اجڑے بچے
بوڑھے شخص نے کہا وہ لوگ دوبارہ آئے تھے ہمارے گھر پر اور دھمکیاں دے کر گئے ہیں
PESHAWAR:
میں سندھ کے شہر گھوٹکی کے نواحی علاقے میں واقع پسماندہ گاؤں کے ایک گھر میں داخل ہوا۔ گھر کیا تھا بس دڑبہ نما سی ایک جگہ، جہاں ایک کونے میں رکھی پتیلی اور چائے کی پیالیاں بتا رہی تھیں کہ یہ باورچی خانہ ہے۔ ایک کونے میں بمشکل تمام بنایا گیا بیت الخلا اور صحن میں رکھی ایک چارپائی پر لیٹی ایک غمزدہ بیمار عورت، جس کی ٹانگیں ایک معصوم سی بچی دبا رہی تھی۔ صدر دروازے سے داخل ہوتے ہی داہنے ہاتھ پر ایک چھوٹا کمرہ جسے بیٹھک یا ڈرائنگ روم سمجھا جاتا ہوگا۔ گھر میں موجود نحیف و نزار سے بوڑھے شخص نے ہمیں خوش آمدید کہا اور بیٹھک میں رکھی کرسی کو کندھے پر رکھے کپڑے سے صاف کیا۔
میں نے ان بزرگ سے بس اتنا کہا کہ آپ پریشان نہ ہوں ہم بیشک کراچی سے یہاں پہنچے ہیں پر وی آئی پی نہیں۔ اس کے علاوہ میں کہتا بھی کیا کہ میں آپ کا مسئلہ حل کرنے یا کروانے کی طاقت نہیں رکھتا، بس آپ کے مسئلے کو اجاگر کر سکتا ہوں۔ نجانے لوگ کیوں میڈیا کو اپنا مسیحا سمجھ بیٹھے ہیں حالانکہ ایک صحافی تو بس معاملے کو اجاگر ہی کر سکتا ہے اور مسئلہ تو تھانے سے ہوتا ہوا کچہری پہنچ سکتا ہے۔ وہاں پہنچنے کے بعد ہی انصاف مل سکتا ہے۔
معصوم زینب کا معاملہ بھی جب میڈیا میں آیا تو پولیس کو احساس ہوا کہ معاملہ کتنا سنگین ہے۔ عوام کے ووٹوں پر اقتدار سے لطف اندوز ہونے والوں کو بھی قصور کا رخ کرنا ہی پڑا تاکہ بے قصور زینب کو انصاف مل سکے۔ ظاہر ہے اے سی کمرے میں آرام کرسی پر بیٹھ کر جب حالات حاضرہ سے باخبر ہونے کی کوشش کی جاتی ہوگی تو ہر چینل زینب کے لیے چلا چلا کر انصاف کا تقاضا کرتا نظر آتا ہوگا، تو معاملے کی سنگینی کا احساس کرنا ہی تھا۔ آخر زینب کا قاتل پکڑا ہی گیا کیونکہ زینب کے والد نے آرمی چیف اور چیف جسٹس سے اپیل کی۔ یہاں سوال اٹھتا ہے کہ آخر کیوں جمہوریت کے ہوتے لوگ آرمی چیف کو پکارنے اور چیف جسٹس صاحب سے اپیل کرنے پر مجبور ہیں؟ خیر واپس چلتے ہیں سندھ کے پسماندہ گاؤں میں واقع اس گھر میں جہاں بسنے والے شاید ہمیں اپنا مسیحا سمجھ بیٹھے تھے۔
بوڑھے شخص نے کہا وہ لوگ دوبارہ آئے تھے ہمارے گھر پر اور دھمکیاں دے کر گئے ہیں کہ اگر اپنی زبان بند نہ کی تو یاد رکھنا تمھارے گھر میں ایک بیٹی بھی موجود ہے۔ ''بیٹی'' لفظ سنتے ہی میرا دھیان صحن میں لیٹی اس عورت کی ٹانگیں دباتی معصوم بچی کی جانب چلا گیا۔ شاید اس کی عمر آٹھ سال ہوگی۔ میں نے سوال کیا کہ کیا آپ نے ایف آئی آر نہیں کٹوائی؟ بوڑھے شخص نے اپنی نمناک آنکھیں میری آنکھوں میں گاڑ دیں اور مجھ سے سوال کیا کہ کیا آپ کو نہیں معلوم ایف آئی آر کٹوائے کئی مہینے گزر گئے ہیں۔ انکار کا جواز کوئی نہیں تھا، کیونکہ میں جانتا تھا کہ ایف آئی آر تو درج ہے، میں نے محض ایک سوال کیا تھا۔
میرے ساتھ آئی پولیس پارٹی ابھی تک گھر کے اندر اور باہر موجود تھی۔ میں سوچ کر اندر ہی اندر کچھ شرمندگی بھی محسوس کررہا تھا کہ یہ پولیس اہلکار اس کی نہیں بلکہ میری حفاظت کے لیے یہاں موجود ہیں تاکہ جن بااثر لوگوں نے اس کے بچے کو زیادتی کا نشانہ بنایا ہے کہیں وہ مجھے کوئی نقصان نہ پہنچادیں۔ اس بوڑھے شخص نے رندھی ہوئی آواز میں کہا کہ صدام بھائی میری بیوی اب چارپائی سے لگ گئی ہے، وہ کافی بھولی ہے، ہمت بہت جلدی ہار جاتی ہے، آخر عورت ہے نا، حالانکہ میں اسے سمجھاتا بھی ہوں کہ انصاف ملے گا، پر سمجھتی نہیں۔ آپ آئے ہیں نا یہاں تو ہمیں انصاف ملے گا۔ اس نے اپنے بیٹے کو آواز دی اور اس کا بیٹا بھی آکر کچھ اس انداز میں میرے گلے سے لپٹا کہ جیسے میں ہی مسیحا ہوں اور اس کے دکھوں کا مداوا ہونے ہی والا ہے۔ اس دکھی خاندان کے انٹرویو اور انھیں جھوٹے دلاسے دینے کے بعد میں وہاں سے اپنی ٹیم کے ہمراہ پولیس پروٹوکول میں نکل تو آیا پر گھوٹکی میں واقع گیسٹ ہاؤس کے کمرے میں نیند میری آنکھوں سے کوسوں دور رہی۔
یہ ذکر اس بچے کا ہے جو معاشی پریشانیوں کے باعث برف بیچ کر اپنے خاندان کی کفالت پر مجبور ہے۔ باپ ٹین ڈبے بیچتا ہے۔ دونوں مل کر اس قدر رقم جمع کر لیتے ہیں کہ تن ڈھانپنے اور پیٹ کی آگ بجھانے کا انتظام ہو ہی جاتا ہے۔ اس بچے کا اصل نام یہاں لینا نہیں چاہتا اس لیے اسے فرضی نام کاشف سے مخاطب کرلیتا ہوں۔ کاشف گرمیوں کی چلچلاتی دھوپ میں برف بیچتا، ایک گلی میں داخل ہوا جہاں ایک شخص نے اسے آواز دی۔ کاشف ریڑھی دھکیلتے اس کے دروازے کے سامنے جا رکا۔ اس شخص نے کاشف سے کہا کہ برف گھر کے اندر لا کر رکھ دو۔ کاشف نے پیسے لینے کے بعد برف اٹھائی اور اس گھر میں داخل ہوگیا۔
سفید برف اٹھائے کاشف کو اندازہ ہی نہ ہوا کہ اس کا مستقبل تاریک ہونے والا ہے۔ وہ تو مزدوری کے لیے نکلا تھا اور ان علاقوں میں جہاں چائلڈ لیبر کوئی بری بات نہیں سمجھی جاتی۔ اس گھر میں داخل ہوتے ہی اندر موجود افراد نے اسے گھیر لیا اور گھسیٹتے ہوئے کمرے کی جانب لے گئے۔ گیارہ سالہ کاشف ان طاقتور لوگوں سے اپنے آپ کو چھڑانے کی ناکام کوشش کرتا رہا۔ کمرے میں داخل ہونے کے بعد نہ صرف کاشف پر تشدد کیا گیا بلکہ وہاں پہلے سے موجود ایک برہنہ بچے کے ساتھ زیادتی پر مجبور بھی کیا گیا۔ کاشف کے انکار پر گن پوائنٹ پر اسے حکم دیا گیا کہ اگر اس نے ان کی بات نہ مانی تو اس کے گھر میں موجود ماؤں بہنوں کا انجام اس سے بدتر ہوگا اور اسے قتل کردیا جائے گا۔
کاشف اور اس دوسرے بچے کو مجبور کیا جاتا رہا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ زیادتی کریں، دونوں بچے سب ماننے پر مجبور تھے اور ان کی ویڈیو موبائل فون پر بنتی رہی۔ اس کے بعد کاشف کو بلیک میل کرکے وہ بااثر افراد وقفے وقفے سے نہ صرف زیادتی کا نشانہ بناتے رہے بلکہ ان ویڈیو کلپس کو پانچ سو روپے کے عوض بیچا گیا۔ آخر ایک دن وہ ویڈیو کاشف کی گلی تک پہنچی۔ حقائق اس کے بوڑھے باپ کے سامنے آئے اور اس نے انصاف کے لیے پولیس کا در کھٹکھٹایا۔ ایف آئی آر تو کسی نہ کسی طرح کٹ ہی گئی، پر کاشف کے بوڑھے باپ نے بتایا کہ وہ ظالم حوالات سے آزاد ہوگئے ہیں اور اس کے گھر آکر کہہ گئے ہیں کہ کیس واپس نہ لیا تو اس کی معصوم بیٹی کو بھی نہ بخشیں گے۔
گھوٹکی سے کراچی تو میں آگیا پر میرے ذہن میں کئی سوالات نے جنم لیا۔ ملک بھر میں سالانہ دس ہزار سے زائد بچے جنسی زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں۔ جو معصوم قتل کر دیے جاتے ہیں ان کا کیس سامنے آجاتا ہے، پر جو قتل نہیں ہوتے وہ کیس عام طور پر رپورٹ نہیں ہوتے۔ جب یہ ہی بچے جوان ہوجاتے ہیں تو معاشرے سے بدلہ لیتے ہیں۔ اکثر جرائم پیشہ عناصر کا ماضی ایسا ہی ہوتا ہے۔ اگر انصاف ملنے لگے تو ظلم کرنے والے کو اندازہ ہوگا کہ وہ بچ نہیں سکتا، تو وہ ایسا کرنے سے پہلے دس مرتبہ سوچے گا۔ میں یہ سوچنے پر بھی مجبور ہوں کہ ایک جانب ہم جرائم و دہشت گردی پر قابوپانے کے لیے کوشاں ہیں، مگر سالانہ بنیاد پر زیادتی کا نشانہ بننے والے معصوم بچوں کے بچاؤ کے لیے اقدامات نہیں کرتے، نہ ہی ظلم کرنے والوں کو سزا ملتی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ایسے بچے منفی راستوں کی جانب چلے جاتے ہیں اور ہم یہ راگ الاپتے رہ جاتے ہیں کہ ملک میں کرائم ریٹ بڑھتا جا رہا ہے۔