سندھ کب بدلے گا
شہر میں دس پندرہ سال ہوگئے پبلک ٹرانسپورٹ کا کوئی نیا سسٹم حکومت کی طرف سے لایا ہی نہیں گیا
PANAMA CITY:
جمہوریت کے دوام اور تسلسل کے نتیجے میں اس ملک کے تمام صوبوں اور علاقوں کے حالات اور دن اور رات بدل تو سکتے ہیں لیکن لگتا ہے میرے شہر اور میرے صوبے سندھ کے حالات شاید کبھی نہیں بدل سکتے۔ اگلی کئی دہائیوں تک یہاں کے لوگوں کے شب و روز انھی مسائل اور مصائب کا شکار رہیں گے جو گزشتہ چالیس پچاس برسوں سے چلے آرہے ہیں۔ سارے سندھ میں کوئی ایک علاقہ اور مقام بھی ایسا نہیں ہے جسے ہم دکھا کر دوسرے صوبوں کے لوگوں کو غیرت دلا سکیں۔
2008ء سے شروع ہونے والے جمہوری دور کی بدولت ہمارے سب سے پسماندہ صوبے بلوچستان تک نے اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے کسی حد تک کوئی بہتر اور اچھی کارکردگی دکھائی ہے۔ خیبر پختونخوا میں بھی دہشتگردی کے نامساعد حالات کے باوجود صوبے نے نسبتاً اچھی خاصی ترقی کی ہے، جب کہ پنجاب اس معاملے میں سب سے آگے نکل گیا ہے۔ وہاں شہر تو شہر، دیہات اور گوٹھوں میں بھی تبدیلی دیکھی گئی ہے۔ مگر صوبہ سندھ میں عجب صورتحال ہے کہ یہاں کسی کو بھی اپنے لوگوں کی زندگیاں بدلنے کا کوئی شوق ہی نہیں۔ نئے دور کی جدید سہولتیں تو وہ انھیںکیا دیتے، بنیادی سہولتیں بھی فراہم نہیں کرپائے۔ شہروں کی حالت تو وہاں کے اپنے باسیوں کی محنت کی وجہ سے کچھ بہتر دکھائی دیتی ہے لیکن اندرونِ سندھ تو بہت ہی برا حال ہے۔
وہاں کوئی انفرا اسٹرکچر بنایا ہی نہیں گیا۔ باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے وہاں نہ کوئی سڑک بنائی گئی ہے اور نہ کوئی شاہراہ۔ سب کی سب بے ترتیب اور بے ہنگم سڑکیں ہیں۔ ڈسٹرکٹ سطح پر بھی کوئی اچھا اسپتال یا اسکول تک نہیں ہے۔ تعلقہ اسپتالوں میں ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی جگہ پالتو جانور بندھے دکھائی دیتے ہیں۔ دوائیں تو ندارد تھی ہیں، اب وہاں مریضوں کے بیٹھنے اور لیٹنے کے لیے مناسب انتظام بھی نہیں ہے۔ دیواروں پر جمی گرد اور گندگی سے انتظامیہ کی لاپرواہی اور بدانتظامی کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ سارے صوبے میں کوئی پختہ سڑک اور شاہراہ ایسی نہیں ہے جسے دیکھ کر ہم بھی پنجاب کے لوگوں کی طرح فخر سے اپنا سر بلند کرسکیں۔ گاؤں تو گاؤں، یہاں شہروں اور قصبوں کے دن اور رات بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر اور ابلتے گٹر شہری حکومت کی اعلیٰ کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ کچرا اٹھانے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر کوئی مناسب بندوبست ہی نہیں ہے۔ سول سوسائٹی اور الیکٹرانک میڈیا کے شور کرنے پر برادر ملک چین سے صفائی کے اس کام کی ادائیگی کے لیے کچھ مدد تو ضرور لی گئی لیکن وہ بھی محدود پیمانے پر۔ روزانہ اور مستقل بنیادوں پر کوئی انتظام نہیں کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ دو کروڑ افراد کے اس شہر میں ہزاروں ٹن کچرا اٹھانے کے لیے ابھی بھی نہ اتنا عملہ میسر ہے اور نہ کچرا اٹھانے والی گاڑیاں دستیاب ہیں۔
شہر میں دس پندرہ سال ہوگئے پبلک ٹرانسپورٹ کا کوئی نیا سسٹم حکومت کی طرف سے لایا ہی نہیں گیا۔ پانچ سو نئی بسوں کی فلیٹ کے آنے کی خبریں سنتے سنتے ہمارے کان پک چکے ہیں، لیکن وہ بسیں آج تک سڑکوں پر دکھائی نہیں دیں۔ ہر سال اس مقصد کے لیے ایک اچھی خاصی رقم سالانہ بجٹ میں مختص بھی کی جاتی ہے لیکن نجانے وہ رقم کہاں خرچ ہوجاتی ہے، کسی کو پتا تک نہیں چلتا۔ اسی طرح سرکلر ریلوے کو دوبارہ فعال بنانے کے قصے بھی ہم کئی سال سے سنتے آئے ہیں لیکن یہ منصوبہ بھی سندھ حکومت کے باقی منصوبوں کی طرح فائلوں سے آگے بڑھ نہیں سکا۔ اس منصوبے کے بلیو پرنٹ تو کئی بار تیار ہوئے اور اسے پاک چائنا کوریڈور میں شامل کیے جانے کی باتیں بھی بہت ہوتی رہیں لیکن عملاً ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھایا گیا۔
