بہتریہی ہے

تین دنوں میں 60کے لگ بھگ نشستیں اور مذاکرے ہوئے، جن میں 220 کے قریب مندوبین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔


Muqtida Mansoor February 15, 2018
[email protected]

گزشتہ ہفتے کراچی کے علم دوست اور ادب نواز حلقوں نے تین دن ساحل سمندر پر واقع ہوٹل میں کتابوں کی خوشبو اور مذاکروں اور مباحثوں میں بکھرنے والے علم وآگہی کے موتیوں کو سمیٹتے گذارے۔ 2010ء میں ادب ، ثقافت اور فنون کے فروغ کے لیے شروع ہونے والے اس سلسلے نے اس سال اپنی عمر عزیز کے9 برس مکمل کر لیے۔ وقت گذرنے کے ساتھ اس کا دائرہ دیگر شہروں تک پھیلتا چلا گیا ۔ چند سو شرکا سے شروع ہونے والا فیسٹیول اب لاکھوں تک جا پہنچا ہے، جو شہریوں میں سماجی وثقافتی سرگرمیوں کے لیے لگن کا اظہار ہے۔

نو برس پہلے جب یہ سلسلہ شروع کیا گیا ، تو پورا ملک خود کش حملوں اور بم دھماکوں کی زد میں تھا ۔کراچی پر وحشت اور دہشت کے سائے تھے۔ ہر روز اخبارات اغوا ، قتل اور سفاکانہ ٹارگٹ کلنگ کے سانحات سے بھرے ہوتے تھے ۔ ٹیلی ویژن پر بریکنگ نیوز دل دہلانے کے لیے کافی ہوا کرتی تھیں ۔ ایسے ماحول میں جب لوگ سہمے ہوئے سرشام گھروں کو لوٹ جانے میں عافیت سمجھتے ہوں۔ انھیں یہ یقین ہی نہ ہو کہ زندہ و سلامت اپنے گھروں کو پہنچ سکیں گے۔

ایسے ماحول میں انھیں کتابوں اور مذاکروں کے نام پر اکٹھاکرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا، مگر آکسفورڈ یونیورسٹی کی سربراہ امینہ سید اور ڈاکٹر آصف فرخی کی علم دوستی، بصیرت اورہمت کو داد دینا چاہیے کہ انھوں نے اس پرآشوب ماحول میں علم وآگہی اور سماجی و ثقافتی سرگرمیوں کے ذریعے معاشرے کو تبدیل کرنے کا بیڑا اٹھایا ۔

یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ کتب میلے اور فیسٹیول میں فرق کوسمجھنا ضروری ہے۔کتب میلے میں مختلف پبلشرز اورکتب فروش کسی ایک چھت یاکسی میدان میں کتابوں کے اسٹال لگاکرکتابوں کی فروخت کا بندوبست کرتے ہیں۔ جہاں کم قیمت پر قارئین کومختلف موضوعات پرکتابیں دستیاب ہوجاتی ہیں، جب کہ فیسٹیول میں علم وفنون اورثقافتی رنگارنگی اورسماجی سرگرمیوں کے باعث تنوع پایا جاتا ہے۔

کسی معاشرے میں زندگی کی رمق اور آگے بڑھنے کی جستجو کا اندازہ اس معاشرے کی علمی، سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں میں دلچسپی سے لگایا جاسکتا ہے۔ وہ معاشرے جو علم و آگہی سے دور، فنون لطیفہ اور ثقافتی سرگرمیوں سے بیزار ہوتے ہیں، وہ وحشت ودہشت اور جنون پرستی کا شکارہوکرخود اپنے ہی ہاتھوں تباہی کی راہ پر گامزن ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جہاں کتابیں ذہنی وفکری وسعت کا ذریعہ بنتی ہیں، وہیں آرٹ اورکلچر فکری کثرتیت کے لیے قبولیت کی راہ سجھاتی ہے اور مذاکرے سننے اور سمجھنے کی عادت ڈالنے کے ساتھ سوال کرنے کی جستجو کو ابھارتے ہیں۔ یہی وہ طرزعمل ہے جو معاشروں کو آگے کی جانب لے جانے کا سبب بنتا ہے ۔

اس مرتبہ انگریزی اور اردو کے ساتھ ساتھ دھرتی کی قدیمی اور زرخیز زبان سندھی کے مشاعرے کو پروگراموں میں شامل کرکے ایک اچھی روایت کی بنیاد ڈالی گئی ہے۔ ہمیں اپنے خطے کی زبانوں کی ترقی اور ترویج پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب مقامی زبانوں میں پھیلاؤآئے گا، تو اس کے اثرات لازمی طور پر اردو پر بھی مرتب ہوں گے۔ جس سے اس کا دامن مزید وسیع ہونے کے امکان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ امید ہے کہ آیندہ برس مقامی زبانوں کے باہمی ربط (Interaction) پر بھی سیشن رکھا جائے گا۔ کیونکہ اس طرح ملک کے مختلف صوبوں اور قومیتوں کے درمیان سماجی اور ثقافتی رشتوں کے مزید مضبوط ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے۔

دوسرا اہم پہلو پڑوسی ملک بھارت سمیت دنیا کے کئی ممالک سے ڈھائی سو کے قریب مندوبین کی شرکت ہے، چونکہ بھارت کے ساتھ ہمارے سماجی اور ثقافتی رشتے کئی صدیوں پر محیط ہیں اور ہماری سوچ کے دھارے بھی تقریباً ایک ہی سمت میں بہتے ہیں، اس لیے بھارت سے اہل علم ودانش کی آمد ہمیشہ تقویت کا باعث ہوتی ہے۔

آرٹس کونسل میں ہونے والی دسویں عالمی اردو کانفرنس کے موقعے پر بھارت سے کئی ادیب و شاعر بروقت ویزا نہ ملنے کے باعث نہیں آسکے تھے۔ امینہ سید نے بتایا کہ پاکستان ہائی کمیشن نے اس مرتبہ مندوبین کو نہ صرف بروقت ویزے جاری کیے بلکہ ان کی خاطرومدارت بھی کی ۔ یہ طرز عمل دونوں ممالک کے درمیان سرد مہری توڑنے کا باعث بن سکتا ہے ۔ امید ہے کہ یہی رویہ پاکستان میں موجود بھارتی ہائی کمیشن بھی اختیار کرے گا، تاکہ عوام کے عوام سے تعلقات قائم ہونے میں حائل دشواریوں کا خاتمہ ہوسکے۔

سال گزشتہ کی طرح اس مرتبہ بھی افتتاحی اجلاس میں دو کلیدی مقالاجات پیش کیے گئے۔ پہلا مقالہ برطانوی تاریخ دان اور جنوبی ایشیائی امور کے استاد پروفیسر (ڈاکٹر) فرانسس رابنسن کا تھا ۔ ان کا موضوع مسلم دور بالخصوص مغلیہ دور حکومت میں برصغیر میں ادب ، ثقافت اور تاریخ کا ارتقا تھا ۔ ان کی گفتگو تین پہلوؤں پر مرتکز تھی۔

اول، مسلم دور میں ادبی و ثقافتی سرگرمیاں۔ان کے خیال میں مسلم دور بالخصوص مغل بادشاہوں نے ہندوستان کو صرف ایک بڑا ملک اور سونے کی چڑیا سمجھا اور اپنی ریاست کو پھیلانے پر توجہ دی ۔ جس کی وجہ سے ان ادوار میں ثقافتی رشتوں کو مستحکم بنانے کی کوئی عملی کوشش نہیں کی گئی ۔ یوں علمی، ثقافتی اور سماجی سرگرمیوں میں پھیلاؤ نہیں آ سکا۔

دوئم، برطانوی دور میں مسلمان اہل علم ودانش کو ماضی کی غلطیوں کا ادراک ہوا، لیکن ساتھ ہی ان میںقوم پرستی کا احساس بھی جاگا ۔ جس نے ان میں اپنے تشخص کی بازیابی کی تڑپ پیدا کی ۔ اپنے تشخص کی اسی تڑپ کے نتیجے میں پاکستان وجود میں آیا ۔سوئم، قیام پاکستان کے بعد اسٹبلشمنٹ، فیوڈل سیاستدانوں اور طبقہ اولیٰ کی سیاست پر مضبوط گرفت نے حقیقی ثقافتی اقدار اور خطے کی حقیقی تاریخ کی عوام تک رسائی میں رکاوٹیں ڈالیں ۔ جس کی وجہ پاکستانی سماج کی صحیح خطوط پر ٹرانسفارمیشن نہیں ہوسکی ۔ نتیجتا علمی، ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کو وہ پھیلاؤ نہیں مل سکا،جو انھیں ملنا چاہیے تھا۔

نور الہدیٰ شاہ نے اپنے کلیدی مقالے میں ملک کے اندر بڑھتی ہوئی مذہبی شدت پسندی اورعدم برداشت کا تذکرہ کیا ۔ان کا کہنا تھا کہ اس قسم کی سرگرمیاں معاشرے میں ہوا کا تازہ جھونکا ہوتی ہیں، جو ان انتہا پسندی کے ماحول کو خاصی حد تک کم کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس فیسٹیول نے دلیل کی بنیاد پر مکالمے اور سننے اور سنانے کے ماحول کو فروغ دیا ہے۔ چونکہ ہمارے معاشرے میں سوال کرنے کی حوصلہ شکنی کا کلچر ہے، اس لیے اس قسم کی سرگرمیاں معاشرے میں سوال کرنے اور مدلل جواب دینے کے کلچرکو فروغ دینے کا سبب بنتی ہیں۔

تین دنوں میں 60کے لگ بھگ نشستیں اور مذاکرے ہوئے، جن میں 220 کے قریب مندوبین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس دوران موسیقی کے پروگرام اور بقول جوش ملیح آبادی اعضا کی شاعری یعنی رقص کی محفل بھی سجی ۔ شیاما سید نے کتھک رقص پیش کرکے شرکا سے داد سمیٹی۔ مزاحیہ خاکے، موسیقی اور خطے کی روایتی صوفی موسیقی کی روایت قوالی بھی پیش کی گئی۔آخری سیشن میں انیس ہارون نے پاکستان کی نڈر اور جرات مند بیٹی عاصمہ جہانگیرکو منتظمین اور شرکا کی جانب سے خراج عقیدت پیش کیا۔ انور مقصود اور مانی شنکر آئر نے اپنے اختتامی کلیدی خطبات پیش کیے۔

معروف سفارتکار مانی شنکر آئر نے اپنے کلیدی خطبے میں پاک بھارت تعلقات پر تفصیل سے اظہار کیا ۔ان کا کہنا تھا کہ70برس قبل برصغیر دو حصوں میں تقسیم ہوا۔ 50برس پہلے پاکستان دو حصوں میں منقسم ہوگیا۔ یوں برٹش انڈیا تین حصوں میں تقسیم ہوگیا لیکن اسے ہندوستان کی تقسیم کہنے کے بجائے مسلمانوں کی تقسیم سمجھنا چاہیے۔ انھوں نے مزید کہا کہ میں بھارت میں حکمران اشرافیہ کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں کہ پاکستان یا مسلم دشمنی سے اس خطے کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا ۔ انھوں نے کہا کہ"I love Pakistan because I love India"۔ پروگرام کا اختتام سامی برادران کی قوالی کے ساتھ ہوا ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں