مریم نواز شریف سے وابستہ توقعات
شنید ہے کہ مریم نواز کو عوامی رابطہ مہم کا سربراہ بھی بنایا جارہا ہے۔
پاکستان اور بھارت کی معروف سیاسی جماعتوں میں جوہری تبدیلیاں دیکھنے میں آرہی ہیں۔بھارت میں خاصے عرصہ سے پرانی اور مشہور سیاسی جماعت، انڈین نیشنل کانگریس، مقبولیت اور عوامی محبت سے محروم ہو چکی ہے۔ مرکز میں بھی اور صوبوں میں بھی۔
اندرا گاندھی کے قتل کے بعد اُن کے صاحبزادے، راجیو گاندھی، نے زمامِ اقتدار سنبھالی تو سہی لیکن وہ سیاسی قطع کے آدمی ہی نہیں تھے۔ اپنی والدہ اور نانا کے مقتدر ناموں کی طاقت کی بنیاد پر وہ وزیر اعظم بنائے گئے لیکن جچے نہیں۔ زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ وہ بھی، اپنی ماں کی مانند، قتل کر دیے گئے۔ اُن کی اطالوی نژاد بیوہ ، سونیا گاندھی، نے کانگریس کی راسیں سنبھال لیں لیکن اقتدار سنبھالنا انھیں نصیب نہ ہو سکا۔
پارٹی کے اندر سونیا گاندھی کو اتنی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا کہ وزیر اعظم بننا اُن کا محض خواب ہی رہا؛ چنانچہ بہ امر مجبوری انھیں پسِ پردہ بیٹھ کر اقتدار من موہن سنگھ کے حوالے کرنا پڑا۔ پارٹی سونیا گاندھی کے ہاتھ میں رہی لیکن پارٹی اُن سے چلی نہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ووٹر سونیا اور کانگریس سے دُور ہوتے چلے گئے۔یوں جو خلا پیدا ہُوا، اُس کی جگہ''آر ایس ایس'' اور ''بی جے پی'' ایسی بنیاد پرست ہندومذہبی جماعتوں نے لے لی۔ بھارتی اقتدار کے سنگھاسن پر نریندر مودی کی شکل میں ''بی جے پی'' آ بیٹھی۔
سونیا گاندھی ضعیف اور بیمار ہو چکی ہیں؛ چنانچہ کانگریس کے بڑوں نے اب پارٹی کی صدارت راہل گاندھی کے سپرد کر دی ہے، اِس امید کے ساتھ کہ چونکہ سنتالیس سالہ راہل گاندھی نہرو کا پڑ نواسا، اندرا گاندھی کا پوتا اور راجیو گاندھی کا بیٹا ہے، شائد اِسی بہانے کانگریس پھر سے ووٹروں کا اعتماد حاصل کرکے اقتدار میں لَوٹ آئے۔معروف بھارتی صحافی، برکھا دَت، نے ''واشنگٹن پوسٹ''میں اپنے حالیہ کالم میں لکھا ہے کہ ''اب راہل گاندھی کو بھارتی سیاست کا ''پپّو'' کہنا بند ہو نا چاہیے۔''
پاکستان میں بھی کچھ اِسی طرح کا سِین چل رہا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی(جو ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کی شکل میں چار بار مرکزی اقتدار میں رہی ہے) اب اپنے اقدامات کے کارن سمٹ سمٹا کر صرف سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ پنجاب اس کے لیے تقریباً اجنبی بن چکا ہے؛ چنانچہ یہ فیصلہ ہوتا نظر آرہا ہے کہ ''سارے اختیارات'' اگر بلاول زرداری بھٹو کو تفویض کر دیے جائیں تو ممکن ہے پنجاب اور دیگر صوبوں میں پیپلز پارٹی کی کایا پلٹ جائے۔
یعنی ممکن ہے بھٹو کے نواسے، بینظیر کے صاحبزادے اور سابق صدرِ پاکستان آصف زرداری کے بیٹے ہونے کے ناطے 29 سالہ بلاول آیندہ انتخابات اور اقتدار کی بازی جیت سکیں۔ یہ تو مگر وقت ہی بتائے گا کہ بلاول بھٹو صاحب کتنے اور کہاں تک کامیاب ہوتے ہیں لیکن 5 دسمبر2017ء کو اسلام آباد میں پیپلز پارٹی کی گولڈن جوبلی منانے کے لیے جو بڑا جلسہ کیا گیا، اس میں زرداری صاحب جس طرح چھائے رہے، اس سے تو یہی پیغام لیا گیا ہے کہ فی الحال بلاول زرداری بھٹو کو پارٹی اختیارات پوری طرح نہیں سونپے جا رہے۔
اِس سارے پیش منظر میں محترمہ مریم نواز بھی اُبھرتی اور نمایاں ہوتی ہُوئی دکھائی دے رہی ہیں۔سابق وزیر اعظم کی 44 سالہ صاحبزادی۔ پاکستان کی70 سالہ تاریخ میں تین بار وزیر اعظم بننے کا منفرد اعزاز پانے والے جناب محمد نواز شریف جن عدالتی آزمائشوں کا شکار ہیں، اِسے اگر بعض لوگ مسلم لیگ نون کا زوال کہتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ کون ہو گا جو نون لیگ کی اعلیٰ قیادت کا اعتبار اور اعتماد حاصل کر سکے گا، یوں کہ پارٹی بھی متحد رہے اور کوئی سرکش دھڑا بھی مرکزِ گریز قوتوں کا ہدف نہ بن جائے؟
اصولی اور آدرشوں کی بات تو یہ ہے کہ نون لیگ کے اندر (نواز شریف کے خدا نخواستہ مائنس کیے جانے کی صورت میں) اُسی شخصیت کو رہبری کی شمع سنبھالنی چاہیے جو ہر لحاظ سے میرٹ کے ترازو پر پورا اُترتا ہو۔ دنیا بھر کے جمہوری معاشروں، جمہوری حکومتوں اور جمہوری سیاسی جماعتوں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ہم چونکہ جمہوری ارتقاء کی اُس آئیڈیل منزل سے ابھی دُور ہیں، اس لیے ہمیں اُنہی مناظر کو قبولنے کی تیاری کرنی چاہیے جو ہمارے ہاں فی الحال مروّج ہیں۔ اور جنہیں ''زمینی حقائق'' کہا جاتا ہے۔
نون لیگ کے ورثے کو بھی اِسی پس منظر میں دیکھنا ہوگا۔ اور نون لیگ میں جناب شہباز شریف ہیں، محترمہ مریم نواز ہیں اور جناب حمزہ شہباز ہیں۔ بظاہر تو نواز شریف 2018ء کے انتخابات کے لیے جناب شہباز شریف کو بطورِ وزیر اعظم ''نامزد'' کر چکے ہیں لیکن ابھی اس کا باقاعدہ اعلان باقی ہے۔ نواز شریف اور مریم نواز پر مقدمے بھی چل رہے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ یہ مقدمات کب تک چلیں گے؟ ان کے نتائج کیا ہوں گے؟ جسٹس باقر نجفی کی سامنے لائی گئی رپورٹ کیا شکل اختیار کرے گی؟
یہ بات تو بہر صورت اپنی جگہ موجود ہے کہ شریف خاندان کے دونوں نوجوان سیاستدانوں، حمزہ اور مریم بی بی، کو سیاست میں ابھی اپنا مقام بنانا اور اپنی اپنی شخصیت کا لوہا منوانا ہے۔ دونوں کو حال ہی میں نون لیگ کی مجلسِ عاملہ کا رکن بھی بنایا گیا ہے۔ مریم نواز شریف کے مجلسِ عاملہ کا رکن بننے کے بعد اُن لوگوں کے اعتراضات یکسر ختم ہو گئے ہیں جو اُٹھتے بیٹھتے معترض ہوتے تھے کہ مریم بی بی کس ناطے اور کس حیثیت میں مسلم لیگ نون کے اہم ترین اجلاس میں بیٹھتی ہیں؟
اب مریم نواز شریف اس تازہ حیثیت میں نون لیگ میں مرکزی کردار ادا کر سکیں گی۔ لاہور کے حلقہ این اے 120میں اپنی والدہ محترمہ، بیگم کلثوم نواز، کی انتخابی مہم کامیابی سے سر کرکے مریم نواز نے اپنی سیاسی ساکھ تو بہر حال ثابت کی ہے۔ وہ کامیابی سے دوبار نون لیگ کے سوشل میڈیا ورکرز کنونشن کا انعقاد کرچکی ہیں۔تازہ کنونشن میں میاں صاحب بذاتِ خود موجود تھے۔یہ سوشل میڈیا ورکرز مریم بی بی کی ابلاغی طاقت بن چکے ہیں۔
شنید ہے کہ مریم نواز کو عوامی رابطہ مہم کا سربراہ بھی بنایا جارہا ہے۔ یوں وہ 2018ء کے انتخابات میں سب اہم لوگوں سے براہِ راست رابطے میں رہیں گی۔ انھیں خاصا انٹرنیشنل ایکسپوژر بھی ملا ہے۔ سابق امریکی صدر بارک اوباما کی اہلیہ، مشل اوباما ، کے ساتھ مریم نواز کی ملاقاتیں شاندار بھی رہیں اور تعمیری بھی۔ تعمیری اِن معنوں میں کہ مشل اوباما کے تعاون سے مریم بی بی ایسے فنڈز حاصل کرنے میں کامیاب رہیں جن کی بدولت وہ پاکستان میں بچیوں کی تعلیم کو بہتر بنانے کے قابل ہو سکیں۔
امریکی، برطانوی اور چینی میڈیا میں اُن کی شخصیت کے متعدد مثبت پہلو سامنے آئے ہیں۔اگرچہ ''نیویارک ٹائمز'' کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ایک سطر کے حوالے سے انھیں بعد ازاںتردید بھی کرنا پڑی تھی۔ عالمی میڈیا سے مکالمہ کرتے ہُوئے مگر ایسی چھوٹی چھوٹی غلطیاں تو سرزد ہو ہی جاتی ہیں۔یہ کوئی بڑا ایشو نہیں ہے۔
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ مریم نواز شریف اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے بارے میں جو ٹویٹس کرتی ہیں، اُن میں قدرے تلخی کا عنصر شامل ہوتا ہے اور یہ عنصر اُن کے سیاسی کیرئر کے لیے مناسب نہیں ہے۔پچھلے دنوں انھوں نے عمران خان کے صادق اور امین ہونے کے سوال پر جواب دیتے ہُوئے جس انداز میں کپتان کے بچوں کو بریکٹ کیا، شائستہ حلقوں نے مادام کے اس جواب کو پسند نہیں کیا ہے۔ انھیں احتیاط کرنی چاہیے۔
17دسمبر 2017ء کو ''نیویارک ٹائمز'' نے دنیا بھر کی گیارہ مضبوط ترین اور موثر ترین خواتین کی فہرست شایع کی ہے۔ محترمہ مریم نواز شریف کا اسمِ گرامی بھی اس میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ غیر معمولی معمولی Recognition ہے۔