لیڈروں سے زیادہ عقلمند
عدلیہ نے ابھی تک ہر ممکن صبر سے کام لیا ہے اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور اپنی توہین کو مسلسل برداشت کیا ہے.
یہ انسانوں کی بستی ہے حیوانوں کی نہیں کہ جہاں کوئی قانون نہ ہو حالانکہ سنتے تو یہی آئے ہیں کہ جنگل کا بھی کوئی قانون ہوتا ہے اور جنگل میں رہنے والے حیوان اس قانون کے تابع رہتے ہیں اسی طرح انسانوں کی بستیوں میں بھی قاعدے قانون ہیں جو کہ انسانوں کو کسی ضابطے میں رکھنے کے لیے وضع کیے گئے تا کہ معاشرہ کسی قانون کے تحت چلتا رہے اور اس میں کوئی بگاڑ پیدا نہ ہو اگر اس قانون میں کوئی بگاڑ پیدا ہو جائے یا کر دیا جائے تو وہ معاشرے میں بگاڑ کا سبب بن جاتا ہے جو کہ بالآخر کسی بڑے بگاڑ کا نتیجہ بن جاتا ہے۔
کچھ ایسی ہی صورتحال ہمارے وطن عزیز میں بھی زبردستی پیدا کر نے کی کوشش کی جارہی ہے تاآنکہ یہ بگاڑ کسی بڑے سانحہ کا سبب نہ بن جائے یہ کوشش کیوں کی جارہی ہے اس کا بڑا سبب کیا ہے اور اس سے کیا فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں یہ تو اس بگاڑ کا سبب بننے والے ہی بہتر جانتے ہیں یا پھر عوام ہیں جن کے ذہنوں میں اب یہ بات پختہ ہو گئی ہے کہ اگر میاں صاحب نااہل ہو جائیں تو ملک میں ترقی کا عمل رک ہی نہیں جاتا بلکہ ترقی کا پہیہ پیچھے کی جانب چلنا شروع ہو جاتا ہے اور پھر باوجود حکومت کی کوشش کے یہ پہیہ اگلی جانب چلنے سے انکار کر دیتا ہے۔
دیکھا جائے تو یہ صورتحال اسلیے پیدا ہوئی کہ ایک بین الاقوامی ایجنسی نے دنیا کے بڑے بڑے سرمایہ داروں کے متعلق یہ انکشافات کیے ان کی دولت کے خزانے کہاں کہاں دفن ہیں اور یہ دولت کیسے حاصل کی گئی ہے اس عالمی چوری کے راز افشاء ہونے کے بعد دنیا بھر میں بھونچال آگیا اور پاکستان کے تقریباً پانچ سو کے قریب افراد کے نام بھی اس میں شامل تھے جن میں سب سے بڑا نام ہمارے حاضر سروس وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ کا تھا جن کے متعلق عدالتی کاروائی کا آغاز ہوا اور وزیر اعظم کے عہدے سے نااہلی پر جا کر اس کا اختتام ہوا اور اب یہ صورتحال ہے کہ میاں صاحب نااہلی کے بعد مسلسل اس سوال کے جواب کی تلاش میں ہیں کہ ان کو کیوں نکالا گیا عدلیہ کے پانچ معزز ججوں پر ان کا غصہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا اور وہ مسلسل عدلیہ کی توہین کیے جا رہے ہیں وہ شاید یہ چاہ رہے ہیں کہ عدالت ان کو توہین عدالت میں بھی بلا لے اور وہ مظلومیت کی ایک اور سیڑھی چڑھ جائیں۔
عدلیہ نے ابھی تک ہر ممکن صبر سے کام لیا ہے اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور اپنی توہین کو مسلسل برداشت کیا ہے حالانکہ اگر عدالت چاہے تو کسی کو بھی عدالت کے متعلق اس طرح کی گفتگو کرنے کی پاداش میں طلب کر لے اور پھر یہ اس پر منحصر ہے کہ وہ اپنی توہین کو معاف کر دے یا توہین کرنیوالے کو سزا دے۔
