منڈیاں سج چکیں
اُن کی یہ صلاحیت اور خصوصیت کسی سے ڈھکی چھپی بھی نہیں ہے
نیشنل عوامی پارٹی کے سربراہ مرحوم خان عبدالولی خان نے ایک دفعہ بڑی پتے کی بات کی تھی کہ ہمارے یہاں جس کے پاس 120کروڑ روپے ہوں وہ یہاں اسلام آباد میں بڑی آسانی کے ساتھ حکومت بناسکتا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ایک کروڑ روپوں کی کوئی ویلیو ہوا کرتی تھی اور ہمارے منتخب ارکان اسمبلی اِن ایک کروڑ روپوں کے عوض اپنا ضمیر اور اپنا ایمان بلا کسی تامل ا ور پس وپیش بیچ دیاکرتے تھے۔
اُس وقت قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت کے لیے صرف 120ارکان کے ضرورت ہوا کرتی تھی لیکن ہمارے لوگوں میں پھر بھی کوئی شرم اورکوئی حیاء ہواکرتی تھی اور یہ کام کرنا کوئی آسان تصور نہیں کیاجاسکتا تھا۔ سوائے چند ایک کے باقی ارکان اسمبلی اپنی اُس سیاسی پارٹی کی حمایت اور وفاداری پرکوئی سمجھوتہ نہیں کیا کرتے تھے جس کی ٹکٹ پر وہ منتخب ہوکر وہ اِس مقام پر پہنچے ہوتے تھے، لیکن جوں جوں زمانہ آگے بڑھتا گیا ہمارے معاشرے سے سادہ لوحی رخصت ہوتی گئی۔ جھوٹ ، دغا بازی اور ضمیر فروشی ہماری قومی امتیازات اور شناخت کی علامتیں بنتی گئیں۔احساسِ زیاں سے بے نیاز ہماری کوتاہ اندیشیوں اور خود غرضیوں نے سارے معاشرے کو بیمار بناکے رکھ دیا۔اب یہاں اسمبلیاں اصطبل اور ارکان اسمبلی بکاؤ مال کی شکل اختیارکرچکے ہیں۔
جنرل ضیاء کے 11سالہ آمرانہ دور کے بعد جب جمہوریت نے ایک بار نئے سرے سے جنم لے کر پرورش پانا شروع کیا تو میدان انتخابات کے اِنہی شہسواروں نے اپنی قیمت اور بولی لگا نا شروع کردی۔ پارٹیوں کواپنے ارکان اسمبلی کو دوسروں کی پہنچ سے بچانے کے لیے چھانگا مانگا اورگلگت و ہنزہ کی وادیوں میں محفوظ پناہ گاہیں بنانی پڑگئیں۔ یہ وہ وقت تھا جب قوم کے اِن رہبروں اور رہنماؤں کو''گھوڑے'' جیسے القابوں سے نوازا گیااور اِس کاروبار کو ''ہارس ٹریڈنگ'' کا نام دے دیا گیا۔یہ سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں جنرل پرویز مشرف کے دور تک چلتا رہا گرچہ اِسے روکنے کے لیے میاں نواز شریف کی حکومت نے قانون سازی اور آئینی ترمیمیں بھی کیں لیکن خود پرویز مشرف نے 2002ء الیکشن میں اپنی پسند کی حکومت بنانے کے لیے اِس قانون کی خوب دھجیاں بکھیریں اور الیکشن کے فوراً بعد آئین کے اِس ترمیم پر عملدرآمد اُس وقت تک روک دیاجب تک دوسری سیاسی پارٹیوں سے ٹوٹ کر آنے والے افراد مطلوبہ تعداد میں نہیں مل گئے۔
2008ء سے اِس ملک میں ایک بار پھر جمہوریت نے اپناسفر شروع کیا تو حسن اتفاق سے اُسی سیاسی پارٹی کو حکمرانی کرنے کا موقعہ ہاتھ آیا جو خودکو جمہوریت کا چیمپئن تصورکرتی ہے اور اُس کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں دینے کا دعویٰ بھی کرتی ہے۔ اِس بار اِس فرض ِمنصبی کی ادائیگی کی ذمے داری محترمہ کی بجائے اُن کے شوہر نامدارکے حصے میں آئی جو مفاہمت اور مصالحت کے شعبے میں اچھے خاصے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔
اُن کی یہ صلاحیت اور خصوصیت کسی سے ڈھکی چھپی بھی نہیں ہے اوراِس کام میں وہ اپنا کوئی ثانی بھی نہیں رکھتے۔ وہ لوگوں کے مزاج اور معیار کو اچھی طرح سمجھتے ہیںاور وہ یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ کون کتنا اعلیٰ ظرف اورباضمیر ہے اور کون کتناطوطا چشم اور مصلحت کوش ہے۔یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے اپنے پہلے دور اقتدار کے پانچ سال اِسی مشہور زمانہ مفاہمت اور دوستی کے سہارے مکمل کر لیے۔کبھی کبھار ایم کیو ایم ناراض ہوکر اگر آنکھیں دکھا دیا کرتی تھی تو بھی اُنہوں نے مسلم لیگ (ق) کی صورت میں نعم البدل تیارکیا ہوا تھا۔
پرویز الٰہی کے فرزند ارجمند مونس الٰہی کی کرپشن کے ایک الزام میں عدلیہ سے باعزت رہائی بھی اُن کی اِسی درویشانہ مفاہمت کا منہ بولتا ثبوت ہے اورجس کے لیے چودہدری برادران آج بھی آصف علی زرداری کے بڑے مشکورو ممنون ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ زرداری صاحب 2018ء کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کے بہت کم امکانات کے باوجود سارے ملک میں حکومت بنانے کا دعویٰ ابھی سے کررہے ہیں اور ایسا ہونا کوئی بعید ازقیاس بھی نہیں ہے۔ جب وہ بلوچستان اسمبلی میںاپنی پارٹی کا ایک ممبر بھی نہ ہونے کے باوجود مسلم لیگ (ن) کی اکثریت کو باآسانی اقلیت میں بدل سکتے ہیں تو پھر ایسا کیونکرنہیں کرسکتے۔ہمارے لیے یہ بات باعث حیرانی بھی نہیں ہے کہ وہ یہ سارے کام علی الاعلان کرتے جارہے ہیں اور کوئی اُنہیں روکنے والا بھی نہیں۔ جب ایان علی رہا ہوکر بیرون ملک جاسکتی ہے۔ ڈاکٹر عاصم حسین 480 ارب روپوں کی کرپشن کے سنگین الزامات کے باجود رہا ہوسکتے ہیںاور زرداری صاحب اِس ملک کے سب سے مقدس ادارے کے سربراہ کو اینٹ سے اینٹ بجادینے کی براہ راست دھمکیاں دے کر بھی کسی توہین کے مجرم قرار نہیں دیے جا سکتے ہیں تو پھرایسا کیونکر ممکن نہ ہو۔
لگتا ہے زرداری کی ذہانت اور قابلیت اُنہیں اِس بار بھی نہ صرف سینیٹ کے انتخابات میں ایسی کامیابی دلائے گی کہ سارے اعدادوشمار دھرے کے دھرے رہ جائیں گے بلکہ عام انتخابات کے نتیجے میں بھی اُن کے اپنے دعوؤں کے عین مطابق جوڑ توڑکر کے وہ ایک بار پھرمرکز میں بھی پیپلز پارٹی کی حکومت بنالیںگے۔ ہمیں یاد ہے جب سینیٹ کے گزشتہ الیکشن میں خیبر پختون خوا میں جس طرح ارکان اسمبلی کی ایک بڑی تعداد نے بلاکسی ڈر اور خوف کے دکھادکھا کے ووٹ کاسٹ کیے تھے اورکسی اتھارٹی میں اتنی جرأت و ہمت بھی نہ تھی کہ اُنہیں ایسا کرنے سے روک سکے لگتا ہے، اِس بار بھی ایسا ہی کچھ ہونے جا رہا ہے۔گھوڑوں کی منڈیاں سج چکی ہیں۔
روپوں کے تھیلے تیار ہوچکے ہیںاوردام لگ رہے ہیں۔ بابا رحمتے بھی خاموش ہے اور الیکشن کمیشن بھی صُّم بُکم ہے۔ اِس بار بات اربوں اور کھربوں تک جا پہنچی ہے۔عوام کی جیبوں سے چرایا ہوا پیسہ عوام ہی کے نمایندوں پر لگایا جارہا ہے شاید اِسی لے کسی کو اعتراض بھی نہیں ہے۔ جمہوریت اپنے پرستاروںاور جانثاروںکے ہاتھوں رسوا ہورہی ہے۔ سیاسی جوڑ توڑ کے ماہر اور مفاہت کے چیمپئن کرشمے اور معجزے دکھارہے ہیں۔ جس طرح آصف علی زرداری کا بذات خود اِس ملک کاصدر بن جانا ایک ناقابل یقین اور ناقابل فہم حقیقت تھا، اِسی طر ح پیپلز پارٹی کا سینیٹ میں اکثریت کا حاصل کرنا اور 2018ء کے انتخابات کے نتیجے میں برسراقتدار آجانا بھی کسی معجزے سے کم نہ ہوگا۔عوام حیران و پریشان ہیں کہ اِس کھیل کو کیا نام دیں۔
اِسے جمہوریت کا حسن کہیں یا جمہوریت پسندوں کی کارگزاری۔ اپنے ہی ہاتھوں سے جمہوریت کومسمار اورتاراج کرنے کا یہ عمل ہمارے یہاں کب تک چلتا رہے گا۔ایک شخص جس کے پاس ملک کے خزانوں سے لوٹا ہوا بے تحاشہ مال ہو اوروہ اِس مال کو ارکان اسمبلیوں پر لگا کر ایک بار پھر برسراقتدار آجائے تواِسے ہم کس طرح جمہوریت کاحسن قرار دے سکتے ہیں۔ یہ جمہوریت کا حسن نہیں بلکہ جمہوریت کے ماتھے پر یقینا ایک بد نما داغ ہے۔ لگتا ہے ہم غیر شعوری طور پر اصلاح احوال کے نام پر اُس سوچ اور فکر کی پرورش کررہے ہیں جو جمہوری نظام کی مکمل نفی اور بیخ کنی کرتی ہے۔
کچھ اداروں کی جانب سے شروع کیاجانے والا احتساب کا یہ سلسلہ بھی سیاست کی حیلہ گری کانیا انداز معلوم ہوتا ہے جس میں جمہوریت کے ذریعے ہی اپنی پسند کے منظروں کانقشہ جمانا اور نامطلوب چہروں کا راستہ روکنا مقصود ہے اور شومئی قسمت سے آصف زرداری ہمارے ملک کی اِن مقتدر قوتوں اور شاید غیر ملکی طاقتوں کے لیے بھی حالیہ صورتحال میں سب سے زیادہ قابل قبول آپشن بن چکے ہیں۔ اُن کی یہ بے باکی اوردیدہ دلیری اِسی بات کی غماز ہے اورگواہی بھی دے رہی ہے۔ ہم اپنے ملک کے بدلتے حالات کو ملکی و غیر ملکی واقعات سے کسی صورت علیحدہ کرکے نہیں دیکھ سکتے۔ سی پیک کا منصوبہ اور اُس کے نتیجے میں امریکا کے ناراضگی اور ڈونلڈ ٹرمپ کا دھمکی آمیز بیان اِس ساری صورتحال کوسمجھ لینے کے لیے کافی ہے۔ فیصلہ ساز قوتوں کے پاس ملک کے اندر سیاسی تبدیلی کے لیے امکانی طور پر اگر جمہوری آپشن کارگر نہ رہا توپھر 1999ء کی طرح ایک اورآپشن تو موجود ہی ہے۔