امریکی معاشرہ کدھر کو
اب دنیا دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ہے، غیر ترقی یافتہ اقوام بڑی تعداد میں مشرق میں پائی جاتی ہیں۔
LAS VEGAS:
واشنگٹن سے آنے والی خبروں میں کہا گیا ہے کہ امریکی فوج میں 80 کروڑ ڈالر کا گھپلا ہوا ہے۔
یہ گھپلا وغیرہ مغربی ممالک میں عام طور پر نہیں ہوتا بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ مغرب کی ترقی کا راز یہی ہے کہ ان کے معاشرے میں بے ایمانی رائج نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ترقی کرتے گئے اور اہل مشرق زوال کا شکار رہے۔ اب دنیا دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔ ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ۔ غیر ترقی یافتہ اقوام بڑی تعداد میں مشرق میں پائی جاتی ہیں۔
ہمارے ایک دوست پچھلے دنوں بتارہے تھے کہ ہمارے معاشرے کا مسئلہ یہ ہے کہ کتنے ہی مفید اور کارآمد منصوبے بنائے جائیں وہ مغرب میں کامیاب اور مشرق میں مزید تباہی کا باعث بنتے ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ہم سب من حیث القوم بے ایمان ہیں۔ ہمارے معاشرے میں جوتے گانٹھنے والے شخص سے لے کر اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز حضرات تک بے ایمانی کے مرتکب ہوتے ہیں اور بے ایمانی ہماری رگوں میں خون کی طرح رواں دواں ہے۔
بات سچی تھی اس لیے ہم کچھ کہہ بھی نہیں سکتے تھے۔ ہم نے عرض کیا کبھی ہم بھی تو ایمان دار ہوا کرتے تھے۔ فرمانے لگے تو اس وقت ہم ترقی یافتہ تھے اور وہ ممالک اور اقوام جو اس وقت بے ایمانی میں مبتلا تھیں زوال کا شکار تھیں۔ ہم نے عرض کیا کہ گویا اصول یہ طے ہوا کہ جو قوم بے ایمانی پر قائم رہے وہ زوال کا شکار ہوجاتی ہے اور جب تک وہ بے ایمانی ترک نہ کرے زوال کا شکار ہی رہتی ہے اور جب وہ ایمان داری کو اپنالے تو ترقی کی طرف گامزن ہوجاتی ہے۔
قوموں کے عروج زوال کے اسباب کو اتنی سادگی سے بیان نہیں کیا جاسکتا مگر یہ حقیقت ہے کہ صاحب کردار افراد پر مشتمل اقوام ہی ترقی کی منازل طے کرتی ہیں اور کردار میں ایک اہم عنصر ایمان داری ہے۔
جب کسی قوم میں بے ایمانی کی ابتدا ہوجائے تو اسے اپنی ترقی پر فاتحہ پڑھ لینا چاہیے۔ ایمان کی بات یہ ہے کہ کامیابی اور کامرانی کے لیے جو خصوصیات درکار ہیں اہل مغرب نے انھیں اپنا رکھا ہے اور اسی لیے وہ ترقی کرتے رہے ہیں۔ وہ ہوسکتا ہے کبھی کسی خاص موقع پر بے ایمانی کے مرتکب ہوں مگر قومی کردار کے اعتبار سے وہ ایمان داری برتتے رہے ہیں اور اب ہمیں اپنا بھولا ہوا سبق انھیں سے سیکھنا ہے۔
مگر اب ایسا نظر آرہاہے کہ ہم ان سے اپنا بھولا ہوا سبق سیکھنے بیٹھیں اور وہ فوج کسی بھی ملک کا حساس ترین عضو ہوتی ہے۔ اس لیے وہاں زیادہ ذمے داری برتی جاتی ہے۔ فوج کو ہر قوم اپنی ترقی کا پیمانہ اور اپنے تحفظ کی ضمانت سمجھتی ہے اور عام طور پر فوج کو وہ سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں جو دوسروں کو میسر نہیں ہوتیں اس لیے ان سے کسی قسم کی بے ایمانی یا بد چلنی کی توقع نہیں ہوتی۔
مگر امریکا محکمہ دفاع پینٹا گون کی ڈیفنس لاجسٹک ایجنسی اپنے اخراجات کا حساب دینے میں ناکام رہی ہے۔ اس پر ڈی ایل اے (ڈیفنس لاجسٹک ایجنسی) کا آڈٹ مشہور اور معتبر آڈٹ کمپنی ارنسٹ اینڈ ینگ نے کیا اور برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق اس آڈٹ کے نتیجے میں تقریباً 80 کروڑ ڈالر کے اخراجات کا حساب ڈی ایل اے دینے میں ناکام رہی۔ اس میں 46 کروڑ ڈالر سے زیادہ رقم انجینئرنگ کور نے تعمیری منصوبوں پر اور دس کروڑ ڈالر کمپیوٹر کی تنصیب پر خرچ کیے گئے ہیں مگر ان اخراجات کی وضاحت کرنے میں ادارہ مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔
پینٹا گون کا سالانہ بجٹ 700 ارب ڈالر ہے۔ جس میں سے لاجسٹک ایجنسی کا بجٹ 40 ارب ڈالر ہے۔ یہ امریکا کی وسیع ترین ایجنسی ہے جس میں 25 ہزار افراد کام کرتے ہیں اتنی اہم ایجنسی کے بجٹ کا جب آڈٹ ہوا تو وہ اپنے اخراجات کی تفصیل بتانے میں ناکام رہی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے جس کا سالانہ بجٹ 700 ارب ڈالر ہے اس کا مکمل آڈٹ کبھی ہوا ہی نہیں اور اس سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈیفنس لاجسٹک ایجنسی کے ترجمان نے 80 کروڑ ڈالر کے حسابات نہ ملنے کا اعتراف کرتے ہوئے کہاکہ در اصل انھیں اس قدر شفاف اور اتنی باریک بینی سے آڈٹ کی توقع نہیں تھی۔
گویا ماضی میں بھی گھپلے موجود تھے مگر دفاعی ادارے کی اہمیت اور حساس حیثیت کے پیش نظر اس کا آڈٹ شفاف طریقے اور باریک بینی سے نہیں کیا جاتا رہا اور سرسری جائزہ لے کر معاملات کو خرچ کرنے والوں کے ایمان پر چھوڑا جاتا رہا۔
مگر اب جب کہ ادارے کا شفاف اور باریک بینی سے آڈٹ ہوا تو خرچ کرنے والوں کے ایمان پر آنچ نہیں آئی بلکہ وہ خاکستر ہوگیا۔
اب اگر ہمارے محترم دوست کے معیار پر امریکا کو جانچا جائے تو پتہ چلے گا ایمان داری کا فقدان تو وہاں بھی پیدا ہوگیا ہے اور جب معاشرہ بے ایمانی کی طرف چل پڑے تو پھر اس کے زوال کو کون روک سکے گا۔
اس تمام صورتحال پر طرہ یہ ہے کہ امریکا نے مسٹر ٹرمپ کو صدر منتخب کرلیا ہے جو خود احتسابی کے سرے سے قائل نہیں۔ اس لیے نہ وہ اپنا احتساب کریںگے نہ امریکی معاشرے کے احتساب پر توجہ دیںگے اور اگر معاملات کو یوں ہی کھلا چھوڑدیاگیا تو امریکی معاشرے کا خدا حافظ۔