کسانوں کا استحصال

سندھ نیوٹریشن پروگرام پر کروڑوں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے


Zuber Rehman February 14, 2018
[email protected]

پاکستان بھر میں کسان اپنے مسائل سے دوچار ہیں۔ ایک جانب وڈیروں کے پاس لاکھوں ایکڑ زمین ہیں اور مزید ہڑپ کرتے جارہے ہیں جبکہ کروڑوں کسان بے زمین اور بے گھر ہیں۔ اس ملک میں سب سے خطرناک صورتحال تھرپارکر کی ہے۔ وڈیروں کا کسانوں سے زمین چھیننا اور ان کی جائیداد پر قبضہ معمول کا عمل بن چکا ہے۔ حال ہی میں کسان گاؤں خان گھاریو، نزد چھاچھرو تھر کے بیجل میگھواڑ کو وڈیروں نے ڈرایا دھمکایا، اسے سال بھر کی مزدوری کی رقم دینے کے بجائے اس کی کاشت کاری کی زمین زبردستی فروخت کروا دی اور اس سے ایک لاکھ روپے لے گئے جبکہ فروخت شدہ زمین کی بقایا رقم بھی واپس نہیں کر رہے ہیں۔

دوسرا واقعہ وسندھی زوجہ چیتن میگھواڑ، گوٹھ جانب علی شاہ، تعلقہ چھاچھرو کے زمیندار نے چھ سال سے فصل کا حساب یعنی پیداوار کی قیمت دینے کے بجائے اسے گھر چھوڑنے پر مجبور کردیا، اب وہ اپنا گھر چھوڑ کر عمرکوٹ شہر کے قریب بے یارو مددگار بدترین زندگی بسر کررہی ہے۔ پو لیس زمینداروں کی پٹھو بنی ہوئی ہے۔ غریبوں کی فریاد سننے کے بجائے خوف و ہراس پھیلا کر پریشان کرتی ہے۔ تیسرا واقعہ جوارو ولد بھگڑو میگھواڑ، گوٹھ رام سینگانی نزد چھاچھرو، تھرپارکر میں وڈیرے نے ایک لاکھ روپے کے عوض تنخواہ کی چیک بک رہن رکھ لی۔ سود خور سیٹھ دو سال سے بینک سے تنخواہ لیتا رہا، بڑی مشکل سے چیک بک واپس ملی ہے لیکن اس کی بقایا رقم اور سونے کے زیورات واپس دینے سے انکار کر رہا ہے اور جان سے مارنے کی دھمکی بھی دے رہا ہے۔

تھرکول کے علاقے کے مرکزی شہر اسلام کوٹ کی اہمیت بڑھنے کی وجہ سے مافیا نے سرکاری زمین، قبرستان سمیت مویشیوں کے لیے مختص چراگاہوں پر قبضے اور انھیں فروخت کرنا شروع کردیا ہے۔ محکمہ ریونیو کی چشم پوشی کی باعث غیر قانونی طور پر اسٹامپ پیپر پر سرکاری زمینوں کو فروخت کیا جارہا ہے۔ اسلام کوٹ ننگر پارکر بائی پاس کے دونوں اطراف ہندو مسلم قبرستان کی زمین بھی مافیا کے ہاتھ لگ گئی ہے۔ اس کے خلاف میگھواڑ برادری نے زبردست احتجاج کرکے روڈ بلاک کردیا۔ حکام کی جانب سے ایک ہفتے کے اندر قبرستان خالی کرانے کی یقین دہانی پر احتجاج ختم ہوا۔ ادھر محکمہ صحت نے گزشتہ ماہ 54 بچوں کی ہلاکت کی رپورٹ سندھ حکو مت کو بھیجی۔ تھرپارکر میں وبائی امراض اور غذائی قلت سے فروری میں چار بچے دم توڑ گئے۔ اس کے علاوہ بہت سی اموات کو خفیہ رکھا جا رہا ہے۔

سندھ نیوٹریشن پروگرام پر کروڑوں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے۔ علاقے میں لیڈی ہیلتھ ورکرز کے لیے پی پی ایچ ای کے مراکز نہیں ہیں اور انھیں دور دراز علا قوں میں بھیجنے کا کوئی موثر بندوبست نہیں ہے۔ سندھ ہاری کمیٹی کے رہنما ڈھامر مل نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ویسے تو ریاست ہے ہی جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی محافظ، کسانوں اور پسماندہ طبقات خصوصاً ہندو دلت برادری پر ظلم کی انتہا ہورہی ہے، ان کا جینا تو مشکل ہے مرنا بھی آسان نہیں، بے گھر، بے در، جن کے پاس مردوں کو دفنانے کے لیے زمین بھی نہیں، ان سے جبری مشقت لی جاتی ہے۔ استحصال کے علاوہ وڈیرے ان کی بچیوں کے ساتھ اغوا اور زیادتی کرکے مذہب تبدیل کروانا ایک معمول بن گیا ہے۔ درحقیقت ان کی زندگی غلاموں سے بھی بدتر ہے۔

