اب برطانیہ بھی چین کا ہُوا
چین اپنی تجارتی منڈیوں کے ذریعے یورپ میں بھی داخل ہونا چاہتا ہے۔
گزشتہ ہفتے برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کے دورۂ چین نے پوری دنیا کو یہ تو باورکروا ہی دیا کہ موجودہ عالمی سیاست کے کھیل میں سب سے شاطرکھلاڑی چین ہے۔ نہ صرف مہرے کمال احتیاط اور مہارت سے چلنے میں اسے ملکہ حاصل ہے، بلکہ وہ قابل دید صبر کے ساتھ اپنی جیت کا بنا تھکے اور رکے انتظار کرنے کا حوصلہ بھی رکھتا ہے۔ نتائج کے حصول میں جلد بازی کا مظاہرہ نہ کرنا ہی، عالمی بساط پر اس کے بڑھتے قدموں کا راز ہے۔
یہی وجہ ہے کہ چین دنیا کے قلب تک سرائیت کرچکا ہے۔ اس کے پاس جانے کون سا اسم اعظم ہے کہ موجودہ دورکا کوئی تیس مار خان بھی اب چین کو تسخیر کرنے کا خواب نہیں دیکھ سکتا اور پھر حال یہ ہوکہ ماضی کی عظیم الشان قوت برطانیہ بھی چین کی مٹھی میں آنے لگے تو اسے صرف معجزہ کہہ کر چین کی کئی دہائیوں سے جاری ریاضت کو اکارت نہیں کیا جا سکتا، لیکن نہ معلوم برطانوی عوام کیوں ''آنٹی مے'' ہی سے شکوہ کناں ہیں کہ انھوں نے چین کی طرف ہاتھ بڑھانے میں کچھ زیادہ ہی پھرتی دکھائی ہے۔
کیا برطانوی عوام ڈیوڈ کیمرون کے سنہرے دور حکومت کو بھول گئے جب، اکتوبر2015ء میں کیمرون نے چینی صدر ژی جن پنگ کے جام سے جام ٹکرا تے ہوئے کہا تھا کہ ان کا دور، چین اور برطانیہ کی دوستی کا سنہرا دور ہے اور زور و شور سے اعلان کیا تھا کہ چین برطانیہ کا دوسرا بڑا تجارتی شریک ہے، لیکن تھریسا مے کیونکہ بریگزٹ کی سزاوار ہیں، اس لیے ان کے ہر قدم کو اسی لڑی میں پرو کے دیکھنا اب برطانویوں کا عمومی رویہ بن چکا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنا دورۂ برطانیہ منسوخ کیا، لیکن تھریسا مے نے اس کی رتی برابر پروا نہ کرتے ہوئے چین کی طرف اڑان بھر لی۔ یعنی انھوں نے امریکا کو ڈھکے ہوئے لفظوں میں کھلا پیغام پہنچایا اور وہ پیغام یہ تھا کہ اب برطانیہ پرانے اتحایوں پر مکمل انحصار نہیں کر سکتا۔ لہٰذا تھریسا مے نے چین پہنچ کر ہی دم لیا، جہاں نئے اتحاد کے ایک اور سنہری دورکا جشن خوب ہی منایا گیا۔
دونوں ممالک کے درمیان 13ارب ڈالر سے زائد کے تجارتی معاہدے طے پائے۔ ساتھ ہی برطانوی وزیراعظم نے چین کے بزرگ شہریوں کے لیے بھاری مالی فنڈ دیے اور بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو سراہتے ہوئے مکمل تعاون کی یقین دہانی بھی کروائی۔ برطانوی میڈیا میں خوب واویلا کیا گیا کہ اس فنڈ پر برطانیہ کے بزرگ شہریوں کا حق تھا۔ اتنی بڑی رقم آخرکس طرح کسی دوسرے ملک کے شہریوں کو دی جا سکتی ہے؟ لیکن بریگزٹ کے بعد تھریسامے کو ہر حال میں مضبوط حامی اور ساتھی درکار ہیں جس کے لیے یہ رقم چنداں اہم نہیں۔
چین اور برطانیہ کے ابھرتے ہوئے تعلقات کو یورپی یونین اور دیگر پڑوسی ممالک خطے کے لیے خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ ان کی سوچ ایسی غلط بھی نہیں۔ چین اور برطانیہ تعلقات کی یہ فلم اگر بننا شروع ہوتی ہے تو اس کا اگلا سین کیا ہوگا؟ یقیناً چین ہمیشہ کی طرح ٖغیرمحسوس طور پر یورپ کے سیاسی معاملات میں عملی مداخلت شروع کر دے گا۔ پالیسیوں پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرے گا، یورپ کے انفرا اسٹرکچر میں سرمایہ کاری کے بعد وہ تمام یورپی وسائل قابو کرکے گھر لے جائے گا۔ لیکن حیرت تو یہی ہے کہ یورپ اور امریکا کو چین کا یہ کردار عجب کیوں کر لگا؟
ماضی قریب اور بعید میں قوموں کو تسخیر کرنے کے لیے ان کے حربے بھی تو کم و بیش یہی رہے ہیں، اب اگر کل کے صیاد آج اپنے دام میں آنے کو خود ہی بے تاب ہیں تو اس میں چین کا کیا قصور؟ چین تو ایسے خوب صورت مواقعے ضایع کرنے کے ڈھنگ سے واقف ہی نہیں ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ چین کی طرح روس بھی یورپ میں پنجے گاڑنے کا متمنی ہے۔ یعنی یورپ کی باغ وبہار زمین پر چین اور روس کی پنجہ آزمائی کا کھیل بس شروع ہی ہونے کو ہے۔ روس کی خواہش یورپ کے حاکموں پر حکومت کی ہے تو دوسری جانب چین ادارے اپنے قابو میں کرنا چاہتا ہے۔ چین یورپ میں میڈیا، صحافیوں اور اکیڈمیزکے بل پر اپنا کھیل کھیلے گا۔ نتیجہ تو ابھی سے واضح ہے۔
طویل المدت مقاصد کے حصول کے لیے صبرکی جو دولت درکار ہوتی ہے وہ چین کے علاوہ کسی کے پاس نہیں۔ لہٰذا کھیل سے پہلے ہی جیت کا فیصلہ چین کے حق میں کرنے میں مجھے ذرا سا بھی تامل نہیں۔ افریقا اور ایشیا کی طرح یورپ کی فتح کا تاج آنے والا وقت چین کے سر پر ہی سجائے گا۔
چین اپنی تجارتی منڈیوں کے ذریعے یورپ میں بھی داخل ہونا چاہتا ہے، جس کے لیے اس نے لندن کو اپنا ہدف اس لیے بنایا ہے کہ لندن یورپی تجارت کا مرکز ہے۔ چین اور برطانیہ کے درمیان اٹھارہویں صدی میں ہونے والی ''جنگِ افیون'' کے بعد حالیہ کچھ سالوں سے حیران کن تجارتی معاہدے کیے جا رہے ہیں۔ ماضی کی جنگوں کو بھلا کر چین اور برطانیہ کا نئے اتحادی کے طور پر ابھرنا تعجب خیز ہے، لیکن یہ اپنی جگہ ایک سچ ہے کہ دنیا میں دور دور تک اب کوئی چین کا ثانی دکھائی نہیں دے رہا۔
یورپ کی طرف ہاتھ بڑھانے سے پہلے چین نے افریقا کی منڈیوں کو اپنے قابو میں کیا۔ اب وہ سرحدوں کی قید سے ماورا فتح کے جھنڈے گاڑنے کو بے چین ہے۔ چین ماضی کی تمام طاقتوں کے برخلاف نرمی سے دنیا کو قابو کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ اسی پالیسی کے سبب وہ ایتھوپیا میں واقع افریقی یونین کے ہیڈ کواٹر تک مکمل رسائی حاصل کرچکا ہے، جہاں سے بننے والی تمام پالیسیوں پر چین کا اثر ونفوذ صاف جھلکتا ہے۔ یہی خوف اب یورپی یونین کو کھائے جا رہا ہے کہ چین کی خطے میں بالادستی کے بعد یورپ کی سلامتی، سلامت نہیں رہے گی۔
یہی وجہ ہے کہ تھریسا مے کا چین کی جانب حالیہ سفر یورپ کو ایک آنکھ نہیں بھا رہا۔ لیکن تھریسا مے کو چینی میڈیا نے تعریفوں کے پل باندھ باندھ کر اتنا خوش کر دیا ہے کہ وہ اس وقت سوچنے کو تیار ہی نہیں کہ برطانوی کیا سوچ رہے ہیں؟
حالیہ دورے نے تھریسا مے کے چہرے کی وہ رونق تو بہرحال لوٹا دی ہے جو یورپی یونین سے علیحدگی اور امریکا سے تعلقات میں در آنے والی تلخی نے، ان کے چہرے سے چھین لی تھی۔ چینی میڈیا ان کو باہمت اور عملی خاتون کے القابات سے نواز رہا ہے تو دوسری جانب برطانوی میڈیا رو رہا ہے کہ دوستی کا ہاتھ بڑھانا ہی تھا تو بے شک بڑھاتیں، لیکن کم از کم، چین میں تسلسل سے ہونے والی انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں پر ہی اپنا کوئی موقف بیان کرکے آتیں۔ واضح رہے کہ چین میں دنیا کے دیگر خطوں کے مقابلے میں، اظہار رائے، مذہبی آزادی اور شخصی آزادی پر بہت زیادہ زیادہ قدغنیں عائد ہیں۔
اس کی ایک حالیہ مثال لیو شیا ویو کی ہے، جو ایک نامور چینی ادیب، نقاد، لکھاری، پروفیسر اور انسانی حقوق کے کارکن تھے۔ چین کے موجودہ حکومتی نظام کے خلاف اور بنیادی تبدیلیوں کے متقاضی تھے۔ اس جرم کی پاداش میں چینی حکومت نے انھیں قید میں رکھا۔ دوران قید 2010ء میں انھیں امن کا نوبیل انعام دیا گیا مگر چینی حکومت نے انھیں رہائی نہ دی۔ بالآخر قید کے دوران جون2017ء میں وہ جگر کے سرطان سے وفات پا گئے۔ چینی حکومت کی ان دہری پالیسیوں کے خلاف تھریسا مے نے ایک لفظ بھی ادا نہ کیا، جس پر ان کی قوم شکوہ کناں ہے، اور یہ شکوہ ایسا بے جا بھی نہیں۔
تجارتی معاہدوں جیسے خوب صورت سراب کے سامنے اگر وہ انسانی حقوق کی پامالی جیسی تلخ گفتگو کرتیں تو شاید چین سے واپسی میں ان کے چہرے پر خوشی اور اطمینان کی یہ چمک نہ ہوتی۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ بریگزٹ کے ڈراؤنے خواب کی تکمیل کے بعد اب آنٹی مے کسی کی ناراضگی کا رسک لینے کو تیار نہیں ہیں۔