، لیکن افسوس ان خاتون کے قریبی رشتے داروں نے ڈپریشن جیسی بیماری کو محض فسانہ قرار دیا اور طبعی طور پر دوائیں دینے والے ڈاکٹرز پر یقین کرکے انھیں ایک بڑے اسپتال میں داخل کردایا گیا، انھیں کیا بیماری ہے؟ ان کا بی پی ایک دم لو ہوجاتا ہے، لیکن اس کی کیا وجہ ہے؟ ہم وجہ معلوم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ان کے کچھ ٹیسٹ بھی کروائے ہیں، اور ان کو دوا کیا دی جا رہی ہے؟ ابھی تو کوئی دوا نہیں دی جا رہی۔ ابھی تو یہ ہماری آبزرویشن میں ہیں۔ انھیں یہاں تیسرا دن ہے، کوئی تو دوا دینی چاہیے ناں۔ جواب ندارد۔

یوں وہ خاتون کچھ نہ کھانے کے باعث اس حد تک نقاہت کا شکار ہوگئی کہ اسی بڑے اسپتال کے آئی سی یو میں پہنچ گئی۔ کئی روز وہاں رہنے کے باوجود حالت میں تبدیلی نہ آئی لہٰذا فارغ کردیا گیا کیونکہ بل کی مد میں لاکھوں خرچ ہو رہے تھے اور چند روز بعد وہ خدا کو پیاری ہوگئی۔ ڈپریشن ایک بیماری ہے۔ خدارا اسے پہچانئے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں