کیا گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

صبر و تحمل سے حالات کا جائزہ لیجیے سب کچھ وقت کے ساتھ ساتھ سامنے آجائے گا۔


نجمہ عالم February 16, 2018
[email protected]

ایم کیو ایم میں پھوٹ پڑ گئی، یوں تو مدتوں پہلے بھی ایک گروپ الگ ہوا تھا، مگر ایم کیو ایم کی مقبولیت اور فعالیت پر زیادہ اثرانداز نہ ہوسکا تھا ۔کچھ لوگ پی ایس پی کو بھی ایم کیو ایم ہی کا دھڑا قرار دیتے رہے ہیں مگر ایسا ہے نہیں بقول ہمارے ایک مقبول کالم نگار کے کراچی میں پیراشوٹ کے ذریعے کچھ جانے پہچانے چہروں اور ناموں کو اتارا گیا اور انھوں نے ایک نئی سیاسی پارٹی کے قیام کا اعلان کردیا۔

کچھ لوگ اس نئی پارٹی کو ایم کیو ایم کا دھڑا یوں سمجھ بیٹھے کہ یہ نام اور چہرے بھی ایم کیو ایم سے نجات دلانے کے لیے ایک علیحدہ پارٹی بنا رہے ہیں۔ پھر 22 اگست 2016 کو بانی متحدہ کی قابل اعتراض تقریر نے ایم کیو ایم کو لندن قیادت سے اپنی راہیں الگ کرکے مقامی سیاست کرنے پر مائل کر دیا۔

زیادہ تر لوگ بغلیں بجانے لگے کہ چلو ایم کیو ایم ختم ہوئی (حالانکہ ایم کیو ایم کے قیام سے ہی اس کو ختم کرنے کی کوششیں جاری تھیں) مگر لندن سے اظہار برات کے بعد ایم کیو ایم نئے عزم، حوصلے اور مثبت ارادوں کے ساتھ تمام مخالفانہ رویوں کا مقابلہ کرکے ازسرنو اپنے پیروں پر کھڑی ہوگئی۔

گزشتہ دنوں جانے ایسا کیا ہوا کہ وہ ایم کیو ایم جو مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی (دونوں کے ادوار میں) کے دور حکومت میں کئی آپریشن برداشت کرکے بھی اعلیٰ سطح کوششوں کے باوجود ختم نہ ہوسکی۔ بانی جماعت کی علیحدگی بھی اس کو ختم نہ کرسکی وہ محض سینیٹ کی ایک نشست کے اختلاف پر یوں بکھر گئی جیسے موتیوں کی لڑی ٹوٹ جائے۔ کیا ہوا؟ کس نے کیا؟ یہ سب دہرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ تمام ذرایع ابلاغ پر لمحہ لمحہ کی خبر قارئین تک پہنچ چکی ہے۔

کچھ لوگ اس ٹوٹ پھوٹ کا ملبہ ڈاکٹر فاروق ستار پر اور کچھ ارکان رابطہ کمیٹی پر ڈال رہے ہیں، مگر ایک بات جو اہم ہے وہ یہ کہ دونوں جانب سے مسلسل یہ کہا جا رہا ہے کہ ایم کیو ایم ایک تھی، ایک ہے اور ایک رہے گی۔ یہ بھائیوں کا آپس کا معاملہ ہے کچھ عرصے بعد تمام معاملات ٹھیک ہوجائیں گے۔

اب یہ ٹھیک ہوتے ہیں یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ البتہ وہ جو ہمیشہ سے ایم کیو ایم کو ختم ہوتا دیکھنا چاہتے تھے آج کل ان کی بانچھیں کانوں تک پہنچی ہوئی ہیں اور ہاتھ بغلیں بجانے میں مصروف، وہ خواب جو برسوں سے شرمندہ تعبیر نہیں ہو رہا تھا اور کوئی کوشش ایم کیو ایم کو ختم کرنے کی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو رہی تھی اس کو خود ایم کیو ایم کے ذمے داروں نے کامیاب کردیا یعنی ''اس گھرکوآگ لگ گئی گھر کے چراغ سے'' چلیے لوگوں کے کلیجے بھی ٹھنڈے ہوگئے کہ جو وہ چاہتے تھے وہ ازخود ہوگیا۔

سانپ بھی مر گیا لاٹھی بھی سلامت رہی۔ مگر وہ جو کہتے ہیں کہ سیاست میں کوئی بات حتمی نہیں لہٰذا کچھ دیر اور انتظار کیا جائے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ یہ سب تو وہ ہے جو سامنے کی بات ہے اندر کیا ہو رہا ہے کیا ہوگا کے لیے صحافتی اصول تو یہ ہونا چاہیے کہ بلا ٹھوس ثبوت خیال آرائی سے گریزکیا جانا چاہیے۔ مگر آج کل کی صحافت تو چلتی ہی چٹکلوں پر ہے۔ بڑا صحافی وہ ہے جو زیادہ سے زیادہ اپنے ذاتی خیالات کو (بلاکسی واضح ثبوت اور دلیل کے) لوگوں تک پہنچا سکے۔

بلکہ آج کا صحافی معاشرتی بگاڑ کوکم کرنے کے فرض سے مکمل طور پر غافل (سوائے کچھ ذمے دار صحافیوں کے) ہے اور نت نئے زاویوں سے معاشرے میں افراتفری، تعصب، نفرت پھیلانے کے علاوہ جو تقسیم در تقسیم قوم کو ایک قوم نہ بننے دینے کے لیے پہلے موجود ہے یعنی صوبائی، لسانی، طبقاتی، مسلکی وغیرہ اس میں مزید اضافے کی کوشش بھی اگر یہ حضرات کریں تو بھلا موجودہ ملکی و بین الاقوامی صورتحال میں اس رویے کو کسی بھی طرح مثبت قرار دیا جاسکتا ہے؟ مگرکیا کیا جائے کہ مثبت انداز فکر شاید ہمارے معاشرے کے ہر شعبے سے خارج ہوچکا ہے۔

ایم کیو ایم کی تقسیم سیاست میں کوئی نئی بات نہیں، ملک کی خالق جماعت ایک نہیں کم ازکم پانچ مختلف ناموں سے الگ الگ (مسلم لیگ حقیقی کے منشور سے بالکل مختلف) سیاست کر رہی ہے اور جو دو چار حمایتی جمع کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے وہ اپنی الگ سیاسی جماعت مسلم لیگ کے ساتھ سربراہ کا نام شامل کرکے بنا لیتا ہے۔

پیپلز پارٹی، شہید بھٹو گروپ، پارلیمنٹیرین اور خود پی پی پی کے نام سے کئی دھڑوں میں بٹ چکی ہے اور موجودہ پی پی پی بھی کم ازکم وہ تو نہیں ہے جو بھٹو نے تشکیل دی تھی یعنی یہ کہ سیاست میں ایسا ہوتا رہتا ہے پھر آخر ایم کیو ایم کے ذمے داروں کے اختلافات پر اتنا شور کیوں؟

بات ہو رہی تھی صحافتی ذمے داری کی اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے اس کو اسی طرح ذرایع ابلاغ پر آنا چاہیے، نمک مرچ مصالحہ لگا کر اگر ہم صورتحال کو بہتر کرسکتے ہیں تو ہم ملک و قوم کے خیر خواہ کہلانے کے مستحق ہیں لیکن صورتحال کو یوں پیش کرنا کہ مزید خرابی کا باعث بن جائے یا مسائل کھڑے ہوں تو کم ازکم میری (ذاتی) نظر میں یہ نہ قوم و ملک کی اور نہ سیاست کی کوئی خدمت کہلائی جائے گی۔ مثلاً یہ شوشہ چھوڑنا کہ مہاجروں کا لیڈر میمن کیسے بن گیا؟

کیا مہاجر صرف اردو بولنے والے ہی ہیں یا کاٹھیاواڑی، گجراتی، میمنی بولنے والے مہاجر نہیں ہیں یا مشرقی پنجاب سے لوگ ہجرت کرکے نہیں آئے۔ کیا بلوچوں، پختونوں، پنجابیوں، سندھیوں اور اردو بولنے والوں پر کبھی سندھی، پنجابی یا اور کسی زبان بولنے والے نے حکمرانی نہیں کی؟ یا یہ شگوفہ چھوڑنا کہ ''فاروق ستار کے خلاف بغاوت میں لندن کا بھی ہاتھ ہے'' حالات کو سنگین بنانے کی کوشش نہیں کہی جاسکتی؟ خدارا اپنی ذمے داری کا احساس کیجیے۔

صبر و تحمل سے حالات کا جائزہ لیجیے سب کچھ وقت کے ساتھ ساتھ سامنے آجائے گا۔ عام انتخابات زیادہ دور نہیں ہیں، اگر لوگوں کو سیاسی شعور ہے تو وہ اپنے معاملات کو اس سے قبل ہی درست کرلیں گے یا جو بھی فیصلہ کرنا ہوگا وہ واضح طور پر کرکے سب کے سامنے رکھ دیں گے۔ بات بنی رہے تو سب کے حق میں بہتر ہے بات کو دانستہ بگاڑنے کا فائدہ؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں