کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے
اس خوش آئند اور عملی ترقی میں یوں تو سب ہی اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔
برادرم ذوالفقار احمد چیمہ کے اس دوسرے کالماتی مجموعے ''دوٹوک'' میں شامل تحریروں سے ان کی سوچ اور شخصیت کی جو تصویر بنتی ہے اس کا کوئی بھی نقش اس ذوالفقار احمد چیمہ سے مختلف نہیں جس کو میں کم از کم چار دہائیوں سے جانتا ہوں اور فی زمانہ گفتار اور کردار کا ایسا عملی اور مثالی نمونہ اگر نایاب نہیں تو بے حد کمیاب ضرور ہے کہ اب اس طرح کے لوگ آؤٹ آف فیشن ہوتے جا رہے ہیں جو حق گوئی اور حق پرستی کو اپنے ذاتی مفادات اور دنیاوی ترقی پر نہ صرف ترجیح دیں بلکہ ہمہ وقت اس کی قیمت دینے پر بھی تیار اور کمربستہ ہوں اور جن کے مخالفین بھی ان کی استقامت کردار کی گواہی دیں، میں عام حالات میں اس طرح کے اسمائے توصیفی کے استعمال سے گریز کرتا ہوں اور اگر یہ تقریب ان کی افسری کے دنوں میں ہوتی تو شاید میں اس میں شمولیت بھی نہ کرپاتا لیکن ایک تو اب یہ حوالہ ادب اور صحافت کا ہے اور دوسرے اس کا تعلق ایک ایسے شخص سے ہے جو ہم میں سے بیشتر کی طرح نہ صرف ایک سیلف میڈ انسان ہے بلکہ ان روایتوں سے بھی جڑا ہے جن کے ہم سب وارث اور امین ہیں۔
ذوالفقار چیمہ طالب علمی کے دور میں ہی بطور ایک خوش بیان مقرر کے نام پیدا کرچکے تھے لیکن تحریر کے میدان میں گزشتہ چند برسوں کے دوران بطور کالم نگار، دانشور اور ایک بیدار مغز مبصر ان کی جو صلاحیت سامنے آئی ہے وہ کم از کم میرے لیے ایک خوشگوار حیرت کا درجہ رکھتی ہے کہ بیوروکریسی اور وہ بھی پولیس سروس کی بیوروکریسی میں ایک بھر پور نیک نام زندگی گزارنے کے باوجود ان کے اندر کا جوشیلا اور سوچنے والا دردمند نوجوان ہمیشہ زندہ اور موجود رہا ہے اور ان کی دین، روایت اور پاکستان سے محبت اور کمٹ منٹ ہر دور اور ہر حال میں ان کے ساتھ رہی ہے۔ اس بات کی وضاحت اور تصدیق کے لیے اس کتاب ''دوٹوک'' میں شامل کالموں کے چند عنوانات کچھ اس طرح سے ہیں۔
-1 خدارا اوورسیز پاکستانیوں کو تقسیم نہ کریں
-2 ملک کی تقدیر بدلنے کا نسخہ
-3 پیرس۔ ایک قبر اور ایک تصویر
-4 پاکستانی قوم کو لاحق پانچ خطرناک امراض
-5 بانی پاکستان اور ان کی 11 اگست کی تقریر
-6 حبیب جالبؔ کے گھر وزیراعظم کی آمد
-7 پاکستان پر فلمیں بنانے والو، موضوعات حاضر ہیں
-8 ماں ہوں ناں
-9 آرمی چیف کے نام
-10 چیف جسٹس آف پاکستان کے نام
آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ ان عنوانات میں انسانی تہذیب، قومی تاریخ، دینی تشخص، شعر و ادب، فنون لطیفہ، انسانی رشتے اور حالات حاضرہ سب کے سب ہی آگئے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ یہ اس مطالعے، خیال اور نظر کی وسعت کے بھی ترجمان ہیںجس میں لکھنے والے کی ذات اور کائنات ایک ہی منظر کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ذوالفقار چیمہ جیسے جذباتی اور حساس انسان کے لیے ایک ذمے دار اور مرتب پولیس افسر کے طور پر زندگی گزارنا کس قدر مشکل ہوگا۔ اس کا بھی کچھ نہ کچھ اندازہ ان تحریروں کے موضوعات سے لگایا جاسکتا ہے کہ طاقت کے ایوانوں سے براہ راست تعلق کی وجہ سے وہ اس نظام کی نفسیات کو بھی سمجھتے تھے جس کا عمومی ہدف معاشرے کے وہ عام، اچھے اور مسائل زدہ عوام ہوتے ہیں جن کو مصنف اپنا کہتا ہی نہیں سمجھتا بھی ہے۔
مجھے خوشی ہے کہ اس کتاب میں شامل کل چونسٹھ کالموں میں ایک بھی کالم ایسا نہیں جو محض کاغذ کا پیٹ بھرنے کی خاطر لکھا گیا ہو۔ ان کی جذباتی شدت اور نظریاتی وابستگی سے کہیں کہیں اختلاف کیا جاسکتا ہے کہ یہ ان کا فطری انداز اور قارئین کا بنیادی حق ہے لیکن مجموعی طور پر ان کے تجزیے اور تاثرات مجھے اپنے دل اور دماغ دونوں سے قریب اور ہم آہنگ محسوس ہوتے ہیں۔
تاریخی عوامل اور مزاج کے اعتبار سے ہماری قوم کے کچھ عناصر ترکیبی ایسے ہیں جن میں کہیں کہیں Sublime اور Ridiculous کے درمیان بس ہاتھ بھر کا فاصلہ ہی باقی رہ جاتا ہے بلکہ بعض معاملات میں تو ایسی صورتحال بھی بن جاتی ہے کہ بیک وقت تالی بجانے اور سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے۔ ذوالفقار چیمہ کے ان کالموں میں ایسی کچھ تصویروں کو بہت احتیاط، مہارت اور فکری گہرائی کے ساتھ پینٹ کیا گیا ہے اور یوں غالبؔ کے اس شعر کو مجسم کردیا ہے کہ
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
اس بات کی مزید وضاحت کے لیے ''خدارا اوورسیز پاکستانیوں کو تقسیم نہ کریں''، ''پاکستانی قوم کو لاحق پانچ خطرناک امراض'' اور ''بانی پاکستان اور ان کی 11 اگست والی تقریر'' کو ایک بار پھر پڑھ کر دیکھیے گا۔
اس کتاب میں شامل تین کالم ذاتی رشتوں کے حوالے سے والد، والدہ اور بھانجے کے لیے لکھے گئے ہیں جن کی ایک ایک سطر سے ہمیں وہ ذوالفقار احمد چیمہ جھلکتا ہوا نظر آتا ہے جس کا خمیر پنجاب کے دیہاتوں کی اس روایتی تہذیبی فضا میں گندھا ہوا ہے جس میں خون کے رشتوں اور انسانی اقدار کی نرمی اور گرمی قدم قدم پر دل کو کھینچ کھینچ لیتی ہے کہ یہی وہ تعمیری عناصر ہیں جن پر ہماری شخصیتوں کی عمارتیں استوار ہوتی ہیں اور جن کی مہک متعلقہ افراد کے دنیا سے پردہ کرجانے کے بعد بھی موجود اور رواں رہتی ہے جس کی ایک زندہ مثال اس کتاب میں شامل پہلا کالم ''ہمارے ابا جی، ہمارے رول ماڈل'' ہے۔
اس وقت ہمارا معاشرہ بظاہر بہت سی الجھنوں اور پیچیدگیوں کا شکار ہے اور زندگی کا ہر شعبہ ایک طرح کے خلفشار کا شکار نظر آتا ہے مگر اس صورت حال کا مثبت پہلو یہ ہے کہ چیزیں مجموعی طور پر نہ صرف آگے کی طرف بڑھ رہی ہیں بلکہ ہم ان سوالات کے جواب بھی ڈھونڈنے کی کوشش کررہے ہیں جنھیں کچھ عرصے پہلے تک شجر ممنوعہ بناکر رکھا جاتا تھا۔
اس خوش آئند اور عملی ترقی میں یوں تو سب ہی اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں لیکن اس کا زیادہ کریڈٹ ان لوگوں کو جاتا ہے جو ذوالفقار احمد چیمہ کی طرح ''دو ٹوک'' انداز اور لہجے میں اپنے دل کی بات کہتے اور کرتے چلے جارہے ہیں۔ اگر اسی طرح سب لوگ اپنے اپنے حصے کا کاغذ لگن اور ایمانداری سے بھرنے لگیں تو وہ دن دور نہیں جب ہم ایک زندہ اور مثالی قوم کی طرح دنیا بھر میں جانے اور پہچانے جائیں گے۔
ذوالفقار احمد چیمہ آپ جیتے رہیے، خوش رہیے اور اسی طرح دوٹوک لکھتے رہیے۔