ن لیگ نئی سیتا وائٹ تلاش کرے
سب کچھ ایک دائرے میں کیا جائے تو سیاست پر انگلی نہیں اٹھتی لیکن کچھ کھلاڑی اس دائرے سے باہر نکل جاتے ہیں۔
سیاست بڑی بے رحم ہوتی ہے۔ اس کی ڈکشنری میں لحاظ نام کا کوئی لفظ نہیں ہوتا۔ سیاست کے کھیل میں مخالف کو گرائے بغیر کامیابی نہیں ملتی۔ مخالف کو گرانے کے لیے کیا راستہ اپنایا جاتا ہے اس کا اختیار سیاست دان کے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اس میدان میں ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ ہوتی ہے، جوابی وار کیے جاتے ہیں، ہر جائز اور ناجائز ہتھکنڈا استعمال ہوتا ہے۔
یہ سب کچھ ایک دائرے کے اندر رہ کر کیا جائے تو سیاست پر انگلی نہیں اٹھتی لیکن کچھ کھلاڑی اس دائرے سے باہر نکل کر کھیلنا شروع کر دیتے ہیں۔ بات ذاتیات سے ہوتی ہوئی خواتین اور گھروں تک چلی جاتی ہے۔ یہ تو دنیا، خاص طور پر ترقی پذیر ملکوں میں ہونے والی سیاست کا چلن ہے، ہمارے سیاسی کھلاڑیوں کا اخلاقی دیوالیہ پن ساری حدیں پار کر جاتا ہے۔ ہمارے یہ سیاستدان اتنے منتقم مزاج اور متشدد ہو چکے ہیں کہ کسی اچھے شخص کو زندہ رہنے کا حق دیتے ہیں اور نہ ہی کسی فلاحی و خیراتی ادارے کو بخشتے ہیں۔
اوپر مجھے یہ ساری تمہید اس لیے باندھنی پڑی کہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کی سیاسی لڑائی میں شوکت خانم کینسر اسپتال کو بھی نشانے پر رکھ لیا گیا ہے۔ ن لیگ نے ایک ایسے ادارے پر حملہ کیا جس پر پوری دنیا میں اعتماد کیا جاتا ہے۔ کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا غریب افراد اس اسپتال کے قیام سے پہلے علاج کے بغیر مر جاتے تھے۔
اس اسپتال میں علاج کرانے والے مریض بتاتے ہیں کہ وہاں ساتھ والے بیڈ پر لیٹے ہوئے مریض کو بھی یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کون علاج کے لیے پے منٹ کر رہا ہے اور کس غریب کا علاج مفت ہو رہا ہے۔ یہ واحد اسپتال ہے جہاں مہنگے ترین علاج کے باوجود مریض کو داخل کرانے کے لیے سفارش کی ضرورت نہیں پڑتی۔ بزرگ صحافی اور کالم نگار حمید اختر مرحوم اس اسپتال میں زیر علاج رہے اور وہ ہمیشہ اس کی تعریف کیا کرتے تھے۔ ان کے کئی کالم اس کے گواہ ہیں۔
میں چونکہ خود اسی طبقے سے تعلق رکھتا ہوں جس نے بیمار ہو کر اپنے ہی اسپتالوں میں علاج کرانا ہے اس لیے شوکت خانم جیسے ادارے مجھے غنیمت لگتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو نزلہ، زکام کا علاج بھی باہر کراتا ہے۔ اسے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ اسپتال قائم رہیں یا بند ہو جائیں۔ یہاں تو ریاست اسپتالوں کو چلانے میں ناکام ہے۔
تھوڑا عرصہ پہلے ینگ ڈاکٹرز اور پنجاب حکومت کے مابین جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے اس میں قصور کس کا تھا اس بحث میں پڑنے کا اب کوئی فائدہ نہیں' البتہ اس لڑائی میں نقصان سراسر غریب مریضوں کو ہوا۔ ہمارے جیسے عامی یہ سوچتے ہیں کہ شوکت خانم جیسے یہ چند اسپتال بھی بند ہو گئے تو وہ علاج کے لیے کہاں جائیں گے۔ چوہدری نثار اور خواجہ آصف سیاستدان ہیں اور انھیں سیاست دان عمران خان اور ان کی پالیسیوں پر تنقید کا پورا حق ہے۔
ایک اسپتال پر الزامات لگا کر انھوں نے اپنی پارٹی کی کوئی خدمت کی نہ عوامی سطح پر کوئی پذیرائی حاصل کر سکے۔ سنا ہے اس ایکشن اور اس کی ناکامی پر نواز شریف بھی خاصے برہم ہیں۔ لیکن اب پچھتاوے کیا ہووت جب چڑیاںچگ گئیں کھیت؟ ن لیگ کی طرف سے الزامات کی سیاسی تاریخ بہت پرانی ہے۔
یہ اسی کی دہائی سے شروع ہوتی ہے جب بے نظیر بھٹو ان کے نشانے پر تھیں۔ پھر نوے کی دہائی میں کپتان کو سیاست میں آنے کا شوق پیدا ہوا تو انھیں بھی ن لیگ کی ان توپوں کے سامنے آنا پڑا۔ 1997ء کے الیکشن میں وہ سیتا وائٹ سکینڈل لائے اور عمران خان کی سیاست کو برباد کر کے رکھ دیا۔ کپتان کئی سال تک اس وار سے ہونے والے نقصان کی تلافی نہ کر سکے۔ ان وقتوں میں ن لیگ کے اوپننگ بیٹسمین شیخ رشید ہوا کرتے تھے۔ وہ ایسے ایسے چھکے مارتے تھے کہ گیند میدان سے باہر جا گرتی تھی۔
وہی شیخ رشید جو اب کپتان کی ٹیم میں شامل ہونے والے ہیں۔ اس بار ن لیگ والوں کی صلاحیت کو نجانے کیا ہوا ہے؟ مجھے اس بات پر بھی حیرت ہے کہ سکینڈل تلاش کرنے اور گھڑنے کے ماہرین اس بار اتنے نالائق ثابت ہوئے کہ براستہ شوکت خانم اسپتال عمران خان پر حملہ آور ہوئے۔ شوکت خانم جیسے اسپتال برسوں کی محنت کے بعد تعمیر ہوتے ہیں۔ سر گنگا رام، جانکی دیوی، گلاب دیوی، میاں منشی اسپتال آج بھی ان عظیم لوگوں کی یاد دلاتے ہیں جنہوں نے عوامی بھلائی کے یہ منصوبے بنائے۔
ن لیگ والے یہ کیوں بھول گئے کہ ان کے قائدین کا ایک اپنا اسپتال بھی ٹرسٹ کے ذریعے انتظام چلا رہا ہے۔ اس پر کوئی الزام لگائے تو وہ بھی اتنا ہی قابل مذمت ہو گا جتنا شوکت خانم اسپتال پر لگایا جانے والا الزام ہے۔ خواجہ صاحب اور چوہدری نثار، عمران خان کو براہ راست تنقید کا نشانہ بنا کر اپنا شوق الزام تراشی پورا کر سکتے تھے لیکن جلدی میں اور کچھ نہیں ملا تو اسپتال کے خیراتی فنڈ کے غلط استعمال کا الزام لگا دیا۔ تھوڑا سا ہوم ورک کر لیتے تو انھیں پتہ چل جاتا کہ دنیا بھر میں خیراتی ادارے سرمایہ کاری کرتے ہیں۔
آخر میں کپتان سے بھی درخواست ہے کہ وہ سیاست اور اسپتال میں فاصلہ پیدا کریں۔ شوکت خانم اسپتال کی فنڈ ریزنگ میں شرکت کے موقع پر میں نے اور وہاں موجود دوسرے دوستوں نے عمران کے دائیں اور بائیں شاہ محمود قریشی اور خورشید قصوری کے بیٹھنے کو پسند نہیں کیا تھا۔ ان لوگوں کی موجودگی سے نیکی کا یہ عمل سیاسی بن جاتا ہے۔ سیاسی جماعت اور اسپتال کے معاملات بالکل الگ ہونے چاہئیں۔ ن لیگ والوں کے لیے بھی مشورہ ہے کہ وہ کسی نئی سیتا وائٹ کی تلاش میں نکلیں، غریب مریضوں کے علاج میں رکاوٹ نہ بنیں۔ خیراتی اور فلاحی اداروں کو معاف کر دیں۔ اللہ ان کا بھلا کرے گا۔