چلے ہنس کی چال
اصل میں اس سے پہلے پرائمری تعلیم کے سلسلہ میں سوال یہ اٹھا تھا کہ مناسب ہے وہ مادری زبان میں ہو۔
لو صاحبو'' تھا جس کا انتظار وہ شاہکار آ گیا۔ نئی تعلیمی پالیسی جلوہ گر ہو گئی۔ جب پہلے پہل اس پالیسی کی خبر عام ہوئی تھی تو اس پر بہت انگلیاں اٹھی تھیں۔ اس بات پر کہ انگریزی کا نفاذ پر پرائمری کلاسوں سے۔ ایں چہ بوالعجبیست۔ انگریزی کی تعلیم برحق۔ لیکن اب تک پرائمری کے درجہ سے گزرنے کے بعد اس کا آغاز ہوتا تھا۔ اس پر کسی بھلے وقت میں اعتراض ہوا ہو گا۔
اب کسی کو اعتراض نہیں تھا۔ مگر جب یہ شگوفہ پھوٹا کہ انگریزی اب پرائمری ہی سے بچوں پر انڈیل دی جائے گی تو کان کھڑے ہوئے۔ حیرت، پھر چہ میگوئیاں۔ پھر اعتراض کہ بچے کی ابتدائی تعلیم تو الف۔ ب۔ ت سے ہو رہی تھی۔ اس میں کیا قباحت تھی کہ اس کی جگہ اے۔ بی۔ سی۔ ڈی رکھ دی۔ ارے آگے چل کر اسے تو اسے اے بی سی ڈی کرنی ہی تھی۔ آخر اسے نئے زمانے میں جینا نہیں ہے۔ مگر اتنی عجلت کیا ضرور تھی کہ ابھی اس نے پنگھوڑے سے پائوں اتارا اور آپ نے اے بی سی ڈی رٹانی شروع کر دی۔
خیر بات آئی گئی ہوئی۔ وہ بھولا بسرا افسانہ اب تازہ ہوا ہے۔ اب اس نئی تعلیمی پالیسی نے جامۂ عمل پہنا ہے۔ مگر تب سے اب تک اچھا خاصا فرق پڑ گیا ہے۔ کسی نے اس پچھلے اعتراض کو نہیں دہرایا کہ پرائمری سے انگریزی کیوں پڑھائی جا رہی ہے۔ اعتراضات اس نوعیت کے ہیں کہ نصاب سے اسلام کا ذکر خارج کر دیا گیا ہے۔ اسلامی ہیروز کو بھی نصاب بدر کر دیا گیا ہے۔
وہ تو خدا بھلا کرے ایکسپریس اخبار کا۔ اس نے یہ شہ سرخی جمائی۔ سرکاری اسکولوں میں اردو ذریعہ تعلیم ختم، محکمہ تعلیم نے نئی پالیسی جاری کر دی۔ نئے تعلیمی سیشن میں پرائمری، مڈل اور ہائی اسکولز میں داخلے انگلش میڈیم کے تحت ہوں گے۔
مولوی ملائوں کو اس سے غرض نہیں کہ بچے پرائمری سے اے بی سی ڈی کرنے لگیں تو آگے چل کر کونسی زبان میں اپنے عقیدے کا اظہار کریں گے۔ اللہ کا نام تو بہرحال انھیں لینا ہے بیشک اللہ کو God کہنا شروع کر دیں۔ مگر یہ بات اتنی مختصر نہیں۔ اللہ میاں، خدائے تعالیٰ، یا الٰہی، یا رب' یا رحیم و کریم۔ اسمائے الٰہی گناتے چلے جائیے۔ مگر اسماء کی یہ رنگا رنگی اور دعاوئوں کی جلوہ گری اپنی زبان کی حد تک ہے۔ ہر تہذیب کی اپنی ایک زبان ہوتی ہے۔ اس میں عقائد جلوہ دکھاتے ہیں اور اسی میں ذہن جلا پاتے ہیں۔
اصل میں اس سے پہلے پرائمری تعلیم کے سلسلہ میں سوال یہ اٹھا تھا کہ مناسب ہے وہ مادری زبان میں ہو۔ اردو قومی زبان سہی۔ مگر مادری زبان کے بعد اس کا مرحلہ آتا ہے۔ پاکستان کے ماہرین تعلیم نے کیا خوب اس بحث کو سمیٹا کہ نہ مادری نہ پدری۔ لو مادر پدر آزاد زبان میں غوں غاں کرو اور گلوبل دنیا کے سپوت بن جائو۔
ابھی ہم نے پچھلے کالم میں یہ ذکر کیا تھا کہ اب کے جو 23 مارچ آئی تو اخباروں نے اسے اور طرح منایا۔ ایک زمانے تک قومی دنوں پر جو گرمجوشی دکھائی جاتی تھی وہ اخباروں رسالوں میں دیکھنے میں نہیں آئی۔ یہ سوال تو پہلے ہی کھڑا کیا جا چکا تھا کہ پاکستانی کوئی ایک قوم ہیں یا نہیں۔ اب کے کچھ دانشوروں نے دودھ کا دودھ پانی کا پانی کر دیا۔ کہا کہ 47ء میں پاکستان کے نام سے ایک مملکت تو قائم ہو گئی تھی مگر اسے قوم بننے کا شرف حاصل نہیں ہوا اور ابھی تک یہ شرف حاصل نہیں ہوا ہے۔ دوسرے نے کہا کہ قوم نام کی چیز نظر تو نہیں آ رہی۔ ڈھونڈ کر برآمد کر سکتے ہو تو کرو؎
کہاں ہے کس طرف ہے اور کدھر ہے
معاملہ کی بات یہ ہے کہ اگر قوم نہیں ہے تو قومی زبان کہاں سے آ جائے گی۔ اردو ہو گی کوئی زبان۔ ہوا کرے۔ مگر وہ قومی زبان کہاں سے بن گئی۔ قوم تو ہے ہی نہیں۔ اصل میں یہ ابتدائے عشق کے چوچلے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد تحریک پاکستان کے لوگ پیش پیش نظر آتے تھے۔ اسی حساب سے قومی جوش بھی بہت تھا۔ اسی فضا میں اردو کو قومی زبان کا فیصلہ یاروں نے کر ڈالا۔ صرف قوم یا زبان کا فیصلہ نہیں۔ اپنے دیس کے ایک پھول کو بھی نوازا گیا۔ یعنی کہ چنبیلی کو قومی پھول قرار دیدیا گیا۔ پھر خیال آیا کہ پاکستان کا کوئی قومی لباس بھی ہونا چاہیے، تو آپ ابتدائی برسوں کی قومی تقریبات کو یاد کیجیے۔ ان تقریبات کی تصاویر پر نظر دوڑائیے، قومی رہنما شلوار شیروانی میں ملبوس سر پر جناح کیپ سجی ہوئی۔
چنبیلی کے ساتھ عجب ہوا۔ قومی پھول بننے کے بعد وہ ہمارے باغ باغیچوں ہی سے غائب ہو گئی۔ موتیا بہار دکھاتا رہا۔ چنبیلی جیسے روپوش ہو گئی ہو۔ بس پھر پیلی چنبیلی رہ گئی جو خالی رنگ ہی رنگ ہے خوشبو سے خالی۔
قومی لباس نے البتہ کتنے برسوں تک بہار دکھائی۔ لویاد آیا جب ایک دفعہ قومی نام کا ایوارڈ ہماری گود میں آ پڑا تو ہم گھر میں ڈھونڈتے پھرے کہ ارے وہ جو ایک اچکن ہم زیب تن کیا کرتے تھے وہ کہاں گئی۔ وہ نہ ملی تو اس معزز قومی تقریب میں کس منہ سے جائیں گے۔ ہاں یاد آیا کہ بھٹو صاحب نے اپنے زمانۂ اقتدار میں شلوار کُرتے کو قومی لباس والی زینت بخشی تھی۔ مگر ان کے گزر جانے کے بعد وہ بھی خالی کُرتا شلوار بن کر رہ گئی۔ اور اب ہم پھر وہی موچی کے موچی ہیں۔ تقریب قومی ہے یا غیر قومی اس میں شریک ہونے والے کب ان میں اب تفریق کرتے ہیں۔ اچھا برا اُجلا میلا جو سمجھ میں آیا اسے پہن کر چل دوڑے۔ ہاں جیم خانہ کلب ہے کہ اس نے اپنی آن میں فرق نہیں آنے دیا۔ جان لو کہ یہ جیم خانہ ہے خالہ جی کا گھر نہیں ہے۔ الٹا سیدھا پہن کر جائو گے تو الٹے پائوں واپس آنا پڑے گا۔
مطلب یہ ہے کہ قومی زبان، قومی پھول، قومی لباس یہ زمانۂ ماضی کی باتیں ہیں۔ اب جب ہم پر یہ کھل چکا ہے کہ ہم کوئی قوم ووم نہیں ہیں تو کہاں کا قومی لباس اور کیسی قومی زبان۔ ہاں یاد آیا۔ ایک ادارہ ہوا کرتا تھا مقتدرہ قومی زبان۔ پہلے کسی نے اس پر دھیان ہی نہیں دیا تھا کہ آخر یہ ادارہ کس تقریب سے چلا آ رہا ہے۔ جس نے بھی سوچا بجا سوچا اور قومی زبان کا دم چھلا بیچ میں سے نکال کر دوسرا نام رکھ دیا۔ اسے بھی اس گلوبل زمانے میں قومی زبان کی بات کرنے کی کیا تک ہے۔ زبان ہو تو گلوبل زبان ہو ورنہ کیوں ہو۔ تو پاکستان کے ارباب بست و کشاد نے بجا سوچا اور ان کے ماہرین تعلیم نے خوب کیا کہ بیچ میں سے یہ کانٹا نکال دیا۔ آخر ہم کب تک کوے مینے رہیں۔ ہنس کی چال بھی تو چل کر دیکھیں۔