بات ساری حکمرانوں کی دلچسپی اور سنجیدگی کی ہے۔ وہ عوام کی سہولتوں کے کسی منصوبے کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے میں کبھی سنجیدہ ہوئے ہی نہیں۔ لوگوں کی حالت زار بدلنے کا کوئی منصوبہ ان کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔ وہ جب اچھی طرح جانتے ہیں کہ خواہ کچھ بھی ہوجائے، پانچ سال تک وہ کوئی کام کریں یا نہ کریں، لوگ ان ہی کو ووٹ دیں گے تو پھر بھلا کون اپنی جان جوکھوں میں ڈالے۔ یہ سوچ اور انداز فکر بدقسمتی سے یہاں کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے اکابرین کا ہے۔ دونوں جماعتوں کے کرتادھرتاؤں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ان کا ووٹر کہیں نہیں جاسکتا۔ ایم کیو ایم پاکستان کے لوگوں کو اچھی طرح پتا ہے کہ ان کا ووٹ بینک ٹوٹنے والا نہیں، وہ کارکردگی دکھائیں یا نہیں، اگلا الیکشن ان ہی کا ہے۔ شہری حکومت کو دو سال بیت چکے ہیں۔
پہلا سال تو بنا حکومت بنائے ہی ضایع ہوگیا اور ایک سال بعد جب حکومت ملی تو بھی وسائل اور اختیارات میں کٹوتی کے جھگڑے کے ساتھ۔ کئی ماہ تو اسی لڑائی اور زبانی معرکہ آرائی میں گزر گئے اور اب بھی گزر رہے ہیں۔ اختیارات کا رونا بھی ہے اور اقتدار بھی نہیں چھوڑنا ہے۔ کارکردگی نہ دکھانے کا ملبہ وہ صوبائی حکومت کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ اگلا الیکشن ہم ہی جیتیں گے۔ یہی حال یہاں کی صوبائی حکمراں پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی کا ہے۔ اسے بھی یہ زعم اور اعتماد ہے کہ اس کا ووٹر کہیں نہیں جانے والا۔ وہ پانچ سال کچھ بھی نہ کریں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انتخابات میں بیلٹ باکس سے صرف تیر ہی نکلے گا۔ جب اس صوبے اور اس شہر کے حکمراں طبقے کے دماغوں میں یہ خناس سما جائے تو پھر انھیں کام کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اور ایسا کیوں نہ ہو۔ جب یہاں کا ووٹر ہی اپنے حالات زندگی بدلنا نہیں چاہتا تو پھر کون اس کی فکر اور پرواہ کرے۔ اسے جب یہ احساس ہی نہیں کہ وہ سارے ملک میں سب سے زیادہ پست اور پسماندہ زندگی بسر کررہا ہے اور اس کا سبب وہ حکمراں ہی ہیں جنھیں اس نے خود اپنے ووٹوں سے منتخب کرکے سروں پر مسلط کیا تھا اور مزید برآں یہ کہ وہ اپنا یہ رویہ اور طرز عمل بدلنے کو تیار بھی نہیں ہے تو پھر بھلا کون ان کی بہتری کے لیے فکر اور تگ و دو کرے۔
اگلے انتخابات کے حوالے سے ایک بات تو ابھی سے طے شدہ ہے کہ یہاں یہی دو سیاسی پارٹیاں کامیابی کے جھنڈے گاڑیں گی۔ ملک بھر میں کسی اور صوبے اور علاقے میں کوئی بھی وثوق سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہاں کون جیتے گا لیکن صوبہ سندھ ایک واحد صوبہ جہاں کے انتخابی نتائج کی پیش گوئی ہر کوئی ابھی سے کرسکتا ہے۔ اسے یہاں کے لوگوں کی ثابت قدمی اور مستقل مزاجی کہیں یا پھر ناسمجھی اور بے عقلی کہ اتنا سب کچھ ہوجانے اور کئی سال ضایع اور تباہ ہوجانے کے بعد بھی انھیں اپنی بہتری اور خوشحالی کی کوئی فکر تک نہیں۔ وہ مسلسل دھوکا کھانے کے باوجود ابھی بھی انھی لوگوں سے آس اور امید لگائے بیٹھے ہیں جنھوں نے انھیں اس حال پر پہنچایا ہے۔ اگلے انتخابات کے ممکنہ نتائج کی روشنی میں لگتا ہے سندھ کے حالات اگلے کئی برسوں تک نہیں بدلیں گے۔ یہاں یہی دو بڑی سیاسی پارٹیاں اقتدار و اختیار کے مزے لوٹتی رہیں گی اور بے چارے عوام کسمپرسی اور بدحالی کی زندگی گزارتے رہیں گے۔