رابطے کا جوہر
1937ء میں بھارت پولیس اور فوج نے تاملوں کو ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنایا
حساسیت کی گہرائی جہاں تخلیق کا جوہر بنتی ہے وہاں نیم دیوانگی کی کیفیت کی طرف کھینچ لیتی ہے۔ یہ غیر معمولی کیفیت فطرت میں بھی پائی جاتی ہے۔ پورے چاند کی رات ہیجانی کیفیات کی مظہر سمجھی جاتی ہے۔ سمندر کی لہریں بے چین ہوجاتی ہیں تو دوسری جانب روڈ ایکسیڈنٹ اور جرائم کا تناسب بڑھ جاتا ہے۔ فطرت کے رویے، حساسیت کو متاثر کرتے ہیں۔ ولیم بلیک بھی انگریزی زبان کا ایسا شاعر ہے۔
جس کا تخیل، زمین و ماحول سے جڑی وجدانی کیفیات کے اردگرد گھومتا ہے۔ وہ زمین کے بدلے مزاج سے بخوبی واقف تھا۔ اٹھارہویں صدی سے تعلق رکھنے والے اس شاعر پر فرنچ انقلاب کے اثرات نمایاں طور پر محسوس ہوتے ہیں۔ اس نے چرچ اور دورکی منافقت اور ظالمانہ روش کے خلاف لکھا۔ پسماندہ طبقوں کی بھرپور نمایندگی کی۔ بلیک نے تجربے و معصومیت کی نظموں میں زندگی کے اس تضاد کی عکاسی کی ہے جس میں معصومیت و تجربے کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ جہالت اور غیر انسانی رویوں کے خلاف آواز اٹھانے کی وجہ سے وہ اپنے دور کے حکمرانوں کے زیر عتاب رہا۔ معصومیت کے گیتوں کا دورانیہ مختصر مگر بھرپور ہے۔ بچپن کے دن، جلد ہی تجربے کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ سبزے، تتلیوں، پرندوں، بادلوں، مسکراہٹوں و قہقہوں کا دور جلد اختتام پذیر ہوجاتا ہے۔ یہ معصومیت، زمین کا سکون و بے ساختہ خوشی ہے۔
تجربے کے گیتوں میں دنیا مکمل طور پر بدل جاتی ہے۔ سکون، محبت، ہمدردی کی جگہ ظلم، رازداری، حسد و خوف لے لیتے ہیں۔ اپنی ایک نظم میں ولیم بلیک کہتا ہے۔
ظلم انسانی دل کی طرح ہے
حسد نے انسانی چہرہ
اور رازداری نے لباس اوڑھ لیا ہے
چہرہ مہر بند بھٹی
اور دل بھوک کے غار بن چکے ہیں
جن انسانی رویوں کا وہ ذکرکرتا ہے وہ فقط اس کے دور تک محدود نہیں ہیں، بلکہ ہر دورکا المیہ ہیں۔ تجربے کی دنیا کا المیہ، منفی رویوں کے نقاب ہیں، جو وقت، حالات اور مفاد کی خاطر بدلنے پڑ جاتے ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ معصومیت کی دنیا بے حد خوبصورت ہے۔ یہ شک اور پرکھنے کی کوشش سے بالاتر دکھائی دیتی ہے۔ جیسے ہی انسان بچپنے کی دہلیز کو پارکرتا ہے، لالچ و خواہشوں کا سیلاب اس کی ذات کے خالص پن کو بہا کر لے جاتا ہے۔ ولیم بلیک کی نظم A Little Girl Lost کی جھلک بھی دورحاضر کی بد صورتیوں میں نظر آتی ہے۔ جہاں چھوٹی لڑکیاں اکثر کھو جاتی ہیں۔ اس نظم میں وہ مستقبل کے بچوں سے مخاطب ہوکے کہتا ہے کہ یہ سطریں پڑھ کر انھیں اندازہ ہوگا کہ ماضی میں محبت جرم نہیں بلکہ ایک اعزاز تھی۔ خالص محبت غیر شفاف سوچ سے بالاتر ہے۔
محبت ایک زندگی بخش جذبہ ہے جو دنیا کی نظر میں برا ہوسکتا ہے، مگر محبت کی نظر میں وہ مقدس ہے۔ جس میں جسم محرک اور روح محور ہے۔ ولیم بلیک Mystic(صوفی) شاعر اور مصور تھا۔
انگریزی ادب کی تاریخ میں وہ بہت سے مسٹک شاعرگزرے ہیں مگر ان کے فقط فکری حوالے ملتے ہیں۔ ولیم بلیک ایک ایسا شاعر تھا، جس کا روحانی فکر، اس کے ذاتی مشاہدے و تجربے پر مبنی تھا۔ بلیک کی شاعری کا یہ پہلو منفرد ہے۔ کیونکہ محض کتابی علم، مسٹسزم کی وضاحت نہیں کرسکتا۔ جب تک شاعر کے ذاتی تجربے کا عکس اس میں شامل نہیں ہوجاتا۔ جس فکر میں مشاہدہ و تجربہ شامل ہو، اس شاعری کو الہامی شاعری قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ تمام شاعری الہامی ہے۔ داخلی اور تحت الشعور سے جڑی شاعری، جو اعلیٰ و ارفع خیالات کی مظہر ہو، الہامی ردعمل کے زمرے میں آتی ہے۔ محض خیال کی ترجمانی کرنا کوئی کمال نہیں۔ ولیم ورڈز ورتھ کی Ode: intimations of immortality from recollections of early child hoodغیر معمولی خیال پر مبنی ایک شاندار نظم ہے۔ ورڈز ورتھ کی نظر میں تخلیق غیر معمولی رویہ ہے۔
اس کے علاوہ Kublai Khan ماورائی خیال کی مظہر شاہکار نظم ہے۔ سیموئل ٹیلر کولرج کی یہ تخلیق لیوسڈ ڈریم پر مبنی ہے۔ علاوہ ازیں دانتے، ملٹن، جان کیٹس، جان ڈن، والٹ وٹمن، ایمرسن و دیگر شعرا نے اپنی شاعری کے توسط سے غیر معمولی جذبات و خیالات کی عکاسی بھرپور طور پر کی۔ وجود، زندگی اور کائنات کی سچائی تک، داخلی دروازے سے گزر رسائی ممکن ہوپاتی ہے۔
خواب، روحانی تسلسل کا بھرپور حصہ ہیں۔ یہ شعور اور لاشعور کی وحدت کا کرشمہ کہلاتے ہیں۔ ولیم بلیک کی شاعری و تصویریں، اس کے روحانی خوابوں کی الہامی کیفیت سے جڑے ہوئے ہیں۔ جس کا اظہار بلیک نے بارہا کیا۔ اس نے بچپن میں متعدد بار فرشتوں کو خواب میں دیکھا۔ جوانی کے دنوں میں اس کا کہنا تھا کہ مٹی اور ہوا میں روحانی وجود کو محسوس کیا۔ ان خوابوں کو Psychic Dreams کہا جاتا ہے۔ ایک مسٹک کا ذہن لاشعوری طور پر بہت متحرک ہوجاتا ہے۔ شعور کی تہیں کھلتی چلی جاتی ہیں۔ یہ غیر معمولی کیفیت تکلیف دہ اور بعض اوقات ہیجانی کیفیات پر مبنی ہوتی ہے۔ یہ نیم دیوانگی اور دیوانگی کے درمیان موجود ایک باریک لکیر ہے۔ کیونکہ لاشعور کی گہرائی مد و جزرکی طرح ہے، جب کہ سمندر کے کنارے پرسکون ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بلیک اکثر ڈپریشن کی کیفیت میں مبتلا رہا۔ غیر معمولی احساس کے ہر شاعر کے لاشعور میں ٹوٹ پھوٹ ہوتی رہتی ہے۔ وہ انتشار سے نکل کر سوچ کی وحدت کی طرف آتا ہے اور کبھی یہی وحدت اسے انتشار کی طرف دھکیل دیتی ہے۔ الہام، لمحوں کا عرفان ہے۔
To see a world in a grain of sand
And heaven in a wild flower,
Hold infinity in the Palm of your hand,
And eternity and hour
دنیا کو ریت کے ذرے میں دیکھنا اور آسمان کا جنگلی پھول کی طرح جھومنا، لامحدودیت کو شاعر مٹھی میں بند کرلیتا ہے اور دائمیت بھی چند لمحوں میں سمٹ آتی ہے۔
یہ زمان و مکان سے ماورا خیال ہے۔ اس شعر میں Cosmological Essence شاعر کو وجود سے نکال کر پوری کائنات سے جوڑ دیتا ہے۔ پوری کائنات کی توانائی اس لمحے میں اس کے وجود میں دھڑکنے لگتی ہے۔ مسٹسزم یا تصوف کا یہ بنیادی خیال ہے۔ جو رابطے کے جوہر میں پوشیدہ ہے۔ جس میں شاعر کا حسیاتی تحرک، لافانی احساس کی تخلیق کا باعث بنتا ہے۔ جس کے لیے کائناتی ادراک کا ہونا ضروری ہے۔ دیکھا جائے تو مسٹسزم کا مطلب رازداری ہے۔ شاعری یا اعلیٰ پائے کی تخلیق، تخلیق کار کا انتہائی داخلی و نجی معاملہ ہے۔ وہ اسے سامنے لانے سے پہلے کہیں اس کا تذکرہ نہیں کرتا اور نہ ہی اس کی وضاحت پیش کرتا ہے۔
یہ رازداری اس کے فن کو جلا بخشتی ہے۔ جس تخلیق کی تشریح یا وضاحت، تخلیق کار نے خود پیش کی، اس کی معنویت اور گہرائی متاثر ہوتی ہے۔ کیونکہ قاری خود نتیجہ اخذ کرتا ہے۔ لافانی تخلیق کا دائرہ بہت وسیع ہے۔جس کی تشریح کا خزانہ کبھی خالی نہیں ہوتا اور اس کا تسلسل ہر دور سے جا ملتا ہے اس بدلتی دنیا میں، ماورائی خیال کو مختلف انداز میں دیکھا جاتا ہے۔ کوئی اسے پرفریب خیال سمجھتا ہے البتہ صوفی مکتبہ فکر کو سمجھنے والے اس منفرد خیال کو، زندگی کی رہنمائی عطا کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ یہ سچے اور گہرے افکار زندگی و رویوں کو معنویت عطا کرتے ہیں۔