بہرحال ابھی تک حالات کچھ اس طرح کے ہیں کہ میاں نواز شریف عوامی جلسوں کو عوامی عدالت قرار دینے پر بضد نظر آرہے ہیں وہ عوامی جلسوں میں عوام سے عدالت کے خلاف فیصلے لے رہے ہیں اور جو ہاتھ وہ عدلیہ کے خلاف عوامی جلسوں میں حاضرین سے بلند کرا رہے ہیں وہ ہاتھ درحقیقت ان کے اپنے خلاف بلند ہو رہے ہیں اور وقت آنے پر یہ ہاتھ بلند کرنے والا کھیل ان کے اپنے خلاف کھیلا جا رہا ہو گا اور وہ تب اس پوزیشن میں نہیں ہو نگے کہ ان ہاتھوں کو بلند ہونے سے روک سکیں لیکن ابھی تک وہ ان ہاتھوں کی بلندی سے خوش ہی نظر آرہے ہیں اور عوامی جلسوں میں ان کو اپنی کامیابی گردان رہے ہیں وہ دراصل اس وقت سے خائف نظر آتے ہیں جب عدالت کے فیصلے کی روشنی میں ان کے خلاف نیب سے فیصلے آئینگے اسلیے وہ پیش بندی کرنا چاہتے ہیں کہ معاملہ ان کی نااہلی پر ہی ٹل جائے۔
ان کی جارحانہ تقریروں کے جواب میں سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان نے کہا کہ وہ جلسے تو نہیں کر سکتے لیکن اگر انھیں ضرورت پڑی تو پاکستانی عوام ان کی پشت پر کھڑے ہونگے یعنی کہ عدلیہ نے اپنے جذبات کا اظہار کر دیا ہے اور یہ بات بالکل درست کہی ہے کہ جب عدالت کو ضرورت پڑی عوام ان کے ساتھ کھڑے ہونگے کیونکہ پاکستانی عوام اپنے لیڈروں سے تنگ ہیں کیونکہ انھوں نے ان کی زندگیوں میں آسودگی کے بجائے ان کے دکھوں میں اضافہ کا موجب ہی بنے ہیں۔ اسلیے جہاں سے بھی عوام کو ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آنے کی امید ہوتی ہے وہ نتائج کی پرواہ کیے بغیر اسی کی جانب چل پڑتے ہیں۔
عدلیہ کے علاوہ چیئر مین نیب بھی خاصے متحرک نظر آتے ہیں اور احتساب بیورو کی بنیاد رکھنے والے حکمران اب اسی احتساب بیورو کی ایک جدید شکل نیب کے رو برو پیشیاں بھگت رہے ہیں ۔ نیب کے چیئر مین نے حکومتی دباؤ میں نہ آنے کا اعلان کرتے ہوئے ایک طرح کی آخری وارننگ دے دی ہے اور شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں کا بھی مکمل احتساب کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
نیب کے چیئر مین یہ کہتے ہیں کہ برسر اقتدار اشرافیہ کے خلاف پنجاب کے بعض ادارے تعاون نہیں کر رہے جس کو برداشت نہیں کیا جائے گا دراصل شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہی نقصان پہنچاتے ہیں تخت نشین کی آنکھیں اور کان ہی ان کے وفادار ہوتے ہیں جو اس کو اصل سے بے خبر رکھتے ہیں اور ایسی دنیا کے خوابوں میں رہتے ہیں جہاں پر حکمران کے لیے راوی چین ہی چین لکھ رہا ہوتا ہے لیکن دراصل سب کچھ اس کے مخالف ہو رہا ہوتا ہے اور خواب سے آنکھیں تب کھلتی ہیں جب شاہ کے یہ وفادار بھی کسی اور کی وفاداری میں جانے کی تیاری میں ہوتے ہیں یا کچھ پہلے سے ہی جا چکے ہوتے ہیں۔
عدلیہ ہو یا اس ملک کی سلامتی کے محافظ ادارے عوام ہمیشہ سے ان کے ساتھ ہی کھڑے رہے اور جب بھی کبھی مشکل وقت آیا یہ ہجوم ایک قوم میں ڈھل گیا اس لیے اگر کسی سیاستدان کو یہ غلط فہمی ہو کہ پاکستانی عوام اس کی انگلی کے اشارے کے منتظر رہتے ہیں تو وہ اپنی غلط فہمی دور کر لے یہ عوام ہمیشہ اس انگلی پر اٹھتے ہیں جو اس ملک کی حفاظت اور سلامتی کی خاطر اٹھتی ہے نہ کہ مسجدوں کے میناروں سے بلند ہونے والی حکمران مخالف کرپشن کی صداؤں پر۔ عوام خواص سے کہیں زیادہ شعور رکھتے ہیں۔