جمہوریت کا مستقبل

مسلم لیگ (ن) جب بھی اقتدار میں آئی، اس نے ماورائے آئین و دستور اقدامات کرنے میں کبھی عار محسوس نہیں کی


Muqtida Mansoor February 08, 2018
[email protected]

NEW DELHI: پاکستان میں جمہوریت کا مستقبل روز اول ہی سے دگرگوں چلا آرہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج تک طے ہی نہیں ہوسکا ہے کہ ملک میں کون سا نظم حکمرانی رائج ہونا چاہیے ۔ایک طبقہ مسلسل ملک کو تھیوکریٹک ریاست بنانے کے خواب دیکھ رہا ہے، لیکن اس سلسلے میں کوئی واضح Roadmap یہ حلقہ دینے میں ناکام ہے، جب کہ کچھ حلقے صدارتی نظام کو ملک کے مسائل کا حل تصور کرتے ہیں، مگر یہ حلقے بھی اس تصور حکمرانی کے حق میں کوئی ٹھوس دستاویز سامنے نہیں لاسکے ہیں ۔ ملک میں پارلیمانی آئین ہے، مگر طاقتور حلقے اس کی تکریم نہیں کرتے، بلکہ اس کے ماورا اقدامات کو اپنی طاقت کا اظہار سمجھتے ہیں ۔ قوانین ہیں، مگر ان پر عملدرآمد نہیں ہے ۔ نظام عدل ہے، مگر روایتی قانونی موشگافیوں کا شکار اورعام آدمی کی پہنچ سے بہت دور۔

ملک کے سبھی متوشش شہری چاہتے ہیں کہ ملک میں آئین کی بالادستی، قانون کی عملداری (Rule of Law) اورانصاف تک تمام شہریوں کی بلاامتیاز رسائی ہو ۔ ہر شہری کو اظہارکی آزادی میسر ہو ۔ یہ اصول وضوابط صرف جمہوری نظام حکمرانی ہی میں ممکن ہیں ۔ جن پر دنیا کے بیشتر ممالک میں عمل ہو رہا ہے، مگر ہم ان 70برسوں سے جمہوریت کے ان اہداف سے بہت دور ہیں ۔ 32 برس چار غیر جمہوری حکومتوں کی نذر ہوگئے، جو باقی دور گذرا یا اب گذر رہا ہے، اسے کسی طور پر جمہوری نہیں کہا جاسکتا ۔بلکہ زد پذیر (Vulnerable)جمہوریت کہا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ کیونکہ آج بھی ریاستی پالیسیاں پارلیمان سے بالاہی بالا تیارکیے جانے کی روایت ہے۔ غیر سیاسی حکمرانوں کو تو جانے دیجیے، خود سیاسی حکمران بھی جمہوری اقدار سے ماورا اقدام سے گریز نہیں کرتے ۔ یہی وجہ ہے کہ منتخب ادوار میں بھی پارلیمان کو Assertive ادارہ بنانے کی کوئی دانستہ کوشش نہیں کی گئی ۔

سول سوسائٹی ملک میں حقیقی جمہوری نظام کے قیام، اس کے استحکام اور پائیدار تسلسل کے لیے کوشاں ضرور ہے، مگر باہمی اختلافات ، فکری انتشار اور سیاسی تقسیم کے باعث کمزور اور ناتواں ہے، جس کی وجہ سے اس کی آواز میں وہ دم خم نہیں، جو ایک طاقتور سول سوسائٹی کا طرہ امتیازہوتا ہے، مگر اس کے باوجود سول سوسائٹی عوام کی فکری تربیت اورآگہی میں اضافے کے لیے بہرحال مصروف ہے ۔ عوام کو یہ باورکرانے کی کوششوں میں مصروف ہے کہ معاشرے کی ترقی اور استحکام کے لیے فکری کثرتیت اور صنفی، نسلی و لسانی اور عقیدے کے امتیازات سے پاک معاشرے کی تشکیل کے لیے جمہوری نظم حکمرانی اور جمہوری اقدار کا فروغ واحد راستہ ہے۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی بیشتر قومی (Mainstream) سیاسی جماعتیں، جو جمہوری عمل کو فروغ دینے کا ذریعہ تصور کی جاتی ہیں، موروثیت اورفیوڈل کلچر کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے اپنی سرشت میں جمہوری نہیں ہیں۔ یہ جمہوریت کو اقتدارکی سیڑھی کے طورپر استعمال ضرور کرتی ہیں، لیکن اقتدار میں آنے کے بعد آمروں سے بدتر آمرانہ روش اور رویوں کا مظاہرہ کرتی ہیں ۔ فیصلے پارلیمان میں کرنے کے بجائے اپنے مخصوص حلقوں میں بالاہی بالاکرکے خود ہی اس ادارے کو محض نمائشی ادارہ بنانے میں دانستہ یا نادانستہ کردار ادا کرتی ہیں۔

مسلم لیگ (ن) جب بھی اقتدار میں آئی، اس نے ماورائے آئین و دستور اقدامات کرنے میں کبھی عار محسوس نہیں کی ۔اداروں کے ساتھ تصادم ہمیشہ اس کا مطمع نظر رہا، مگر جب اقتدار سے باہر ہوتی ہے، تو اسے جمہوریت کی یاد ستاتی ہے۔ اس حوالے سے عوام مسلم لیگ(ن) کی قیادت سے کچھ سوالات کرنے کا بہر حال حق رکھتے ہیں۔ اول، اس کے قائد میاں نواز شریف عدلیہ کی جانب سے نااہلی کے بعد جن معاملات و مسائل کا تذکرہ کیاجا رہا ہے ، انھیں اپنے سابقہ یا حالیہ دور اقتدار میں حل کرنے کوشش کیوں نہیں کی؟ دوئم، اس وقت بھی جب وہ اپنی نااہلی کا واویلا کررہے ہیں،کیا وفاق اورپنجاب میں اس جماعت کی حکومت نہیں ہے؟ کیا اس جماعت کی آج بھی قومی اسمبلی میں اکثریت نہیںہے؟ جو اصلاح احوال کے لیے قانون سازی کرسکتی ہے، یا کم از کم ایسے قوانین قومی اسمبلی میں پیش کرسکتی ہے۔

