قابل قدر قتیل شفائی آخری قسط

پاکستان کی فلم انڈسٹری میں قتیل شفائی کا نام بکتا تھا۔


یونس ہمدم February 17, 2018
[email protected]

ایک بار پھر عظیم موسیقار خواجہ خورشید انور اور قابل قدر شاعر قتیل شفائی کا ساتھ دو فلموں میں ہوا تھا ایک فلم تھی ''حویلی'' اور دوسری فلم تھی ''چنگاری''۔ دونوں فلموں کی موسیقی اور گیت بے مثال تھے۔ حویلی میں نور جہاں کا گایا ہوا یہ گیت جس کے بول تھے۔

میرا بچھڑا بلم گھر آیا' میری پائل باجے چھنن چھنن چھنانن چھن

یہ گیت نیم کلاسیکل انداز میں کمپوز کیا گیا تھا اور اس گیت پر اداکارہ شمیم آرا نے بھی کلاسیکل انداز میں رقص پیش کیا تھا جو فلم کی ہائی لائٹ تھا۔نور جہاں کی آواز قتیل کے گیت اور شمیم آرا کے فن نے فلم ''چنگاری'' کے اس گیت میں بھی بڑا جادو جگایا تھا۔

میں توکرکر بنتی ہارگئی' پیا ہاتھ چھڑا کر چلے گئے

میں نے اکھیاں بچھائیں راہوں میں' وہ نظریں بچا کر چلے گئے

اس گیت کے دوران شمیم آرا کی اداکاری نے فلم بینوں کی یوں سمجھو جیسے جان نکال لی تھی۔ اب میں قتیل شفائی کے لکھے ہوئے اس گیت کی طرف آتا ہوں جس کی موسیقی اختر حسین نے مرتب کی تھی اور جسے گلوکارہ نسیم بیگم نے گایا تھا اور گیت کے بول تھے:

بیری اکھیاں نہ کہنا مورا مانیں

یہ گیت نیر سلطانہ، حبیب اور اداکار طالش پر فلمایا گیا تھا اور نیم کلاسیکل انداز کا یہ گیت بھی ان دنوں بڑا پاپولر ہوا تھا۔

میں نے اسی کالم میں ابتدا میں یہ بتایا تھا کہ پاکستان کی پہلی بلیک اینڈ وہائٹ فلم ''تیری یاد'' کے گیت قتیل شفائی کی کاوشوں کا نتیجہ تھے اور جب پاکستان کی فلم انڈسٹری میں رنگین فلموں کا آغاز ہوا تھا تو پاکستان کی پہلی رنگین فلم ''نائلہ'' کے گیت بھی قتیل شفائی کے کھاتے میں لکھے گئے تھے۔ فلم ''نائلہ'' میں ایک گیت صرف حمایت علی شاعر کا تھا باقی سارے گیت قتیل شفائی نے لکھے تھے۔ نائلہ کے موسیقار ماسٹر عنایت حسین تھے اور اس فلم کا ہر گیت ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر تھا۔ جیسے کہ مندرجہ ذیل یہ گیت:

٭مجھے آرزو تھی جس کی وہ پیام آگیا ہے۔

٭غم دل کو ان آنکھوں سے چھلک جانا بھی آتا ہے۔

ان خوبصورت گیتوں نے ایک طویل عرصے تک فلم بینوں کو اپنے سحر میں جکڑے رکھا تھا اور آج بھی اگر ان گیتوں کو سنا جائے تو یہ دلوں کو گرماتے ہیں تڑپاتے ہیں۔ قتیل شفائی کے گیتوں کی ایک بہار جو چمن زار میں پھیلی ہوئی ہے میں کس گیت کا تذکرہ کروں اور کس گیت کا تذکرہ نہ کروں، دل مانتا نہیں ہے ۔ پھر بھی ان کے کچھ گیتوں کا ایک گلدستہ بناکر میں قارئین کے احساسات کے گلدان میں سجا دیتا ہوں تاکہ وہ قتیل شفائی کی شاعری کی خوشبو سے اپنا ذہن مہکاتے رہیں۔

جھوم اے دل وہ میرا جان بہار آئے گا...(فلم دل میرا دھڑکن تیری)

اب تو آجا کہ تجھے یاد کیا ہے میں نے ...(فلم دل میرا دھڑکن تیری)

کیا ہے جو پیار تو پڑے گا نبھانا...(فلم دل میرا دھڑکن تیری)

روٹھ گئی کیوں مجھ سے تیرے آنچل کی مہکار...(فلم دل میرا دھڑکن تیری)

ہم سے بدل گیا وہ نگاہیں تو کیا ہوا...(فلم دلِ بے تاب)

جب بھی چاہیں اک نئی صورت بنا لیتے ہیں لوگ...(فلم سزا)

میرے جوڑے میں گیندے کا پھول...(فلم سزا)

کیا خبر تھی تری محفل سے نکلنا ہوگا...(فلم پاک دامن)

مجھے ایسے پیا کا پیار ملے...(فلم ہمراز)

چلے ٹھنڈی ہوا تھم تھم...(فلم نجمہ)

موہے آئی نہ جگ سے لاج...(فلم ناز)

رم جھم برسن لاگی پھوار ...(فلم آنسو بن گئے موتی)

کیوں ہم سے خفا ہوگئے اے جان تمنا...(فلم سلام محبت)

یہ محفل جو آج سجی ہے...(فلم محبت)

کلی کلی منڈلائے بھنورا ...(فلم چنگاری)

میں تو جلد ایسا جیون بھر...(فلم آگ)

تمہیں ستاروں نے بے اختیار دیکھا ہے...(فلم جان آرزو)اب میں قتیل شفائی کے ایک ایسے ادبی گیت کی طرف آتا ہوں جو فلم میں شامل ہونے سے پہلے کئی رسائل میں شایع ہوکر بہت مقبول ہوچکا تھا اور اس گیت کو 1960 میں کراچی ریڈیو کے ایک مشہورگلوکار ایم کلیم نے گایا تھا اور اسے ملک گیر شہرت ملی تھی، گیت کے بول تھے: سہیلی تیرا بانکپن لٹ گیا آئینہ توڑ دے۔

پھر جب فلمساز و ہدایت کار شباب کیرانوی نے اسی گیت کو اپنی فلم ''دامن اور چنگاری'' میں لیا تو میڈم نور جہاں کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ میڈم کی رسیلی اور پرسوز آواز نے اس گیت میں چار چاند لگا دیے تھے اور اس گیت کو اس دور کی ابھرتی ہوئی اداکارہ عالیہ پر عکس بند کیا گیا تھا ۔ اس گیت کو بھی اس دور میں بڑی شہرت حاصل ہوئی تھی اور اس گیت کی موسیقی ایم۔ اشرف نے دی تھی بلاشبہ قتیل شفائی پاکستان و ہندوستان میں شعر و ادب کی ایک گمبھیر شخصیت تھے فلمی گیتوں کے ذریعے فلموں میں ادب کے فروغ میں قتیل شفائی کی خدمات کبھی فراموش نہیں کی جاسکتیں اور ان کی ادبی غزلوں کا ہمیشہ سے ایک اعلیٰ معیار رہا ہے ان کے گیتوں کی تعداد پاکستان کے ہر نغمہ نگار سے زیادہ ہے اور انھوں نے تین سو کے قریب فلموں میں گیت لکھ کر ایک نمایاں اعزاز حاصل کیا ہے۔

ان کے کئی شعری مجموعے شایع ہوئے اور عوام کی توجہ کا مرکز بنتے رہے جن شعری مجموعوں کو بڑی شہرت ملی ان میں گھنگرو، جھومر، آموختہ، برشگال، رنگ خوشبو روشنی، انتخاب اور ان کے فلمی گیتوں کا مجموعہ ''گجران'' کے علاوہ حمد و نعت اور سلام پر مشتمل ایک مجموعہ ''نذرانہ'' کے نام سے بھی شایع ہوا تھا۔ قتیل شفائی کو اپنے ایک شعری مجموعہ ''مطربہ'' پر آدم جی ادبی ایوارڈ دیا گیا تھا اور 1994 میں پرائڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا تھا۔ ان کو کئی مرتبہ نگار پبلک فلم ایوارڈز، مصور ایوارڈز،اور نیشنل ایوارڈز سے بھی نوازا گیا ۔

جس طرح ہندوستان میں ساحر لدھیانوی کا نام فلموں کے لیے کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا، اسی طرح پاکستان کی فلم انڈسٹری میں قتیل شفائی کا نام بکتا تھا۔ یہ میری خوش نصیبی تھی کہ میں طالب علمی کے زمانے میں ان کا ایک ادنیٰ پرستار تھا پھر ایک وقت وہ آیا کہ میں لاہور کی فلم انڈسٹری میں ان کا ہم عصر بھی رہا اور رنگیلا پروڈکشن میں، میں نے ان کے ساتھ گیت بھی لکھے، جب رنگیلا نے اپنی پہلی فلم ''دیا اور طوفان'' کی بے مثال کامیابی کے بعد اپنا فلمساز ادارہ بنایا تھا اور جس وقت اس نے ایک ساتھ دو فلمیں شروع کی تھیں جن میں ایک کا نام تھا ''کبڑا عاشق'' اور دوسری فلم تھی ''صبح کا تارا'' تو ''کبڑا عاشق'' میں گیت قتیل شفائی صاحب نے لکھے تھے اور میں نے فلم ''صبح کا تارا'' کے لیے نغمات تحریر کیے تھے۔

اور ایک دلچسپ بات یہ بھی بتاتا چلوں کہ قتیل شفائی جب بھی ہندوستان جاتے تھے تو ان کے مشاعرے میں ایک برہمن لڑکی جس کا نام رشمی بادشا تھا تو وہ قتیل شفائی سے اکثر ملنے آتی تھی اسے بھی شاعری کا شوق تھا وہ قتیل شفائی کی دیوانی ہوگئی تھی بلکہ ہندوستان کے چند اخبارات نے تو یہ تک لکھا تھا کہ قتیل شفائی بھی اس برہمن لڑکی کے عشق میں گرفتار ہوگئے تھے وہ لڑکی اکثر و بیشتر قتیل شفائی سے ملنے ان کے ہوٹل میں آجاتی تھی اور وہ رشمی بادشا کو اپنی شاعری بھی سنایا کرتے تھے، پھر جب وہ بیمار ہوگئے تھے تو لاہور میں وہ ان سے فون پر بھی بات کیا کرتی تھی، وہ ایک آخری ملاقات کی غرض سے ہندوستان جانا چاہتے تھے مگر ان کی بیماری نے ان کو جانے نہیں دیا اور پھر ایک دن وہ بھی اس فانی دنیا سے کوچ کرگئے اور اس طرح 11 جولائی 2001 میں فلمی دنیا کا ایک عظیم اور قابل قدر شاعر اپنے لاکھوں چاہنے والوں کو داغ مفارقت دے گیا۔ اللہ ان کی مغفرت کرے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں