بازار گرم ہے
’’زرد ریل‘‘ کے چکر میں لاہورکے قرب و جوار میں تاریخی عمارات کا قتل عام ہونے والا ہے
قیام پاکستان کے وقت بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی تقاریر میں جس پاکستان کا نظریہ پیش فرمایا تھا اس میں خصوصاً اقلیتوں کے بارے میں بار بار یہ کہا گیا تھا کہ وہ پاکستان کے ویسے ہی شہری ہیں جیسے مسلمان۔ ان کی عبادت گاہوں اور تاریخی مقامات کے تحفظ کا بھی وعدہ کیا گیا تھا۔
ستر سال کے بعد صورتحال یہ ہے کہ پورے پاکستان میں اقلیتوں کی عبادت گاہیں جو اگر زیر استعمال نہیں ہیں تو ان پر لوگوں کی للچائی ہوئی نظریں ہیں، بلڈرز مافیا پورے ملک میں ان کی تاک میں ہے اور کچھ کو تو حکومت اور صوبائی حکومتوں نے تباہ کردیا یا تباہ ہونے کے قریب ہیں۔
چکوال میں سکھوں کے مقدس مقام کے تالاب میں عدالت کو پانی بھروانا پڑا ہے۔ بے تحاشا ٹیوب ویل لگا کر وہاں کے پانی کی سطح کو بہت نیچے کردیا گیا۔ حالانکہ یہاں ہر سال لوگ زیارت کے لیے آتے ہیں، یہ دیکھ بھال کر رہا ہے پنجاب کا محکمہ جو ان مقامات کی حفاظت اور تزئین کا ذمے دار ہے۔
ہر سال جب لوگ وہاں آتے ہیں تو کیا بندوبست کیا گیا، کیا لاہور اور حسن ابدال ہی علامت ہے رواداری اور بھائی چارے کی اور جگہیں کس کھاتے میں ہیں۔
''زرد ریل'' کے چکر میں لاہورکے قرب و جوار میں تاریخی عمارات کا قتل عام ہونے والا ہے، کچھ ہوگیا ہے زمین کے اندر اور اوپر اس زرد ریل کی وجہ سے جو تھرتھراہٹ پیدا ہوگی وہ جلد ہی لاہور کی تاریخ کو زرد کردے گی۔ سندھ بھی کچھ پیچھے نہیں ہے کیونکہ کوٹہ سسٹم کے تحت افسر آ رہے ہیں دور دراز سے شہروں میں، جن کے لیے شہرکھلونے ہیں لہٰذا یہاں بھی یہی حال ہے مگر ترقی صفر اور ذاتی بینک بیلنس لاکھوں بلکہ کروڑوں اور سندھ کے شہروں کے ووٹ دعویدار ان کے بھائی وار (یعنی شراکت دار)۔
زمینوں کا حال تو اب ظاہر ہوگیا ہے، بدین کا حال بھی کوئی دیکھ لے۔ ایک شوگر مل بچ گئی ہے اس کی بھی تحقیق کرلی جائے کہ بنی کیسے؟ اور کس دور میں، دائرہ کار اندرون سندھ بھی ہونا چاہیے یہاں کیا ہو رہا ہے۔ یہاں کون کون سی تاریخی عمارتیں بچی ہیں اور اس کے انتظام کے لیے مختص زمینیں کس کے قبضے میں ہیں۔ ایک خبر کے مطابق سندھ کے تاریخی مقامات کی مرمت متعلقہ افسران کے لیے کاروبار بن گیا ہے۔ یہ خبر دسمبر 2017 کے نصف کے بعد کی کسی تاریخ کو اسی اخبار میں چھپی ہے جس کے مطابق ہر بجٹ میں کروڑوں روپے تاریخی مقامات کی مرمت پر خرچ کیے جاتے ہیں لیکن حالت دو تین برس سے زیادہ بہتر نہیں رہتی۔
2017 میں پچیس مقامات کی مرمت کے لیے 20 کروڑ مالیت کے ٹھیکے اس طرح دیے گئے کہ وہ ان کو ہی ملیں جن کو افسران چاہتے ہیں۔ نیب سے بچنے کے لیے کام تقسیم کردیا گیا۔ عام طور پر برائے نام اور غیر معیاری مرمتی کام کے ذریعے رقم ہڑپ کی جاتی ہے۔ لیکن اس بار ٹھیکے دینے کے عمل نے ہی شکوک و شبہات پیدا کردیے ہیں۔
کام کا ٹینڈر ایک جگہ سے جاری کیا گیا۔ متعلقہ کاغذات ملنے کے لیے دوسرے دفتر کا پتا دیا گیا تاکہ من پسند ٹھیکیداروں کے علاوہ دوسرے لوگ دھکے کھاتے رہیں اور ایسا ہی کیا گیا من پسند ٹھیکیداروں کو ہی ٹھیکے ملے۔ ٹھیکے الاٹ کرنے کے بعد ان ٹھیکیداروں کی رجسٹریشن انجینئرنگ کونسل میں کروائی گئی۔ یعنی گدھے کوگاڑی کے پیچھے باندھا گیا۔
ٹھیکیداروں کے تجربے کو بھی نظراندازکردیا گیا ۔ ان ٹھیکیداروں کو آرکیالوجیکل سائٹس پرکام کا کوئی تجربہ نہیں ہے جن تاریخی مقامات کی مرمت کے ٹھیکے دیے گئے ہیں ان میں گھوٹکی میں واقع مومل جی ماڑی (مومل کا محل)، بدھسٹ اسٹوپا (مجسمہ)، کاہو جو دڑو، میرپور خاص بدھسٹ اسٹوپا بے نظیر آباد، آثار برہمن آباد سانگھڑ، لاکھین جو دڑو سکھر، شادی پلی عمر کوٹ، مقبرہ میاں یار محمد کلہوڑو دادو، تجار بلڈنگ لاڑکانہ، چٹوری قبرستان میر پورخاص، مقبرہ میر شہداد، بھوڑ میسر، مندر تھرپارکر، سونڈا قبرستان ٹھٹھہ، قلعہ کلن کوٹ مکلی، نواب امیر خان مسجد ٹھٹھہ، جائے پیدائش اکبر بادشاہ عمر کوٹ، چاہین جو دڑو نواب شاہ، قادر بخش کا قبہ (مزار) خیرپور میرس اور ایسے اور مقامات ہیں۔
ان جگہوں پر ٹھیکیداروں کے اسٹاف کی جگہ محکمہ آرکیالوجی کے باقاعدہ ملازم مرمت کا کام کر رہے ہیں جنھیں ڈائریکٹر جنرل آرکیالوجی منظور کناسرو کی ہدایت پر تعینات کیا گیا ہے۔ آڈٹ رپورٹس بھی محض ٹھیکہ الاٹ کرانے کے لیے تیار کرائی گئی ہیں ۔ خبر کی تفصیل مزید طویل ہے ڈی جی صاحب نے تردید کی ہے اور وہ سب کرتے ہیں کون مانتا ہے کہ گڑ بڑ نہیں کی اب احتساب والے چیک کرلیں پتا چل جائے گا۔
یہ کام کس طرح کیے جاتے ہیں اس کا ایک اندازہ ہمیں ہے۔ 2016 میں مجھے رنی کوٹ جانے کا موقع ملا اور اس کے لیے محکمے کے ایک آدمی کو تعینات کیا گیا کہ وہ ہمارے گائیڈ ہوں۔ موصوف کی ڈیوٹی رنی کوٹ میں ہے رہتے حیدرآباد میں ہیں یعنی صرف تنخواہ لیتے ہیں کام نہیں کرتے۔ خیر رنی کوٹ قلعے کے صدر دروازے کو دیکھ کر حیرت کا جھٹکا لگا ٹھیک ہے کہ ہم محقق نہیں مگر احمق بھی نہیں کہ دروازے پر سیمنٹ کے کام اور آگے دیواروں پر قدیم مصالحے میں فرق نہ کرسکیں۔
تاریخی مقامات کا حسن ہی یہی ہے کہ ان کی ریپیئر یا مرمت کا کام اس کے مطابق کیا جائے کہ وہ تاریخ سے الگ نظر نہ آئے۔ ٹھٹھہ کی بادشاہی یا شاہجہانی مسجد کو دیکھ لیجیے مثال کے طور پر۔ ان پر موجودہ زمانے کا مصالحہ جاہل افسران استعمال کرتے ہیں اور ایسے ایک اجہل کے زیر انتظام یہ قلعہ رہ چکا تھا اور آج تک ایک پل نامکمل پڑھے اس دور کا ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے ٹھیکیدار پل کے SLAB بھی لے گیا تھا، ڈھانچہ کھڑا ہے۔
بعد میں سندھ سے محبت کرنے والے ایک شخص کو جسے تاریخ سے انتہا درجے کا لگاؤ ہے، وہاں کا کام سونپا گیا وہ ہیں اشتیاق انصاری، سنا ہے کہ انھوں نے وہاں بہت کچھ ٹھیک کیا ہے۔ کاش صدر دروازہ بھی اشتیاق نے تاریخ سے جوڑ دیا ہو، آرزو ہے ایک بار تفصیل سے سارا قلعہ دیکھنے کی۔
ہم امری بھی گئے تھے بہت مایوسی ہوئی تھی کوئی محفوظ کرنے کا بندوبست نہیں ہے۔ لوگ وہاں رہ رہے ہیں ان آثاروں میں اور آثار ختم ہو رہے ہیں۔ اس کے بعد ہم موئن جو دڑو بھی گئے تھے جو اب محض ایک پبلک پارک ہے لاڑکانہ والوں کے لیے روز روز آثار دیکھنے کون آئے گا، ہاں وہاں کے بڑے بڑے لان تفریح کا ذریعہ ہیں۔
وہاں کے میوزیم کا بھی نظام درست نہیں سرکاری دفتر کی طرح کھلتا بند ہوتا ہے اور ملازمین کا حال بھی سرکاری ہے۔ کوئی ایکسپرٹ نہیں نہ کوئی گائیڈ، رجسٹر میں ہوں گے تنخواہ بھی لیتے ہوں گے، وہاں کوئی موجود نہیں تھا۔ البتہ ایک غیر سرکاری بندہ غالباً کوئی استاد وہاں لوگوں کو مفت معلومات فراہم کر رہا تھا، کچھ مقامات اور علاقوں سے محبت کرنے والے ہوتے ہیں پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔
غرض جس جگہ بھی ہم گئے ہم نے ہر جگہ ایسا ہی دیکھا ٹھٹھہ سے لاڑکانہ تک ہر جگہ دو نمبر کا سامان اور دو نمبرکے لوگ، جلد سے جلد دولت مند ہوجانے کا جنون جس نے تمام اخلاقی قدروں کو پامال کر رکھا ہے۔ کہیں کوئی شخص درست جگہ پر نہیں ہے، رشوت، اقربا پروری، چور بازاری نے ہر جگہ گھر کر رکھا ہے۔ سال گزر گیا نیا سال شروع ہے اب ڈاکے، چوروں کے لیے مواقعے ملیں گے، کسی بھی جگہ کوئی بندوبست نہیں ہے۔ پینے کا پانی اور بیٹھنے کی جگہ اکثر نہیں ہیں، پانی ساتھ لے کر جانا ہے، کھانے کو ہے نہیں یا بہت ناقص وہاں بھی من پسند ٹھیکے دیے گئے ہیں لہٰذا بدترین کھانا پینا اور بہترین کی ادائیگی۔
سندھ میں کم ازکم تین تہذیبوں کے آثار بکھرے پڑے ہیں، ہندو، بدھ، جین۔ یہ قدیم تہذیبیں ہیں، دنیا ان کو جاننا چاہتی ہے، ان کے آثار میں، عمارات میں، جگہوں میں دلچسپی رکھتی ہے، مگر عدم تحفظ اور ناکافی سہولیات کی وجہ سے کم لوگ یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ رنی کوٹ بھی محفوظ علاقہ نہیں ہے مگر ہمیں کیا ہم توکمانے کے لیے آتے ہیں اورکما کر رہیں گے ہر طریقے سے چاہے ان تاریخوں کا سودا ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