سوئم ،کراچی آپریشن شروع کرتے وقت یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ اس آپریشن کی مانیٹرنگ کی جائے گی، مگروہ کون سا خوف یا دباؤ تھا، جس کی وجہ سے یہ وعدہ آج تک وفا نہیں ہو سکا ۔ نتیجتاً ہزاروں کی تعداد میں بے گناہ نوجوان یا تو غائب ہیں یا پھر ماورائے عدالت مار دیے گئے ہیں ، جو زیر حراست ہیں،ان میں سے 10فیصد پر بھی کسی سنگین جرائم میں ملوث ہونے کے ثبوت کسی بھی عدالت میں پیش نہیں کیے جاسکے ہیں ۔چہارم، کیا میاں صاحب نے کبھی مذہبی گروہوں کی کھل کر مذمت کی؟ اگر نہیں تو کس بنیاد پر مسلم لیگ (ن) جمہوری جماعت ہونے کا دعویٰ کرسکتی ہے۔

پاکستان سول سوسائٹی فورم گزشتہ کئی ماہ سے ملک میں جمہوریت اور جمہوری اقدار کے استحکام کے لیے کوشاں ہے۔ اس تنظیم سے وابستہ کرامت علی محنت کشوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کی طویل تاریخ رکھتے ہیں ۔ ملک میں شراکتی جمہوریت کے قیام کے خواہاں ہیں، تاکہ معاشرے کے تمام طبقات کو قانون ساز اداروں میں نمایندگی مل سکے۔ اس سلسلے میں چند ہفتوں قبل انھوں نے ایکConcept Paper تیارکرکے ہم خیال دوستوں سے مشاورت کی تھی۔ توقع تھی کہ اس ابتدائی دستاویز کی بنیاد پر ملک کے مختلف حصوں میں موجود متوشش حلقوں کے ساتھ مشاورتی نشستوں کا اہتمام کیا جائے گا۔

مگریہ ہو نہ سکا، بلکہ اس تنظیم نے مسلم لیگ (ن) کے ایک صوبائی سطح کے رہنما کی قائم کردہ تنظیم سٹیزن فار ڈیموکریسی کے ساتھ مل کراچی کے ایک ہوٹل میں سیمینار منعقدکیا جس کی صدارت مسلم لیگ(ن) کے سربراہ میاں نواز شریف سے کرائی گئی ۔ منتظمین کے مطابق اس سیمینار میں سینیٹ کے چیئرمین میاں رضا ربانی، ایم کیو ایم پاکستان کے ڈاکٹر فاروق ستار اورعوامی نیشنل پارٹی کے افراسیاب خٹک کو بھی مدعو کیا گیا تھا، مگر یہ رہنما شریک نہیں ہوئے، بلکہ صرف مسلم لیگ(ن) کی ہم خیال جماعتوں کی قیادت ہی شریک ہوئی ۔ جس کے نتیجے میں سیمینار یک طرفہ ہوگیا۔اس سیمینار کے بارے میں بیشتر احباب کا خیال ہے کہ اسے مسلم لیگی قیادت نے نہایت چابک دستی کے ساتھ ہائی جیک کرلیا، اگر سیمینار میں آئی اے رحمان، انیس ہارون اورکرامت علی نے اپنا نقطہ نظر اور موقف پیش نہ کیا ہوتا تو سیمینار مکمل طور پر نواز لیگ کا جلسہ بن جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ نواز لیگ کے کارکنوں کی بڑی تعداد میں شرکت اور نعرے بازی کی وجہ سے جس سنجیدہ گفتگو کی توقع تھی، وہ نہ ہوسکی۔

ہم سمجھتے ہیں کہ '' پاکستان سول سوسائٹی فورم'' کو اپنا آزادانہ تشخص قائم رکھنے کی ضرورت ہے ۔ وہ جمہوری نظم حکمرانی کے استحکام اور جمہوری اقدار کے فروغ کے لیے جو کوششیں کررہی ہے، اسے اپنے اہداف اور اقدامات کو واضح رکھنے کی ضرورت ہے۔ مسلم لیگ(ن) سے شراکتی جمہوریت اور نیپال ماڈل کے پاکستان میں نفاذ کی توقع عبث ہے۔

اس سلسلے میں مختلف سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں کو اعتماد میں لینا ہوگا بلکہ ان مقاصد کے حصول کے لیے معاشرے کے مختلف طبقات کی سفارشات کی روشنی میں تیارکردہ دستاویزپر ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ علیحدہ علیحدہ مشاورتی نشستیں کرکے انھیں ان سفارشات کو اپنے انتخابی منشور میں شامل کرنے کے لیے آمادہ کیا جائے۔کراچی کا سیمینار اس تنظیم کے منتظمین کو بہت کچھ سمجھانے کے لیے کافی ہے، اگر وہ اسی طرح ایک سیاسی جماعت کی معاونت کرتے رہے، تو سول سوسائٹی جن نکات کو سیاسی عمل کا حصہ بنانے کی خواہاں ہے، وہ پس پشت رہ جائیں گے، بلکہ اس تنظیم کی اپنی حیثیت بھی متاثر ہونے کے خدشات ہیں،کیونکہ مسلم لیگ (ن) سول سوسائٹی کے اس فورم کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں