بے مثال جدوجہد کی صدی
ایک صدی کی یہ جدوجہد ہمیں کیسی عجیب جھلکیاں دکھاتی ہے۔
انیسویں صدی میں ہندوستان نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف خونیں جنگ لڑی۔ بیسویں صدی برصغیر کی عورت کے لیے اس حوالے سے بہت اہم رہی کہ اس نے قومی سیاست اور جمہوری جدوجہد کا ذائقہ چکھا۔ ہندو عورت نے برطانوی راج کے خلاف بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ انھوں نے جلوس نکالے، لاٹھیاں کھائیں جیل گئیں، بھوک ہڑتال کی۔ کچھ دنوں بعد مسلمان عورت بھی جدوجہد آزادی میں شریک ہوئی۔
پاکستان بنا تو ہمیں محترمہ فاطمہ جناح، بیگم لیاقت علی خان، لیڈی ہارون، شائستہ اکرام اللہ اور دوسری بہت سی خواتین اس دور میں مردوں کے شانہ بشانہ نظر آتی ہیں۔ 60ء کی دہائی میں جنرل ایوب خان کے خلاف جمہوریت کی لڑائی محترمہ فاطمہ جناح نے بہت شان سے لڑی جس میں پاکستانی عوام، مرد اور عورت کی تخصیص کے بغیر شریک تھے۔
ان کے بعد نصرت بھٹو، بینظیر بھٹو، کلثوم نواز، عابدہ حسین، مریم نواز،کشور زہرا، نسرین جلیل اور دوسری متعدد خواتین نے جمہوریت اور عورتوں کے حقوق کے لیے شاندار جدوجہد کی۔ ویمن ایکشن فورم ایک تنظیم کے طور پر ابھر کر آئی۔ بینظیر بھٹو نے آمریت اور انتہا پسندی کے خلاف مزاحمت کی اس جنگ میں جان بھی دے دی۔
یہ تمام باتیں اس لیے بہت شدت سے یاد آرہی ہیں کہ 6 فروری کو انگلینڈ میں عورتوں کی اس بے مثال جدوجہد کی صدی منائی گئی جو تاریخ میں سفریجیٹ تحریک کے نام سے مشہور ہے۔ اس تحریک کی گونج ہندوستانی مسلمانوں تک مولانا ابوالکلام آزاد کے 'الہلال' اور 'البلاغ' کے ذریعے پہنچی تھی۔ یہ وہ تحریک تھی جو برطانوی عورتوں نے ووٹ ڈالنے کے اپنے سیاسی حق کے لیے لڑی۔
ایک صدی پر پھیلی ہوئی یہ جدوجہد 6 فروری 1918ء کو شروع ہوئی اور اب 6 فروری 2018ء کو اس کی صدی، انگلستان میں دھوم دھام سے منائی گئی۔ دنیا کے وہ ملک جو تاج برطانیہ کے زیر نگیں تھے اس کی عورتیں بھی اس تحریک سے متاثر ہوئیں۔ ہندوستان ان میں خصوصی طور سے شامل تھا۔
مغرب اور بطور خاص برطانوی عورتوں نے انیسویں صدی کی تیسری دہائی سے ہی اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنی شروع کردی تھی۔ اس کا بنیادی سبب 1832ء کا Great Reform Act تھا۔ متوسط طبقے اور فیکٹریوں میں کام کرنے والی عورتیں اپنی اجرت میں اضافے کی طلبگار تھیں۔ وہ جانتی تھیں کہ پارلیمنٹ میں نمائندگی کے بغیر انھیں سیاسی اعتبار سے مراعات نہیں ملیں گی۔ یہی وجہ تھی کہ برطانیہ میں پڑھی لکھی عورتوں نے فیکٹریوں میں کام کرنے والی عورتوں کو اپنے گرد جمع کیا۔
زیادہ گھنٹے کام کرنے کی انھیں مردوں کی نسبت بہت کم اجرت ملتی تھی۔ وہ اپنے بچے گھروں پر کسی قریبی عزیزہ کے پاس چھوڑ کر کام کرتیں، اس کے باوجود وہ اپنے بچوں کو پیٹ بھر کر کھلا نہیں سکتی تھیں اور ذاتی ضرورتیں بھی پوری نہیں کرسکتی تھیں۔ یہ ایسا مسئلہ تھا جو اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی بیگمات کو چھوڑ کر ہر عورت کو درپیش تھا۔ سچ پوچھیے تو حقوق کی لڑائی کا یہ قصہ 100 برس سے کہیں زیادہ پرانا ہے۔
یہ اس وقت شروع ہوا جب 1866ء میں ہزاروں عورتوں نے ایک اپیل پر دستخط کیے اور اس اپیل کو برطانوی پارلیمنٹ میں پیش کیا۔ 52 برس کے دوران عورتوں نے اپنے سیاسی حقوق کی لڑائی جس شدو مد سے لڑی اس کا آج ہم اندازہ بھی نہیں کرسکتے۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ 6 فروری 1918ء کے دن، 30 برس سے زیادہ عمر کی شادی شدہ اور صاحب جائیداد عورتوں کو ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہوا۔
اس کے 10 برس بعد برطانوی مرد کے برابر، برطانوی عورت کو بھی ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہوا اور یہ حق نو آبادیات میں رہنے والی عورتوں کو بھی ملے۔ آج پاکستان میں یہ حق تمام عورتوں کو حاصل ہے لیکن ہمارے یہاں بے شمار عورتیں قبائلی رسم و رواج کے نام پر اس حق سے محروم رکھی جاتی ہیں۔
یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ مغرب کے بہت سے ملکوں میں عورتوں کو جمہوری اور سیاسی حقوق بہت پہلے سے ملنے لگے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ عورتوں کو ووٹ ڈالنے کا حق نیوزی لینڈ میں 1893ء، آسٹریلیا میں 1902ء، فن لینڈ میں 1906ء اور ناروے میں 1913ء میں مل گیا تھا۔ برطانیہ کے سیاستدانوں اور پارلیمنٹ میں بیٹھی ہوئی اشرافیہ جس کا تعلق نوابوں، پشتینی جاگیرداروں، اور منصب داروں سے تھا، وہ متوسط اور نچلے طبقے کی اپنی عورتوں کو حقیر جانتے تھے اور انھیں برابری کے حقوق دینے پر تیار نہ تھے۔
بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ووٹ کا حق مانگنے والی اپنی ہم وطن اور ہم مذہب عورت کو برطانوی پولیس جس رعونت اور سفاکی سے کچلتی تھی، اسے دیکھیے تو ہندوستان کی تحریک آزادی سے نمٹنے والے برطانوی پولیس افسروں کے ظالمانہ رویوں پر زیادہ حیرت نہیں ہوتی۔ لندن کی سڑکوں پر نہتی اور پُر امن عورتوں کوگھڑ سوار پولیس جس طرح کچلتی، ان پر لاٹھی چارج کرتی، انھیں جیلوں میں بھر دیتی۔ اسی کے بعد سفریجیٹ کی پُر امن اور عدم تشدد کے اصولوں کو ماننے والی تحریک نے تشدد کا راستہ اختیار کیا۔
1912ء سے 1915ء کے دوران ریل گاڑیوں میں سیکڑوں بم رکھے گئے۔ تھیٹر ہال، ڈاک خانے، چرچ، ریلوے اسٹیشن، اس تحریک کے مخالفین کے گھر اور بینک آف انگلینڈ کا صدر دروازہ بھی ان بموں کا نشانہ بنا۔ یہ بم عورتیں بناتی تھیں جنھیں اس کام کا تجربہ نہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ان میں سے کچھ پھٹے اور کچھ نہ پھٹ سکے۔ ان بموں سے ہلاکتیں تو نہ ہوئیں لیکن عمارتوں، ریلوے اسٹیشنوں اور ڈاک گھروں کو بہت نقصان پہنچا۔ ان بموں نے نفسیاتی طور پر برطانوی حکومت کو دباؤ میں لیا اور عوام کو ہراساں کیا۔
موجودہ برطانوی وزیراعظم نے سفریجیٹ صدی کی تکمیل کے اس تاریخی موقعے پر پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ میں اس بات پر فخر محسوس کرتی ہوں کہ مجھے برطانیہ کی عوامی زندگی میں پہلے سے بہت زیادہ عورتیں نظر آتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اب سے ایک صدی پہلے عورتیں ووٹ ڈالنے کا حق نہیں رکھتی تھیں۔ وہ جیوری کی رکن نہیں ہوسکتی تھیں اور نہ وہ مختلف پیشے اختیار کرسکتی تھیں۔ میں آج برطانوی تاریخ کی دوسری خاتون وزیراعظم ہوں اور برطانوی پارلیمنٹ میں پہلے سے کہیں زیادہ رکن خواتین موجود ہیں۔
1914ء میں سفریجیٹ تحریک کی رہنما اور مشہور و معروف شخصیت Emmeline Pankharst (ایمیلائین پنکہرسٹ) نے اپنی خود نوشت میں لکھا کہ مرد اخلاقی اصول وضع کرتے ہیں اور خواہش رکھتے ہیں کہ عورتیں ان اصولوں کو تسلیم کریں۔ وہ یہ بات طے کر چکے ہیں کہ یہ بالکل درست اور مناسب ہے کہ وہ اپنی آزادیوں اور اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کریں لیکن عورتیں اپنے حقوق اور اپنی آزادیوں کے لیے جدوجہد کریں، یہ مناسب نہیں ہے۔
18 نومبر 1910ء کو بلیک فرائیڈے کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ وہ دن ہے جب ووٹ کا حق مانگنے والیوں نے لندن میں برطانوی دارالعوام کے سامنے ایک بہت بڑا مظاہرہ کیا تھا۔ مظاہرہ کرنے والی ان خواتین کو برطانوی پولیس نے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ عورتوں اور پولیس کے درمیان یہ جھڑپیں 6 گھنٹوں تک جاری رہی تھیں۔ اس روز کی کئی رپورٹیں ہمیں یہ بھی بتاتی ہیں کہ اس روز برطانوی پولیس نے اپنی ہی عورتوں کو جنسی طور پر بھی ہراساں کیا تھا اور ان کے ساتھ دست درازی کی گئی تھی۔
ایک صدی کی یہ جدوجہد ہمیں کیسی عجیب جھلکیاں دکھاتی ہے۔ ان میں سے ایک منظر ایملی ڈیوڈسن کے جنازے کا ہے۔ 1913ء میں ایملی نے عورت کے لیے ووٹ کا حق مانگتے ہوئے اور احتجاج کرتے ہوئے شاہ جارج پنجم کی شاہی بگھی کے سامنے چھلانگ لگادی تھی اور شاہی گھوڑوں کے سموں تلے آکر کچلی گئی اور ہلاک ہوگئی تھی۔ اسے عورتوں کے حقوق کی جدوجہد میں شہید کا درجہ دیا گیا۔ اس کا جنازہ جب اٹھا تو بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ووٹ کا حق مانگنے والی عورتیں سفید لباس میں قطار در قطار چل رہی تھیں۔ اس جنازے کو تعظیم دینے کے لیے لندن کی آبادی کا ایک بڑا حصہ اُمنڈ آیا تھا جس میں ہزاروں سیہ پوش عورتیں بھی شامل تھیں۔
ہمارے یہاں عورتوں کی جدوجہد کو ابھار جنرل ضیاء الحق کے زمانے سے ملا جنھوں نے ان کے جمہوری اور سیاسی حقوق کو سلب اور غصب کرنا اپنے لیے باعثِ فخر سمجھا۔ اس وقت سے اب تک عوامی اور سیاسی زندگی میں بینظیر بھٹو سے عاصمہ جہانگیر، حنا جیلانی، رضیہ بھٹی، بینا سرور اور مہتاب راشدی تک وہ جو پارلیمنٹ میں پہنچیں، جو سڑکوں پرگھسیٹی گئیں اور جو دشنام اور اتہام کا نشانہ بنیں، نامور اور گمنام عورتوں کے ناموں کی ایک طویل فہرست ہے جنھوں نے پاکستانی مردوں اور پاکستانی عورتوں کے حقوق کی جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالا۔ وہ بھٹہ مزدوروں، کھیت مزدوروں، کچرے کے ڈھیر سے اٹھائی جانے والی بچیوں اور تیسری جنس کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتی رہیں۔
پاکستانی عورت کی اپنے حق کے لیے مزاحمت اور سیاسی جدوجہد کی تاریخ خاور ممتاز اور فریدہ شہید نے لکھی۔ اس سے آگے کی تاریخ ابھی مرتب ہونی ہے۔ یہ ہم پر فرض ہے کہ ہم اس مزاحمت کے شب و روز لکھیں اور ان مردوں کے بہ طور خاص شکر گزار ہوں جنھوں نے اس مزاحمت میں عورتوں کا ساتھ دیا اور اپنا حصہ ڈالا۔