ایک اور بڑا گمبھیر مسئلہ ہاریوں کا ہے، ہاریوں کو وڈیرے مخصوص کمین گاہوں میں قید کردیتے ہیں، وہ کبھی درجنوں اور کبھی سیکڑوں کی تعداد میں ہوتے ہیں۔ ان مرد ہاریوں کے ساتھ ان کی خواتین اور بچوں کو بھی قید کردیا جاتا ہے۔ ان میں سو فیصد ہاری دلت ہندو ہوتے ہیں، جو ہمارے ملک کے سب سے زیادہ استحصال زدہ شہری ہیں۔ یہ عظیم محنت کش بعض موقعوں پر برسوں قید میں رہ کر وڈیروں کی غلامی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، ان میں بعض ہاریوں کے پاؤں میں بیڑیاں بھی ڈالی جاتی ہیں۔ جب کوئی سماجی تنظیم عدالت سے رجوع کرتی ہے تو کبھی کبھار ان کو رہائی تو مل جاتی ہے، لیکن قید کرنے والے مجرم وڈیروں کو کبھی کوئی سزا نہیں ہوتی۔

جب وہ مجرم ثابت ہوگئے تو عدلیہ ان وڈیروں کو کیوں سزا نہیں دیتی ہے؟ جاگیرداروں کو سزا دینے سے شاید ہاریوں کو قید کرنے کا سلسلہ کم ہو۔ تھرپارکر میں ہر ماہ دو سے دس لڑکیاں اغوا ہوتی ہیں، تو کبھی آبروریزی کی قیمت تیس من گندم مقرر کرکے ظالم باعزت بری کردیا جاتا ہے۔ ''چائلڈ میرج ایکٹ'' کے تحت 18 سال سے کم عمر لڑکیوں کے بارے میں ریاست اور عدالتوں کا دہرا معیار ہے۔ کچھ دنوں قبل زبردستی اغوا کی گئی لڑکی نے عدالت میں پیش ہوکر زبردستی اغوا اور زیادتی کی حقیقت بیان کی تو اس کو والدین کے حوالے کردیا، لیکن اغواکار کو کوئی سزا نہیں دی گئی۔ چند سال قبل میرپورخاص اور کوٹ غلام محمد میں ایسے ہی واقعات رونما ہوئے تھے، جس میں تین معصوم 9، 11 اور 12 سالہ لڑکیوں کو اغوا کیا گیا، جنھیں عدالت کے ذریعے والدین کے حوالے کیا گیا، لیکن اغواکاروں اور زیادتیاں کرنے والوں کو کوئی سزا نہیں دی گئی۔

2 دسمبر 2017ء کو گاؤں جامن سموں، تحصیل اسلام کوٹ تھر کی پندرہ سالہ لڑکی مومل بنت جیومل میگھواڑ کو زبردستی اغوا کیا گیا، لیکن اسلام کورٹ پولیس کی جانب سے سرٹیفکیٹ پیش کرنے کے باوجود والدین کو ڈرا دھمکا کر مسلسل پانچ دن تک ایف آئی آر کاٹنے سے کتراتی رہی، جس کے ہاری کمیٹی کے رہنما دھامرمل خود گواہ ہیں۔

ننگرپارکر 13 سالہ بھرمی کولھی کو زبردستی اغوا کیا گیا لیکن پولیس نے ایف آئی آر کاٹنے سے انکار کیا۔ بودر فارم میں پارو کولھی کے گھر میں ہتھیار بندوں نے زبردستی گھس کر گھر والوں کو یرغمال بنا کر معصوم بھوری کولھی کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا، سخت احتجاج کے بعد بودر فارم پولیس نے ایف آئی آر کاٹ کر مجرموں کو گرفتار کیا۔ چند ماہ پہلے 13 سالہ معصوم تلسی میگھواڑ کو میرپورخاص میں دن دیہاڑے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ اس سلسلے میں سندھ ہاری کمیٹی کے رہنما دھامرمل نے حکمرانوں، ہائی کورٹ، آئی جی سندھ، ایس پی تھرپارکر ، ڈائرکٹر ہیومین رائٹس، انسانی حقوق کی تنظیموں اور مختلف سیاسی جماعتوں سے اپیل کی کہ عزت سے جینے کا حق چھیننے والے ایسے واقعات کا فوراً نوٹس لے کر ''چائلڈ میرج ایکٹ'' پر سختی سے عمل کروایا جائے اور مجرموں کو سزا دلوائی جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں