مزدوروں کا استحصال جاری ہے

ٹھیکیداری نظام ایک ایسا دیو ہے جو مزدوروں کے حقوق کو مسلسل نگلتا جارہا ہے۔


Zuber Rehman February 08, 2018
[email protected]

حکومت نے ایک غیر ہنرمند مزدورکی تنخواہ کم ازکم پندرہ ہزار روپے دینے کا اعلان کیا ہے، لیکن نوے فیصد مزدوروں کو پندرہ ہزار روپے نہیں ملتے بلکہ آٹھ سے بارہ ہزار سے زیادہ تنخواہ نہیں ملتی ۔ اس وقت مزدوروں کا سب سے بڑا مسئلہ تھرڈ پارٹی یا ٹھیکیداری نظام ہے، جس میں مزدور آئی ایل او میں درج تمام حقوق سے محروم ہیں ۔ ملکی دستورکے آرٹیکل نمبر تین کی روشنی میں پبلک اور پرائیوٹ شعبوں کے ملازمین کے ساتھ مسلسل جاری استحصال کا خاتمہ کرنے کی ضرورت ہے مختلف اداروں کے ملازمین جن کی درخواستوں پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے آئین کے آ رٹیکل 3,4,5,9,17,25,38 کی خلاف ورزی قرار دے کر تاریخ ساز فیصلہ کیا ہے۔ اس کی روشنی میں ملک بھرکے تمام پبلک اور پرائیوٹ شعبے میں تھرڈ پارٹی کنٹریکٹ ، ڈیلی ویجزاورکنٹریٹ پر ملازمت کرنے والے تمام ملازمین کو فوری مستقل کرکے آ ئین کی رٹ کو قا ئم کرکے محنت کشوں کو انصاف فراہم کرنے کا حکم دیا ہے۔

آئین کے آرٹیکل 38 کی روشنی میں فروغ معاشی اور معاشرتی عوامی فلاح بہبود،آئین پابند کرتا ہے کہ عام آدمی کے معیار زندگی کو بلند کرکے دولت اور وسائل پر پیداوار اور تقسیم کو چند اشخاص کے ہاتھوں میں اس طرح جمع ہو نے سے روک کر اس مفاد عامہ کو نقصان پہنچے اور آجر واجیر، زمیندار اور مزارع کے درمیان حقوق منصفانہ تقسیم کی ضما نت دیکر بلا لحاظ جنس، ذات، مذہب یا نسل عوام کی فلاح وبہبود کے حصول کی کوشش کرے گی،اس تناظر میں پارلیمنٹ نے کو ئی کردار ادا نہیں کیا بلکہ استحصال میں اضافہ کیا ہے۔ اداروں میں ٹھیکیداری نظام کو مسلط کیا ہے اورانجمن سازی سے محروم کیا ہے ۔

ان حقوق کے حصول کے لیے مزدوروں نے اسٹیٹ بینک ڈیموکریٹک ورکرز یونین فیڈریشن کے سیکریٹری جنرل لیاقت ساہی کی صدارت میں کراچی پریس کلب میں گزشتہ دنوں ایک سیمینار منعقد کیا، جس کے مہمان خصوصی سینیٹ کے چیئرمین ر ضا ربانی تھے۔

ان کے علاوہ نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے ڈپٹی جنرل سیکریٹری ناصر منصور، لیڈی ہیلتھ ورکرز یونین کی رہنما بشریٰ آرائیں ، آل سندھ ٹر یڈ یونین آرگنا ئزیشن کے رہنما رشید تاج، نیشنل بینک ٹریڈ یونین فیڈریشن کے صدر سید جہانگیر، معروف قانون دان رشید اے رضوی ، خاتون رہنما انیس ہارون ، پا کستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپین کے رہنما جنت حسین ، پاکستان ریلوے ورکرز فیڈریشن کے صدر منظوراحمد رضی اور دیگر مزدور رہنماؤں نے شرکت کی اور خطاب کیا ۔ رضا ربانی نے اپنے خطاب میں کہا کہ منصوبے کے ساتھ ٹریڈ یونینز اوراسٹو ڈنٹس کی تنظیموں پر پابندی نافذکرکے نہ صرف آئین کی خلاف ورزی کی گئی بلکہ جمہوریت کوکمزورکرنے کی سازش تھی، جب تک پا کٹ یونین کا وجود رہے گا جدوجہد مضبوط نہیں ہو سکتی ۔

بالخصوص اداروں میں ڈیلی ویجز ، تھرڈ پارٹی کنٹریکٹ اور ٹھیکیداری جیسی بھرتیوں کو فوری طور پر ختم کر کے مستقل بھرتیوں کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس فورم پر ملک بھرکے محنت کشوں کی قیادت نے جن مسائل کی نشاندہی کی ہے پوری کو شش کروں گا کہ صوبائی اور وفاقی سطح پر ان کی نشاندہی کرکے انصاف دلاسکوں ۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان سی بی اے یونین کے سیکریٹری جنرل لیا قت ساہی نے کہا کہ بد قسمتی سے پارلیمنٹ اور میڈیا نے محنت کشوں کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے ان کے مسائل میں اضافہ کیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان اداروں میں ایک خاص طبقہ جس کا تعلق سرمایہ دار طبقے سے ہے نے اداروں کو یرغمال بنالیا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ نے ٹھیکیداری نظام کے خلاف فیصلہ دے کر تاریخ رقم کی ہے، اسی قسم کا فیصلہ سپریم کورٹ نے پی ایس او کے ملا زمین کی درخواست پر دیا ہے ۔

لیاقت ساہی نے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اسمبلی ، سینیٹ اور صوبا ئی اسمبلیوں میں انتخابات سے قبل خصوصی اجلاس بلا یا جا ئے جس میں صرف ایک ایجنڈا پر یعنی ڈیلی ویجز ، تھرڈ پارٹی کنٹریٹ اور کنٹریکٹ ملازمین کو فو ری مستقل کرنے کے لیے قا نون سازی کی جائے۔ آئین کے آرٹیکل 17 اور آئی ایل او کے کنونشن 87اور89کے تحت ملک بھرکے پبلک اور پرائیوٹ سیکٹر کے اداروں میں محنت کشوں کو انجمن سازی کا حق دیکر رول آف لاء کی رٹ قائم کی جا ئے ۔ پارلیمنٹ کی سطح پر بینکنگ انڈسڈیز میں 27-B کا بینکنگ کمپنی آرڈیننس میں ترمیم کر کے شامل کرنا آئین کے آ رٹیکل 25 کی صریحا خلاف ورزی ہے ، لہٰذا پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کا فوری طور پر مشترکہ اجلاس میں سے اسے ختم کرکے آ ئینی خلاف ورزی کو روکا جائے اور محنت کشوں کو انصاف فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹھیکیداری نظام ایک ایسا دیو ہے جو مزدوروں کے حقوق کو مسلسل نگلتا جارہا ہے۔

لا نڈھی، کورنگی اور سائٹ، کرا چی کے علاقے میں خاص کرکے ٹیکسٹائل اورگارمنٹ کی فیکٹریوں میں مزدوروں کو قید رکھنے کے لیے فیکٹری کی اضافی چار دیواری بنا رکھی گئی ہے جہاں چوبیس گھنٹے پہرے دار ہوتے ہیں، اسے مزدور طنزیہ خرکارکا کیمپ کہتے ہیں ، ان مزدوروں کو ٹھیکیدار اپنے گاؤں سے من مانی تنخواہ پرکراچی لاتے ہیں اور چوبیس گھنٹے کے لیے فیکٹری کے احاطے میں ہی ایک طرح سے قیدکردیتے ہیں ، چونکہ وہ مزدورکم پیسوں پر ا پنی محنت ، بے روزگاری سے تنگ آ کر بیچنے پر مجبورہو تے ہیں، اس لیے وہ ان انسانیت سوز شرائط کو ماننے پر مجبورہوتے ہیں ۔

یہ مزدوراپنے تمام لیبر قوانین کے تحت حاصل شدہ بنیادی حقوق سے محروم کردیا جاتا ہے ۔ انھیں اتوارکی چھٹی، اتفاقیہ چھٹی، سالانہ چھٹی، میڈیکل چھٹی، گریجوئیٹی ، اولڈ ایج بینیفٹ ، حادثاتی معاوضہ وغیرہ سے محروم ہو تے ہیں۔ یہاں تک کے مالکان جب چاہیں کان پکڑ کر ملازمت سے نکال سکتے ہیں ، مزدوروں کے پاس کوئی اپائٹمنٹ لیٹر نہیں ہوتا جس کے ذریعے وہ عدالتی کارروائی کرسکیں ۔ پاور لومزکے مزدور اور بھٹہ مزدور سب سے زیادہ استحصال کا شکار ہیں، وہ تو غلامی کے دور میں رہ رہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں