پاکستان میں نئے آڈیو کلچر کی بنیاد۔۔۔ ایف ایم ریڈیو

1864ء میں ایک اسکاٹش ریاضی دان اور ماہر طبیعات جیمس کلرک میکسویل کی تھیوری نے ریڈیو ٹیکنالوجی کے آغاز کی بنیاد رکھی۔


محمد عاطف شیخ February 18, 2018
1864ء میں ایک اسکاٹش ریاضی دان اور ماہر طبیعات جیمس کلرک میکسویل کی تھیوری نے ریڈیو ٹیکنالوجی کے آغاز کی بنیاد رکھی۔ فوٹو : فائل

LONDON: دنیا میں پیغام رسانی سے شروع ہونے والا ریڈیو کا سفر اس کے استعمال کی مختلف منازل طے کرتا ہوا آج معاشروں کی اہم ضرورت کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔

پروپیگنڈہ کی طاقت کے بھرپور مظاہر نے ابتدا ہی میں جہاں ریڈیو کی فوری ترقی پر حکومتوں کو متوجہ کیا وہیں نجی کارپوریشنز نے اس کے اثرات اور پہنچ کو کاروباری مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی طرف توجہ دی۔ جس کے لئے ریڈیو سے اطلاعات، معلومات اور تفریح کے عناصر کو جوڑا گیا تاکہ حکومتی ترجمانی کو غیر محسوس انداز میں پھیلایا جائے اور ساتھ ساتھ کمرشل مقاصد بھی حاصل کئے جا سکیں۔

اس دوطرفہ مفاداتی کو ششوں کا نتیجہ یہ نکلا کے دنیا میں ریڈیو اسٹیشنز کی تعداد بڑھتی گئی اور ریڈیو سیٹ کا سائز سکڑتا چلا گیا اور یہ زیادہ استعمال دوست بنتا گیا۔ ریڈیو کے شعبے کی اس روز افزوں ترقی کا حاصل یہ ہوا کہ ریڈیو سستا ترین ذریعہ ابلاغ اور عوامی توجہ حاصل کرنے کا ایک مقبول ذریعہ بن گیا۔

1864 ء میں ایک اسکاٹش ریاضی دان اور ماہر طبیعات James Clerk Maxwell کی تھیوری نے ریڈیو ٹیکنالوجی کے آغاز کی بنیاد رکھی جسے حقیقت کا روپ اطالوی سائنسدان Guglielmo Marconi کے 1895 ء سے 1899 ء کے دوران ریڈیو ٹیلی گرافی کے تجربات کے ذریعے وائرلس سگنلز کی ٹرانسمیشن کے کامیاب تجربات نے دیا ۔ جس کے بعد 24دسمبر1906 ء کی رات 9 بجے پہلی بار انسانی آواز اور موسیقی پر مبنی ریڈیو ٹرانسمیشن کی گئی۔

اس ٹرانسمیشن کا اعزاز Reginald A Fessenden کو حاصل ہے۔ جنہوں نے امریکن اسٹیٹMassachusetts سے کرسمس کے حوالے سے نشریات پیش کیں۔ اور یوں ریڈیو کے باقاعدہ ابلاغ عام کے لئے استعمال کا آغاز ہوا جس کے لئے شروع میںمیڈیم ویوز اور شارٹ ویوز فریکونسیز کا استعمال کیا گیا جو نشریاتی سگنلز کو زیادہ سے زیادہ فاصلے تک پہنچانے کی صلاحیت تو رکھتی ہیں لیکن موسم کے اتار چڑھاؤ سے متاثر ہوکر ان کے نشریاتی سگنلز کا معیار اکثرمتاثرہوجاتا ہے اور ان میں تسلسل نہیں رہتا۔ کچھ سائنسدانوں نے ایسی فریکونسیز پر کام شروع کیا جو ہر موسم میں تواتر کے ساتھ معیاری سگنلز فراہم کریں اورآواز بہترین کوالٹی کے ساتھ کسی بھی موسمی یا طبی رکاوٹ سے قطع نظر بہترین صورت میں سامعین تک پہنچے۔

یوں فریکونسی موڈولیشن جسے عرف عام میں ایف ایم کہا جاتا ہے ایجاد ہوئی جس کے موجد امریکن سائنسدان Edwin Howard Armstrong تھے جنہوں نے 1933ء میں اسے دریافت کیا اور ٹرانسمیٹر سے ریسیور تک ایک نئے ریڈیو سسٹم کی بنیاد رکھی۔ انسائیکلوپیڈیا آف بریطانیکا کے مطابق 1939 ء میں انھوں نے ایف ایم ریڈیو کی افادیت کو ثابت کرنے کے لئے تین لاکھ ڈالر کی لاگت سے پہلا ایف ایم ریڈیو اسٹیشن قائم کیا۔ یوں پہلے سے موجود میڈیم ویو ریڈیو اسٹیشنز کے ساتھ ساتھ ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز کا بھی آغاز ہوا۔ اور اب صورتحال یہ ہے کہ دنیا کا کوئی بھی ملک ایسا نہیں جہاں ایف ایم ریڈیو اسٹیشنزموجود نہ ہوں امریکا ہی کی مثال لے لیں۔ فیڈرل کمیونیکیشنز کمیشن کے مطابق 31 دسمبر2017 تک امریکا میں کام کرنے والے ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز کی مجموعی تعداد 10ہزار8 سو64 ہے جو تمام طرح کے ریڈیو اسٹیشنز کا 70 فیصد ہیں۔ ان ریڈیو اسٹیشنز میں 6 ہزار7 سو 44 کمرشل ایف ایمز اور 4 ہزارایک سو20 ایجوکیشنل ایف ایمزہیں۔

ریڈیو کی پہنچ کی وسعت، اس کے استعمال سے جڑی سہولتوں، اس کے مندرجات کے تنوع اور مقامی رنگ، انسانی تخیل کی ذاتی نقشہ کشی کی سہولت اور سب سے بڑھ کر اس کے کم خرچ ہونے کے باعث یہ آج بھی ایک موثر ذریعہ ابلاغ ہے۔ ریڈیو کو اب ایک سیکٹر کے طور پر کمیونٹی، قومی یا پبلک، کمرشل اور بین الاقوامی جیسے ذیلی شعبوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔کمیونٹی ریڈیو ایسے ریڈیو کو کہتے ہیں جو کہ کمیونٹی کے اندر ہی واقع ہو۔ جو کمیونٹی کی خدمت کرے اور جس کا انتظام و انصرام کمیونٹی ہی کے پاس ہو۔ ایسے ریڈیو اسٹیشنز مقامی اور سماجی شمولیت کے ذریعے کمیونٹی ڈیولپمنٹ کے لئے مضبوط عزم رکھتے ہیں۔

پبلک ریڈیو لوگوں کے مفادات کے لئے کام کرتے ہیں اور ریاست کی ملکیت ہوتے ہیں اور وہی انھیں مالی وسائل فراہم کرتی ہے۔ اس طرح کے ریڈیو قومی اور مقامی دونوں سطحوں پر کام کرتے ہیں۔ جس کی سب سے بہتر مثال بی بی سی کے ماڈل کے طور پر لی جا سکتی ہے۔کمرشل ریڈیو قومی اور مقامی سطحوں پر کام کرتے ہیں۔ اس طرح کا ریڈیو اسٹیشن عموماً منافع کے لئے چلایا جاتا ہے۔ اشتہارات کا حصول اور اکثر زیاہ تر مقبول موسیقی ان سے نشر کی جاتی ہے۔ ان کے مندرجات میں پبلک سروس براڈکاسٹنگ کا حصہ بہت ہی کم یا بالکل مفقود صورتحال کا حامل ہوتا ہے۔ بین الاقوامی ریڈیو سروسز عموماً کئی ایک غیر ملکی زبانوں میں پیش کی جاتی ہیں۔

آزادی کے بعد 48 سال تک پاکستان میں ریڈیو نشریات قومی/ پبلک اور بین الاقوامی سروسز کے طور پر ہی رہی۔ 23 مارچ 1995 ملک میں ریڈیو کی تاریخ کا ایک اہم ترین دن ہے۔ اس روز نجی شعبہ نے ریڈیو براڈکاسٹنگ میں قدم رکھا۔ اور ملک کے پہلے کمرشل ایف ایم ریڈیو اسٹیشن کا آغاز ہوا۔ ملک میں ایف ایم نشریات کا آغاز اگرچہ ریڈیو پاکستان نے اپریل1993 میں کراچی سے اور اس کے بعد مذکورہ سال ہی لاہور اور اسلام آباد سے موسیقی کے ایک چینل کی صورت میں کردیا تھا۔ لیکن سرکاری ریڈیو کے پہلے باقاعدہ ایف ایم اسٹیشن کا آغاز 24 ستمبر1995 کو لاڑکانہ سے ہوا۔ اور نجی کمرشل ایف ایم کی طرز پر نوجوانوں کے لئے سرکاری ریڈیو کے ایف ایم اسٹیشن کا باقاعدہ آغاز یکم اکتوبر1998 ء کو اسلام آباد، لاہوراور کراچی سے ہوا۔

پاکستان میںکمرشل ایف ایم کی نشریات نے اپنے متعارف ہونے کے ساتھ ہی مقبولیت حاصل کرلی اورملک میں ایک نئے آڈیو کلچر کی بنیاد رکھی۔ گھروں ، بازاروں، دفتروں اورگاڑیوں میں جابجا ایف ایم سننے کو ملنے لگا۔ سجاد بری پاکستان میں ایف ایم نشریات کے اولین DJs میں سے ہیں۔ وہ ملک میں ایف ایم کے آغاز میں اسے حاصل ہونے والی عوامی پذیرائی کوبیان کر تے ہوئے بتاتے ہیں کہ ''ایف ایم براڈکاسٹ پاکستان میں نشریات کی تاریخ میں تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی۔ لاہور جیسے بڑے شہرمیں شام اور رات کے اوقات پی ٹی وی کے Peak Drama Hours کے ہوتے ہوئے ایف ایم 101 کی آٹھوں ٹیلی فون لائنز سامعین کی فون کالز سے مصروف رہتیں۔ اُس وقت کے ایف ایم کے میزبانوں کو شوبزنس کے بڑے ستاروں جیسی مقبولیت ملی۔ ایف ایم براڈکاسٹ کی مقبولیت کی وجوہات میں میزبانوں کا غیر رسمی اور دوستانہ انداز، بہترین اور نئی موسیقی کا انتخاب، سگنلز کی اعلیٰ کوالٹی کے باعث بہترین آواز ، روڈ شوز اور سب سے بڑھ کر فون کالز کے ذریعے سامعین کی پروگراموں میں براہ راست شرکت نمایاں ہیں۔''

ابتداء میں ایف ایم ریڈیو سننے کی سہولت ملک کے صرف تین بڑے شہروں کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں دستیاب تھی جسے ملک بھر میں پھیلانے کی ضرورت تھی۔ اس ضرورت کو کافی حد تک پیمرا نے پورا کیا۔ مارچ2002 ء میں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی پیمرا کا قیام عمل میں آیا۔ ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز کی بڑھتی ہوئی مقبولیت نے اس کی مانگ میں اضافہ کیا اور پیمرا نے اپنے آغاز کے پہلے سال کے دوران 22 پرائیویٹ ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز کے لائسنس جاری کئے۔ اور یوں ملک بھر میں ایف ایم ریڈیو کی نشریات پھیلتی گئیں۔ اس وقت ملک میں 239 ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز موجود ہیں جبکہ میڈیم ویو اسٹیشنز کی تعداد 22 ہے یعنی اس وقت پاکستان کے 91.57 فیصد ریڈیو اسٹیشنز ایف ایم کے ہیں۔ جن میں 49 ایف ایم اسٹیشنز ریڈیو پاکستان کے نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔

جبکہ پرائیویٹ سیکٹر میں 142 کمرشل ایف ایم لائسنسز کا اجراء پیمرا کر چکا ہے۔ اور 45 لائسنسزمختلف اداروں کو جاری نان کمرشل ایف ایم کی کیٹگری میں جاری کئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ریڈیو چائنہ انٹرنیشنل کے 3 ایف ایم اسٹیشنز بھی ملک میں کام کر رہے ہیں۔ یوں وطنِ عزیز میں کام کرنے والے ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز کا 59 فیصد نجی شعبہ میں متحرک ہے۔ اور21 فیصد ریڈیو اسٹیشنز سرکاری حیثیت میں آن ائیر ہیں۔ جبکہ 19 فیصد ادارتی سرپرستی میں بطور نان کمرشل ایف ایمزکی صورت میںکام کر رہے ہیں۔ ملک میں موجود ایف ایم ریڈیو اسٹیشن کا سب سے زیادہ تناسب اس وقت صوبہ پنجاب میں موجود ہے جہاں پاکستان کے 44 فیصد ایف ایمز کی تنصیب ہو چکی ہے۔

اس کے بعد سندھ ہے جہاں یہ تناسب 25 فیصد ہے۔ تیسرے نمبر پر خیبر پختونخوا اور اسلام آباد ہیں جہاں ملکی ایف ایمز کا 10 فیصد فی کس موجود ہیں۔ 5 فیصد کے ساتھ بلوچستان چوتھے، 4 فیصد کے ساتھ آزاد جموں کشمیر پانچویں اور 2فیصد تناسب کے ساتھ گلگت بلتستان چھٹے نمبر پر ہے۔ اس وقت ملک کے تقریباً 94 چھوٹے بڑے شہروں میں ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز موجود ہیں۔ پنجاب کے 47 شہروں میں اس وقت ایف ایم موجود ہیں جبکہ سندھ کے 23 اور خیبر پختونخوا کے11 شہر ایف ایم ریڈیو اسٹیشن کے حامل ہیں۔

بلوچستان کے 6، آزاد جموں کشمیر کے 4 اور گلگت بلتستان کے2 شہر ایف ایم ریڈیو اسٹیشن رکھتے ہیں۔ اسلام آباد سب سے زیادہ ایف ایمز کی تعداد کے ساتھ سر فہرست ہے جہاں 23 ریڈیو اسٹیشنزسرکاری، نجی اور ادارتی حیثیت میں موجود ہیں۔ 21 کی تعداد کے ساتھ کراچی اور لاہور دوسرے نمبر پر ہیں۔ جبکہ فیصل آباد 10 ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز کی تعداد کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ نجی کمرشل ایف ایم کی سب سے زیادہ تعداد اس وقت کراچی میں موجود ہے جہاں10 ایسے اسٹیشنز کام کر رہے ہیں۔ اسلام آباد اور لاہور میں سات، سات کمرشل ایف ایم فعال ہیں جس کے باعث یہ دونوں شہردوسرے نمبر پر ہیں۔ تعلیمی اور تربیتی مقاصد کے لئے جاری نان کمرشل ایف ایم لائسنسز کی سب سے زیادہ تعداد اسلام آباد میں ہے جہاں ایسے 12 ریڈیو اسٹیشنز کے لائسنس موجود ہیں۔ جب کہ 9 کی تعداد کے ساتھ لاہور دوسرے اور 6 کے ساتھ کراچی تیسر ے نمبر پر ہے۔

ریڈیو پاکستان کے سب سے زیادہ ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز اس وقت کراچی اور لاہور میںمتحرک ہیں جن کی تعداد چار، چار ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں کمیونٹی ریڈیو اسٹیشن کی موجودہ دستیاب صورت صرف جامعات میں موجود نان کمرشل ایف ایم کے طور پر ملتی ہے۔جس کا آغاز 17 جنوری2004 ء کو پشاور یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کے تحت قائم ہونے والے کیمپس ریڈیو سے ہوا۔ اور اس وقت ملک کی 26 جامعات اور کالجز میں ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز کام کر رہے ہیں۔جو ملک کی ریڈیو صنعت کو تربیت یافتہ افرادی قوت مہیا کرنے میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔



روایتی طور پر یہ استدلال پیش کیا جاتا ہے کہ ایف ایم انقلاب میں ٹیکنالوجی نے بنیادی کردار ادا کیا ہے اور ایف ایم ریڈیو اسٹیشن کے قیام کے اخراجات کو کافی کم کر دیا ہے۔ اب ایک متحرک اور فعال ایف ایم ریڈیو اسٹیشن15 ہزار ڈالر تک کے بجٹ کے ساتھ بنایا جا سکتا ہے۔ جو کہ50 کلو میٹر کے علاقہ میں سنائی دے سکتا ہے۔ یہ اخراجات 1980 کے عشرے کے مقابلے میں پانچ گنا کم ہیں۔ اب کم طاقت یعنی چند والٹ کا ٹرانسمیٹر جو کہ ایک گاؤں کو اپنے دائرہ کار میں لے سکتا ہے صرف 800 ڈالر سے بھی کم مالیت میں بنایا جا سکتا ہے۔ ٹرانسمیٹر اور ٹرانسمیشن کی کم قیمت، ایک مخصوص جغرافیائی علاقہ تک پہنچ اور کم قیمت ٹرانسسٹر اور ریڈیو سننے کے دیگر ذرائع نے ایف ایم ریڈیو کو تو غریب آدمی کی پہنچ میں کر دیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسے ایسے انفرادیوں اور گروہوں کی دسترس میں بھی کردیا ہے جو اس کا غیر قانونی استعمال اشتعال انگیزی اور نفرت کے پھیلاؤ (Hate Speech)کے لئے کرتے ہیں۔ پیمرا نے دیگر حکومتی اداروں کے تعاون سے اب تک ملک بھر میں 180 سے زائد ایسے غیر قانونی ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز کو بند کیا ہے۔

سستی اور جدید آئی سی ٹی ٹیکنالوجی کے انضمام نے ریڈیو کو مزید طاقتور اور دوطرفہ ذریعہ ابلاغ بنا دیا ہے۔ اس فہرست میں موبائل فون سرفہرست ہے۔ کیونکہ موبائل فون ریڈیو فریکونسی پر کام کرتا ہے ۔ اور ایک روایتی ریڈیو سیٹ کی طرح موبائل فون بھی بیٹری سے چلتا ہے اور ہر جگہ لے جایا جا سکتا ہے۔ اس لئے موجودہ صدی کے آغاز سے موبائل فونز کی عام پاکستانی کی پہنچ میں آنے اور خاص کر موبائل فونز پر ایف ایم ریڈیو سننے کی اضافی سہولت نے ملک میں ایف ایم ریڈیو سننے کو ایک نئی جہت دی۔ پیمرا کی رپورٹ کے مطابق '' ملک میں ٹیلی کمیونیکشن اور براڈکاسٹنگ سہولیات کے درمیان ٹیکنالوجی کے انضمام کا نظریہ مضبوطی سے اپنی جڑیں پکڑ رہا ہے''۔

انٹرنیشنل ٹیلی کمیونیکشن یونین کی رپورٹ '' ڈبلیو ایس آئی ایس ٹارگٹس ریویو اچیومنٹس چیلنجز اینڈ دی وے فارورڈ '' کے مطابق'' عالمی سطح پر گھروں میں ریڈیو سیٹس کی موجودگی میں کمی واقع ہو رہی ہے اور اس کی بنیادی وجہ نئے ابلاغی ذرائع کا پھیلاؤ ہے''۔ اور ان نئے ابلاغی ذرائع میں موبائل فون سر فہرست ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے جس کی تائید پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 2012-13 کے یہ اعداد وشمار بھی کر رہے ہیں۔ سروے کے مطابق اُس وقت ملک کے87 فیصد گھرانوں کے پاس موبائل سیٹس موجود تھے۔ دیہات میں موبائل فون کے حامل گھرانوں کا تناسب83 فیصد اور شہروں میں 95 فیصد تھا۔ جبکہ جون 2016 ء میں گیلپ پاکستان کے گیلانی ریسرچ فاؤنڈیشن کے لئے کئے جانے والے سروے کے مطابق 67 فیصد پاکستانیوں نے ذاتی ملکیت میں موبائل فون ہونے کا اقرار کیا۔

اسی طرح ریڈیو سیٹس کی موجودگی کے بارے میں گیلپ پاکستان کے پاکستان آئی سی ٹی انڈیکیٹر سروے 2014 ء کے اعدادوشمار یہ بتاتے ہیںکہ اُس وقت پاکستان کے صرف27 فیصد گھرانوں کے پاس ریڈیو سیٹ تھے۔ اس حوالے سے اگر صوبائی سطح پر صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو جو تصویر ابھرتی ہے اُس کے مطابق پورے ملک میں پنجاب کے گھروں میں سب سے کم ریڈیو سیٹ موجود تھے اور صوبے کے صرف16 فیصد گھرانوں میں یہ سہولت موجود تھی۔ جبکہ سب سے زیادہ ریڈیو سیٹ کے حامل گھرانوں کا تعلق خیبر پختونخوا سے تھا جہاں 47 فیصد گھرانوں کے پاس ریڈیو سیٹس تھے۔ سندھ کے 28 فیصد اور بلوچستان کے 37 فیصد گھر ریڈیو کی ملکیت رکھتے تھے۔ جبکہ ملک کے29 فیصد دیہی اور 23 فیصد شہری گھرانے ریڈیو سیٹ کے حامل تھے۔اس سے قبل 2006-07 ء کے پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے کے مطابق اُس وقت ملک کے31.7 فیصد گھروںمیں ریڈیو سیٹ موجود تھے۔

نومبر 2016 ء میں پیمرا کی جانب سے فیز 9 کے تحت مزید 67 نئے ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز کے لائسنسز کے اجراء کے لئے بولیوں کا انعقاد مستقبل کے اُس منظر نامہ کی ایک جھلک ہے جس میں ملک کے ہر ضلع میں کم از کم ایک ریڈیو اسٹیشن کی موجودگی کو یقینی بنانا ہے۔ یہ تمام عمل اُس وقت ہی با ثمر ہو سکے گا جب حکومتی ترجیحات میں ریڈیو کو اُتنی ہی اہمیت حاصل ہو جتنی دیگر ابلاغی ذرائع کو حاصل ہے۔ 1995 میں فقط چار ایف ایم ریڈیو اسٹیشنوں سے ملک میںایف ایم نشریات کے جس پودے کا بیج بویا گیا تھا وہ آج 239 سرکاری اور پرائیویٹ ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز کی صورت میں ایک تناور درخت بن چکا ہے۔

اور یہ اُس ترقی کی ایک مثال ہے جو وطن ِ عزیز نے آزادی کے بعد مختلف شعبوں میں حاصل کی۔ آج پاکستان کے گوشے گوشے میں ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز کی نشریات سننے کو مل رہی ہے۔ یہ معاشیات کے اس اصول کی بھر پور تائید ہے کہ جب طلب بڑھتی ہے تو پھر رسد میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ ملک میں ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز کی بڑھتی ہوئی تعداد اُس طلب کی واضح عکاسی کر رہی ہے جو سامعین کی صورت میں ملک کے قریہ قریہ کونے کونے میں موجود ہے۔ اور یہی مانگ ملک میں ایف ایم ریڈیو کے بھر پور مستقبل کی عکاس بھی ہے۔

پاکستان میں ایف ایم ریڈیو کی سماعت، اثر پذیری اور مقبولیت کے تناظر میں ملک کی چنیدہ شخصیات کا ایک سروے کیا گیا جس میں درج ذیل سوالات کے جو جوابات حاصل ہوئے وہ قارئین کی دلچسپی کیلئے پیش کئے جا رہے ہیں۔

ڈاکٹر زاہد یوسف
( چیئرمین سینٹر فار میڈیا اینڈ کمیونیکیشن اسٹڈیز ، جامعہ گجرات)

1 ۔ آزادی کے بعد پہلے دو عشروں تک ملک میں الیکٹرانک میڈیا کے طور پر صرف ریڈیو ہی موجود تھا اس لئے اس کی حکمرانی تھی۔ جس میں 1964 سے ٹی وی بھی حصہ دار بن گیا اور بیسویں صدی کے اختتام تک یہ حصہ داری بہت واضح طور پر ٹی وی کی طرف جھک گئی اور ریڈیو کے بارے میں یہ تاثر ابھرنے لگا کہ ملک میںریڈیو اب صرف دیہات میں ہی سنا جاتا ہے۔ اس تاثر کو ایف ایم ریڈیوکے آغاز نے کافی حد تک زائل کردیا۔ اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ شہروں میں ریڈیو لسننگ کا احیاء ہوا۔

کیونکہ ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز اپنے آغاز اور اُس کے بعد بھی زیادہ تر ملک کے شہری مراکز میں کام کر رہے ہیں۔ چونکہ ان کا دائرہ سماعت زیادہ سے زیادہ 50 کلومیٹر تک ہے اس لئے اس کے سامعین شہروں اور اس کے مضافاتی علاقوں کے مکینوں تک ہی محدود ہیں۔ اگرچہ انٹرنیٹ پر Live Streaming اور Podcast کی سہولت نے مقامی سامعین کی اصطلاح کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ ضرور ہے کہ ہمارے دیہی علاقوں تک ایف ایم کی پہنچ نا تو ٹرانسمیٹر کے ذریعے ہے اور نہ ہی انٹرنیٹ ہر دیہات میں موجود ہے اور نہ ہی لوگوں کی پہنچ میں۔

2 ۔ ملک میں ایف ایم ریڈیو کی مقبولیت کی بہت سی وجوہات ہیں جس میں وہ فرق سرفہرست ہے جو اے ایم اور ایف ایم نشریات کے مابین ہے یعنی مندرجات کا تنوع، سگنلز کی بہترکوالٹی،سامعین کی پروگراموں میں براہ راست شرکت اور موبائل فون پر ایف ایم سننے کی اضافی سہولت جہاں ایف ایم ریڈیو کی انفرادیت کا باعث ہے وہیں ملک کے کئی ایک زمینی حقائق نے ہمارے یہاں ایف ایم ریڈیو کو ایک مقبول ذریعہ ابلاغ بنایا۔ مثلاً ملک میں طویل لوڈشیڈنگ کا شکار آبادی سے تسلسل کے ساتھ ابلاغ کرنا صرف ایف ایم ریڈیو کے ذریعے ہی ممکن ہوا ہے۔ جبکہ ملک کے 40 فیصد ناخواندہ افراد سے ابلاغ کا اہم ذر یعہ تو ریڈیو ہی ہے۔کم خرچ ہونے کی وجہ سے خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے کروڑ وں پاکستانیوں سے تعلق ایف ایم ریڈیو ہی جوڑ سکتا ہے۔ اسی طرح شہری علاقوں میں زندگی کی تیزی نے ایف ایم ریڈیو کی ضرورت کو تو دوچند کردیا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملک میں رونما ہونے والے حادثات اور قدرتی آفات میں ریڈیو خصوصاً ایف ایم کا کردار تو آفاقی اہمیت کا حامل ہے۔

3 ۔ اس حوالے سے شروع کی ایف ایم براڈکاسٹ اور آج کی براڈ کاسٹ میں کافی فرق آیا ہے۔ ابتداء میں جب کمرشل ایف ایم ریڈیواسٹیشنز نے کام شروع کیا تو اُس وقت اُن کے مندرجات میں ہر طرح سے بیلنس رکھنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ لیکن جیسے جیسے ایف ایم ریڈیو ز کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا ویسے ویسے یہ توازن بھی تبدیل ہوتا چلا گیا۔آج آپ کو کئی ایک ایسے ایف ایم چینلز ملیں گے جو Round the clock صرف میوزک ہی چلاتے ہیں۔ کچھ ایسے ایف ایم بھی ہیں جہاں صرف میوزک اور پریزنٹر پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے۔ اور ماہرین کو اپنے پروگراموں کا حصہ نہیں بنایا جاتا اور کچھ ایسے ہیں جو ایکسپرٹس کو بھی پروگراموں میں شامل کرتے ہیں۔ اگر ایک عمومی رائے قائم کی جائے تو یہ آسانی سے کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے ملک میں ایف ایم کا استعمال زیادہ تر صرف تفریحی مقاصد کے لئے کیا جا رہا ہے۔

4 ۔ دیکھیں زبان چاہے کوئی بھی ہو مقامی ہو یا اردو ۔ ایف ایم براڈکاسٹ میں اس وقت انگلش کے الفاظ کے بھر پور استعمال کی زد میں ہے۔ ہر زبان کا ایک خاص مزاج ہوتا ہے۔ ایک خاص کلچر ہوتا ہے لیکن افسوس ایف ایم پر اس کا خیال نہیں رکھا جاتا ۔ مقامی زبانوں میں تو تلفظ کے حوالے سے صورتحال بہتر ہے لیکن اردو کے پروگراموں کے کافی میزبانوں کی گفتگو بے شمار تلفظ کی غلطیوں کے ساتھ ساتھ الفاظ کے بہتر چناؤ سے بھی عاری ہوتی ہے۔ یہاں یہ بات تشویشناک ہے کہ غلطیوں کی اصلاح کرنے کے بجائے یہ کہا جاتا ہے کہ سامعین اس طرح کی گفتگو سننا چاہتے ہیں۔ یعنی بگاڑ کی اصلاح کے بجائے اصل کو ہی بگاڑ لیا جائے۔ تو پھر زبان کو کس طرح اُس کی اصل حالت میں زندہ رکھا جا سکے گا ؟

5 ۔ میں نے پہلے کہا کہ مندرجات ریڈیو اسٹیشن کی پالیسی پر منحصر ہوتے ہیں۔ رہی بات اس سے مطمئین ہونے کی تو جتنی محنت پہلے پروگراموں کی تیاری اور پیشکش میں کی جاتی تھی شاید اب اُتنی نہیں کی جاتی۔ جب محنت نہیں ہوگی تو مندجات کمزور رہیں گے اور کمزور مندرجات کوئی بہتر کردار مکمل طور پر ادا نہیں کر سکتے۔ لہذا یہ ضروری ہے کہ ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز کی انتظامیہ اپنے عملے کے لئے تربیتی مواقعوں کا با قاعدگی سے اہتمام کریں۔

6 ۔ ہم اس کو محدود کرنا نہیںکہہ سکتے بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسے ریگولیٹ کیا ہے۔ ہاں یہاں یہ ضرور کہوں گا کہ پیمرا چینلز کو تفریح، معلومات اور اطلاعات کے حوالے سے مندرجات کے تناسب کو بیلنس کرنے کے لئے ضرورگائیڈ لائن فراہم کرے۔ تاکہ سوسائٹی کی تمام ابلاغی ضروریات پوری ہوں۔ اس کے علاوہ پیمرا نان کمرشل ایف ایم جو یونیورسٹیوں میں کام کر رہے ہیں ان کے لائسنسز کی تجدیدی مدت اور فیس میں مزید رعایت بھی فراہم کرے۔

7 ۔ مکمل طور پر نہیں کر رہا چونکہ ریڈیو پروڈکشن ایک ٹیکنیکل سبجیکٹ ہے جس کی Expertise اس وقت ریڈیو پاکستان کے پا س ہیں۔ جامعات میں بد قسمتی سے جو اساتذہ ریڈیو پروڈکشن پڑھا رہے ہیں۔ اُن کو ریڈیو پروڈکشن کے حوالے سے تربیتی مواقع دستیاب نہیں ہو پاتے ۔ اس لئے طالب علموں کی تربیت میں تشنگی رہ جاتی ہے۔ اسی طرح نصاب بھی اپ ڈیٹ نہیں ہو پاتا۔ اس لئے ضروری ہے کہ ریڈیو پاکستان اور یونیورسٹیوں کے درمیان MOU بنائے جائیں۔ خصوصاً ریڈیو پاکستان کی اکیڈمی میں جامعات کے ریڈیو پروڈکشن سے وابستہ اساتذہ کے لئے بھی تربیتی سیشنز کا باقاعدگی سے اہتمام کیا جائے۔

8 ۔ یہ کمرشل ازم کا المیہ ہے کہ اکثر کاروباری ادارے سماجی ذمہ داری کو پورا نہیں کرتے اور ایسی ہی صورتحال کمر شل ایف ایمز کے ساتھ بھی ہے۔

9 ۔ میں نے پہلے ہی کہا ہے کہ ہمارے ہاں ریڈیو لسننگ کے رجحانات کو جانچنے کی باقاعدہ کوئی سائنٹفک کوشش کی ہی نہیں جاتی۔ اس لئے اس سوال کے جواب کے لئے ہم ایک اور پیمانے کا سہارا لیں گے۔ دیکھیں ملک میں ایف ایم کی لسننگ موجود ہے تو ہی اس وقت 200 سے زائد ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز کام کر رہے ہیں اور ان کی تعداد میں اضافہ کا عمل بھی جاری ہے۔ اگر ایف ایم مقبول نہیں رہا تو پھر ریڈیو پر اشتہارات جن کی مالیت دو ارب کے لگ بھگ ہے کیوں دیئے جاتے ہیں؟ اگر ایف ایم مقبول نہیں تو پرائیویٹ سیکٹر نے ایف ایم انڈسٹری میں 1000 ملین روپے کی انوسمنٹ کیوں کر رکھی ہے؟

سجاد بری
( پاکستان میں ایف ایم نشریات کے اولین DJs میں سے ایک)

1 ۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ پاکستان میں ریڈیو لسننگ کا احیاء ایف ایم براڈکاسٹ کی وجہ سے ہوا ہے ۔ 90 کی دہائی میں جب ایف ایم براڈکاسٹ کا آغاز پاکستان میں ہوا۔ تو یہ ملک میں ریڈیو کی دنیا میں پروگرامز کی پیش کش کے اعتبار سے، اندازِ میزبانی کی وجہ سے اور بہترین میوزک کی بدولت ایک نئی چیز تھی۔

2 ۔ میرے خیال میں ایف ایم ریڈیو کی مقبولیت کی کئی وجوہات ہیں۔ اس سے پہلے مائیکروفون پر جو میزبانی کا انداز تھا ایف ایم میزبانوں نے اس سے ہٹ کر گفتگو کا انداز اپنایا جو کہ غیر رسمی تھا۔ اس کے علاوہ میوزک سلیکشن ذرا مختلف تھی۔ پرانے ریڈیو کی نسبت اس کا سگنل زیادہ طاقتور اور صاف تھا۔ میزبانوں کے جو موضوعات تھے وہ زیادہ بھاری اور ثقیل نہیں تھے۔ سامعین کی پروگراموں میں براہ راست شرکت تھی۔ اس کے علاوہ آف ائیر ٹیلی فون کالز کے ذریعے کی جانے والی فرمائش کو اُسی وقت پروگرامز میں پورا کردیا جاتا۔

3 ۔ دیکھیں تفریح تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مہیا کر رہے ہیں۔ لیکن تعلیم اور معلومات بھی فراہم کی جا رہی ہیں، مگر یہ اسٹیشن ٹو اسٹیشن Vary کرتا ہے۔ کہیں تفریح پر بہت زیادہ فوکس کیا جا رہا ہے۔ کچھ ایف ایمز پر خاص طرح کے پروگرامز بھی ہوتے ہیں۔ ٹاک شوز ہوتے ہیں۔ انٹرویوز بھی ہوتے ہیں۔ ریڈیو کلینک بھی ہوتا ہے۔ سوالات جوابات بھی ہوتے ہیں۔ اگر ہم مجموعی طور پر دیکھیں تو پاکستان میں ایف ایم ریڈیو پرانٹرٹینمنٹ سب سے اوپر ہے۔

4 ۔ یہ سوال بہت Alarming ہے پرانے ریڈیو یعنی ریڈیو پاکستان پر اردو کے تلفظ الفاظ کی صحت کا جتنا خیال رکھا جاتا تھا ایف ایم ریڈیو پر اتنا نہیں رکھا گیا ۔ اور ایک نئی زبان ایف ایم نے دی جسے عام الفاظ میں مینگلش کہا گیا ۔ شروع میں تو مقامی زبانوں میں براڈکاسٹ بہت کم تھی۔ لیکن بعد میں پیمرا نے مختلف شہروں کے لئے لائسنسز کا اجراء کیا تو مقامی زبانوں میں بھی ایف ایم ریڈیو پروگرامز کر رہے ہیں۔ پنجابی، سندھی، پشتو ، بلوچی اور سرائیکی کے علاوہ دیگر مقامی زبانوں میں پروگرام اچھے ہو رہے ہیں۔ لیکن اردو کے پروگرامز میں میزبانوں کے تلفظ کی بے شمار غلطیاں ہوتی ہیں اور انگلش کے الفاظ کا بھی کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے۔

5 ۔ میرے خیال میں ابھی بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایف ایم کے لائسنسز دیتے وقت پرائیویٹ سیکٹر میں پروفیشنل ازم کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔ مجھے نہیں لگتا کہ اس کے مندرجات اور کردار پر بہت زیادہ کام کیا گیا ہو۔ ایف ایم ریڈیو کی جو پلاننگ ہے یا ایف ایم ریڈیو کی جو ضروریات ہیں، اس کا جو سکوپ ہے اس حوالے سے پرائیویٹ سیکٹر میں پریز نٹر اور پروڈیوسر کی استعدادکار میں اضافہ کے لئے تربیتی مواقعوں پر شاید ہی کوئی کام کیا گیا ہو۔ ہاں ریڈیو پاکستان سے جو ایف ایم شروع ہوا گو کہ یہ اُن کے لئے بھی ایک نیا اسٹائل آف براڈکاسٹ تھا۔ لیکن چونکہ اُن کی پلاننگ، مائیکروفون اور میزبانی کے حوالے سے تربیت تھی۔ اس لئے وہاں مندرجات اور کردار کچھ بہتر نظر آیا۔

6 ۔ پیمرا نے خبروں اور حالاتِ حاضرہ کے حوالے سے ایف ایم چینلز کا کردار محدود ہی نہیں بلکہ بالکل ہی ختم کردیا ہے اور پولیٹکل اوئیرنس کے لئے مقامی ایف ایم چینلز کو خبروں کے حوالے سے بالکل ہی باہر نکال پھینکا ہے۔ کیونکہ مقامی طور پر کسی بھی ایف ایم چینل کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ نیوز اکٹھی کر سکیں۔ اپنا نیوز بلٹن شروع کرسکیں۔ جبکہ دوسری جانب ہمارے قومی سطح کے ٹی وی چینلز پر حالاتِ حاضرہ کے پروگراموں نے انٹرٹینمنٹ کی انڈسٹری کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔اگر پیمرا ایف ایم چینلز کو خبروں اور حالاتِ حاضرہ کے حوالے سے تھوڑی سی اجازت دیتا تو لوگوں کو پھر یہ کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ آج کل کے زمانہ میں ریڈیو کون سنتا ہے۔

7 ۔ بالکل بھی نہیں۔ ہماری یونیورسٹیوںمیں پڑھائے جانے والے ریڈیو کے نصاب کو نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ اسے زیادہ سے زیادہ پریکٹیکل کرنے کی ضرورت ہے۔

8 ۔ کسی حد تک تو پورا کر رہا ہے۔ لیکن مکمل طور پر نہیں۔ اس میں بھی اسٹیشن ٹو اسٹیشن Vary کرتا ہے۔ بڑے شہروں کے ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز کا رویہ کچھ اور ہے اور ہمارے چھوٹے شہروں میں جو ایف ایم ہیں ان کا رویہ کچھ اور ہے۔ اس پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔

9 ۔ بالکل نہیں۔ ایف ایم ریڈیو نے آغاز میں جو لسننگ حاصل کی تھی اب وہ صورتحال نہیں ہے۔ ظاہر ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ بڑھتی ہوئی تیز رفتار زندگی کے ساتھ ساتھ اس میں جو اختراعات ہونی چاہئے تھیں وہ نہیں ہوئیں۔ اور جو میں نے پہلے بات کی تھی کہ پروفیشنلز پرائیویٹ ایف ایم میں آنے چاہیئے تھے وہ بد قسمتی سے نہیں آئے۔

سردارعلی
(سابق کنٹرولر ایف ایم 101 ، ریڈیو پاکستان)

1 ۔ جی ہاں یہ درست ہے کہ 60 کی دہائی میں جب ٹیلی ویژن کی نشریات شروع ہوئیں ۔ تب سے ریڈیو کی وہ مقبولیت جو اس سے پہلے تھی اُس میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی۔ ایک اندازے کے مطابق 50 سے60 فیصد سامعین اس نئے ذریعہ ابلاغ کی طرف متوجہ ہوئے۔ ریڈیو سامعین میں کمی کا سلسلہ 90کی دہائی تک جاری رہا اور یہ ڈر تھا کہ مقبولیت مزید گرتی چلی جائے گی۔ لہذا اکتوبر1998 ء میں ریڈیو پاکستان کے اربابِ اختیار نے ایف ایم نشریات کا اسلام آباد، لاہور اور کراچی سے آغاز کیا۔ اس سے قبل پرائیویٹ سیکٹر میں ایف ایم 100 آچکا تھا۔ بہرحال اس سے ریڈیو کی گرتی ہوئی مقبولیت کو کچھ سہارا ملا اور بلاشبہ سامعین کی بڑی تعداد ایک مرتبہ پھر ریڈیو کی طرف متوجہ ہوئی۔

2 ۔ ایف ایم ریڈیو کی سامعین میں پذیرائی کی سب سے اہم وجہ صاف ستھری اور واضح آواز میں نشریات کا موصول ہونا ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ اور موثر وجہ پروگراموں کی منصوبہ بندی میں تنوع کا عنصر ہے۔ اے ایم کی گھسی پٹی آوازوں اور پروگراموں میں یکسانیت کے برعکس ایف ایم کی نشریات میں سامعین کی دلچسپی کے موضوعات اور پریزنٹرز کے دوستانہ طرز تخاطب نے راتوں رات سامعین کی بہت بڑی تعداد کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ اس کے علاوہ پروگراموں میں سامعین کی براہ راست شرکت بذریعہ لائیو کالز اور دیگر بہت سے عوامل نے ایف ایم ریڈیو نشریات کے دائرہ سماعت کو بڑھایا۔

3 ۔ ایف ایم ریڈیو کی مقبولیت کی ایک بہت بڑی وجہ تفریحی پروگرام تو ہیں ہی لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اب معلومات، خبریں اور حالات حاضرہ کے پروگرامز کو بڑی دلچسپی اور توجہ سے سنا جا رہا ہے۔ جہاں تک تعلیم، شعور اور آگہی کا تعلق ہے تو اس میدان میں بھی کافی پیش رفت دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہاں تک کہ سرکاری سطح پر چلنے والے ایف ایم کے ساتھ ساتھ کمرشل اور مختلف یو نیورسٹیز کے زیر انتظام چلنے والے کیمپس ایف ایم ریڈیو تعلیم، تربیت اور شعور و آگہی کا فریضہ بطریق احسن سر انجام دے رہے ہیں۔

4 ۔ اردو اور مقامی یا علاقائی زبانوں کے فروغ میں جتنا اہم کردار ایف ایم نشریات آج ادا کر رہا ہے،اتنا پہلے نہیں تھا۔ ابتدائی دور میں ایف ایم سے اردو اور انگلش کے پروگرام براڈکاسٹ ہوتے رہے ہیں جن کو پذیرائی ملتی رہی۔ لیکن چونکہ ایف ایم نشریات بالکل ہی مقامی نوعیت کی حامل ہوتی ہیں لہذا چاروں صوبائی زبانوں کے علاوہ دیگر مقامی زبانیں اور لہجوں میں پروگرامز کی افادیت سے انکار ممکن نہیں لہذا ہم بر ملا کہہ سکتے ہیں کہ ایف ایم ریڈیو نے اردو، مقامی اور علاقائی زبانوں کی ترویج اور فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے اور کرتا رہے گا۔

5 ۔ ایف ایم نشریات اے ایم نشریات کے برعکس انٹر ایکٹیو نوعیت کی ہے ۔ اور مندرجات میں تنوع کے اعتبار سے ایف ایم نشریات دن بدن سامعین کی ایک بڑی تعداد کو اپنی جانب متوجہ کر رہی ہیں۔

6 ۔ ایف ایم نشریات کی اثر پذیری سے حکومتی مشینری بخوبی واقف ہے۔ خاص طور پر کمیونٹی کی سطح پر اس کی ایک قریب ترین مثال سوات ہے، جہاں 2008 میں انتہا پسندی عروج پر تھی اور ان شدت پسندوں نے ایف ایم ریڈیو سے سوات میں جو کام کیا وہ ہم سب کے سامنے ہے ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ پیمرا ایف ایم نشریات کی مقامی اثر پذیری سے غافل نہیں چونکہ پرائیویٹ سیکٹر کے کمرشل ریڈیو کا زیادہ تر انحصار غیر ملکی موسیقی پر ہے اور بیک ٹو بیک موسیقی میں انڈین موسیقی کا تناسب زیادہ ہو رہا تھا لہذا پیمرا نے ایسی موسیقی پر قدغن تو قطعی طور پر نہیں لگائی تاہم ایک خاص تناسب ضرور لاگو کروایا ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان میں کمیونٹی ریڈیو تاحال ایک خواب ہی ہے جس کی ایک وجہ پیمرا کے قوانین ہیں جو ایف ایم ریڈیو نشریات کی اس اہم حیثیت کو پھلنے پھولنے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ وگرنہ پیمرا نے دیگر ایف ایم براڈ کاسٹ کو محدود نہیں کیا۔

7 ۔ پاکستانی جامعات کے جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکشن کے شعبوں میں قائم ریڈیوکیمپس کے انضمام و انضرام کے لئے چونکہ پہلے سے تربیت یا فتہ عملے کا فقدان ہے لہذا یہ کہنا کہ مذکورہ کیمپس مارکیٹ کی ڈیمانڈ کو پوراکر رہے ہیں ایک لایعنی سی بات ہے۔ دوئم یہ کہ جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن میں پڑھایا جانے والا ریڈیو نشریات کا نصاب پرنٹ میڈیا اور دیگر ضروری نصابی مضامین کی نسبت کے اس قدر کم ہے کہ میں نہیں سمجھتا کہ وہ مارکیٹ ڈیمانڈ کو پورا کر سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک تو ریڈیو کا یہ نصاب محدودنہ رکھا جائے یعنی اس کے تناسب کو بڑھایا جائے اور دوسرے ایف ایم ریڈیو نشریات کو صرف تفریح یا تیز اور شوخ موسیقی کے پروگراموں تک محدود نہ رکھا جائے۔

8 ۔ جہاں تک کمرشل ایف ایم ریڈیو سے پبلک سروس براڈکاسٹ کا سوال ہے تو یہ بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پیمرا کی ہدایات کے برعکس کمرشل ایف ایم آوٹ لیٹس پبلک سروس براڈکاسٹ کو وہ اہمیت نہیں دے رہے جو اس کا حق بنتا ہے۔ وہاں تو بیک ٹو بیک شو، موسیقی اور کمرشل سپاٹس اور Sponsored Composite Programs کی ایک بے ہنگم ٹریفک ہے جس میں پبلک سروس براڈکاسٹ کا دور دور تک نام و نشان نہیں ہے۔

9 ۔ کسی حد تک اور ایک عرصہ کے لئے ایف ایم ریڈیو نے جس مقبولیت کے گراف کو حاصل کیا تھا وہ گزشتہ چند برسوں میں نیچے کی طرف آتا دکھائی دیا لیکن بہت جلد ہی اس پر قابو پا لیا گیا۔ براڈکاسٹ سیکٹر میں لاتعداد ایف ایم اسٹیشنز کا کھلنا اور ریاستی انتظام میں چلنے والے ایف ایم جن میں خاص کر صوت القرآن نے مقبولیت کے اس گراف کو کافی حد تک سنبھالنے میں مدد کی۔

شکیل گیلانی
( ریڈیو جرنلسٹ)

1 ۔ جی ہاں۔ ایف ایم ریڈیو ہی ریڈیو لسننگ کے احیاء کا ذریعہ بنا۔ یہ صرف شہروں کے لئے ہے۔ کیونکہ دیہاتوں میں ریڈیو پاکستان کی نشریات بآسانی سنی جا سکتی تھیں۔

2 ۔ اچھی اور مترنم آوازوں کے علاوہ زیادہ تر مکس میوزک، چوبیس گھنٹے لائیو نشریات، مغربیت اور مشرقیت کا حسین امتزاج اور میزبانوں کی ہلکی پھلکی گفتگو ایف ایم کی مقبولیت کی نمایاں وجوہات ہیں۔

3 ۔ ان تینوں شعبوں کے علاوہ موجودہ دور میں ریڈیو کا سکوپ بہت بڑھ چکا ہے کیونکہ ہر وقت ٹی وی نہیں دیکھا جا سکتا ہے۔ جبکہ ریڈیو کسی بھی وقت آپکی ہر طرح کی ابلاغی ضرورت پورا کر سکتا ہے۔ اور ایف ایم اس کا بہترین ذریعہ ہے۔

4 ۔ جی ہاں، مقامی زبانوں کے فروغ میں ایف ایم ریڈیو موثر کردار ادا کر رہے ہیں جبکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اردو کے فروغ میں کمرشل ایف ایم نے اُتنا موثر کردار ادا نہیں کیا جتنا ریڈیو پاکستان کا دائرہ خدمت ہے۔

5 ۔ بہتری کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے۔

6 ۔ پیمرا کا کردار ہمیشہ سطحی رہا کیونکہ اس ادارے میںبراڈکاسٹنگ کی اہمیت کے معیار کو اس طرح نہیں پرکھا جاتا جس طرح ہونا چاہیئے۔ من پسند افراد نے اس ادارے کو ز یادہ فعال نہیں ہونے دیا۔

7 ۔ جی نہیں، پریکٹیکل اور تھیوری میں بڑ ا فرق ہے۔ جامعات صرف براڈکاسٹنگ پڑھاتی ہیں سیکھاتی نہیں۔ کیونکہ بہت سی جامعات میں سیکھانے والے خود براڈکاسٹنگ سے نابلد ہیں۔ صرف نوجوان نسل کو راغب کرنے کے لئے ایسے اقدامات کیے جاتے ہیں۔ تاکہ طالب علموں کو متاثر کیا جا سکے۔

8 ۔ کمرشل کی ترجیح بزنس اور earning ہوتی ہے براڈکاسٹنگ نہیں۔

9 ۔ کسی حد تک گِرا ہے معیار۔ کیونکہ ریڈیو لسننگ سامع کے مزاج پر منحصر ہوتی ہے۔

ڈاکٹر بخت روان
( ایسوسی ایٹ پروفیسر، شعبہ ابلاغیات علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ، اسلام آباد)

1 ۔ پہلے بھی ریڈیو لسننگ میں کمی نہیں ہوئی تھی۔ ایف ایم نے بلکہ اس میں اضافہ کیا ہے ۔

2 ۔ ایف ایم ریڈیو کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کے سامعین جو چاہتے ہیں اُس طرح کے مندرجات ان کو ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ کمیونٹی سروس ہے اس میں مقامی موضوعات اور مسائل پر مقامی لوگ بات کرتے ہیں جس کی وجہ سے لوگ اس میں دلچسپی لیتے ہیں۔

3 ۔ جی میں اس بات سے متفق ہوں کہ ایف ایم ریڈیو اپنے سامعین کو معلومات، تفریح اور تعلیم تینوں چیزیں فراہم کر رہے ہیں۔

4 ۔ ایف ایم ریڈیو مقامی زبانوں کے فروغ میں تو مثبت کردار ادا کر رہے ہیں۔ جبکہ اردو کے حوالے سے میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ اردو کے پروگرامز میں انگریزی زبان کے استعمال سے اجتناب کرنا چاہیئے۔اس کے علاوہ ایک اور بات جو میں نے خود محسوس کی ہے کہ اردو پروگرامز میں اکثر دیگر مقامی زبانوں کے نغمات نشر کئے جاتے ہیں جوکہ اردو سامعین کے ساتھ زیادتی ہے۔ جو لوگ اردو اور اپنی مادری زبان کے علاوہ دیگر مقامی زبانوں کو نہیں سمجھتے انھیں زبردستی اردو پروگرامز میں ایک یا اس سے زائد مقامی زبانوں کے نغمات سنوانا اُن کی آزادی سلب کرنے کے مترادف ہے۔ چینلز کے پالیسی میکرز کو اس جانب بھی توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔

5۔ ہر ایف ایم کی اپنی پالیسی ہوتی ہے جس کے مطابق وہ اپنے مندرجات بناتے اور نشر کرتے ہیں ۔ تو اپنی پالیسی فریم ورک کے اندر وہ جو بھی کرتے ہیں ٹھیک ہے۔ میں یہ کہوں گا کہ عمومی طور پر ایف ایم کے مندرجات ٹھیک ہیں۔

6 ۔ پیمرا ویسے ایک ریگولیٹری اتھارٹی ہے اس لئے اگر کوئی ایسے مندرجات آتے ہیں جو ہمارے مذہب ، ہماری سماجی اقدار کے خلاف ہوں یا ملک کے آئین اور مفادات کے خلاف ہوں تو انھیں نہیں چلنا چاہیئے۔ پیمرا کو اس پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ایف ایم ریڈیوز کو خبروں کو خود اکٹھا کرنے، رپورٹنگ کرنے اور انھیں نشر کرنے کی شاید اجازت نہیں۔ اگر ایف ایم کو خبروں کے لحاظ سے بھی تھوڑی سی آزادی دے دی جائے کہ وہ اپنے طور پر رپورٹنگ کریں۔ کیونکہ لوگ مقامی معامعلات اور سرگرمیوں میںدلچسپی لیتے ہیں۔ ایسا کرنے سے میرے خیال میں معاشرے کی ایک خدمت ہو گی۔

7 ۔ جو بھی کمرشل ادارہ ہے چاہے وہ ریڈیو ہے۔ ٹیلی ویژن ہے یا اخبار ہے۔ اُس کا کام ہی پیسے کمانا ہے۔ ایسے میں وہ بغیر پیسے کمائے پبلک سروس اشتہارات کس حد تک چلاتے ہیں یا وہ اس طرح کے مندرجات پروڈیوس یا نشر کرتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ ایسا کرتے تو ہیں لیکن بہت زیادہ نہیں اس کو بھی میرا خیال ہے کہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔

8 ۔ میرے خیال میں یہ کسی حد تک ہاں اور کسی حد تک نہیں کی صورتحال ہے۔ کیونکہ کمیونیکیشن کی فیلڈ میں ٹیکنالوجیکل ڈویلپمنٹ جس حساب سے ہو رہی ہے جامعات کی وہ رفتار نہیں ہے۔ اسٹوڈنٹس کو ہم جو پڑھاتے ہیں وہ پرانی ٹیکنالوجی ہے پرانی چیزیں ہیں۔ جبکہ مارکیٹ میں جو چیزیں ہیں وہ نئی ہیں۔ اسٹیٹ آف دی آرٹ ٹیکنالوجی ہے تو اس طرح ہم مطابقت پیدا نہیں کر پا رہے ہیں۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ ہر ایک ،دو سال بعد نصاب پر نظرثانی کی جائے۔ تاکہ ہمارے طلباء کو نئی ٹیکنالوجی اور مندرجات سے آگاہی ہو۔ تب ہی اُنھیں فیلڈ میں خوش آمدید کہا جائے گا ۔

9 ۔ جب پہلے ایف ایم آیا تو اُس وقت اس کے مندرجات میں میوزک بہت زیادہ تھا جس کی وجہ سے نوجوانوں میں اُس کی مقبولیت بہت زیادہ تھی۔ لوگ بڑے شوق سے اسے سنتے تھے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اب ان کے مندرجات میں انٹرٹینمنٹ سے زیادہ اشتہارات ہو گئے ہیں۔ اگر میں خود اپنی کیس سٹڈی آپ کو بتاؤں تو میں خود بعض اوقات تنگ آجاتا ہوں کہ وہ متواتر کئی کئی منٹ اشتہارات چلاتے ہیں جس کی وجہ سے سامعین بور ہوتے ہیں۔ ٹھیک ہے کہ اشتہارات بھی ایک ضرورت ہیں لیکن اگر سامعین ہیں تو اشتہارات ہیں۔ اس لئے مندرجات کو اس طرح ترتیب دیا جائے کہ سامعین بھی آپ کے ساتھ رہیں اور اشتہارات کی ضرورت بھی پوری ہوتی رہے۔

ڈاکٹر اعجاز قریشی
(ملک میں پرائیویٹ کمرشل ایف ایم ریڈیو کے آغاز سےاس سے وابستہ ایک جانا پہچانا نام)

1 ۔ جی مجھے تو ایسے ہی لگتا ہے کہ پاکستان میں ریڈیو لسننگ کے Revival میں ایف ایم کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ اگرچہ یہ بھی سچ ہے کہ ٹیلی ویژن کے آنے سے اور اس کے فروغ کی وجہ سے آہستہ آہستہ لوگ ریڈیو سے ٹی وی کی طرف مائل ہوگئے۔ کیونکہ اس میں نا صرف آواز بلکہ تصویر بھی نظر آتی تھی۔ 1995 ء میں ایف ایم اچھی طرح سے واپس آیا۔ اچھی طرح سے میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ اُس سے پہلے ریڈیو پاکستان کا ایف ایم کچھ گھنٹوں کے لئے پروگرام کرتا تھا۔ 1995 ء میں باقاعدہ ایک ایف ایم ریڈیو پرائیویٹ سیکٹر میں آیا اور لوگوں نے اُس کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ 1998 ء میں ریڈیو پاکستان کا اپنا باقاعدہ ایف ایم چینل آیا اور اُس کے بعد پیمرا نے لائسنسز کا اجراء کیا تو پھر بہت سارے ریڈیو اسٹیشنز اور بھی آگئے۔

2 ۔ ایف ایم ریڈیو ایک نئی جدت، ایک نیا رنگ، ایک نیا آہنگ اور نیا پن لوگوں کے لئے لایا ۔ یہ یک طرفہ میڈیم نہیں تھا۔ لوگ پروگراموں میں ٹیلی فون کر سکتے تھے۔ میزبانوں کے ساتھ Interaction کر سکتے تھے۔ ایف ایم سے پہلے پاکستانی میوزک سے زیادہ انڈین میوزک مقبول تھا۔ ایف ایم نے پاکستانی میوزک کو Play کیا جس سے پاکستانیت کو فروغ ملا اور بہت اچھا پاکستانی میوزک پروڈیوس ہوا۔ یہ محمد علی شہکی، عالمگیر، نازیہ حسن اور زوہیب حسن کے بعد وائٹل سائنز اور جنید جمشید اور اس طرح کے بہت سارے میوزیکل بینڈز کو موقع ملا۔ اس کے علاوہ پروگراموں کو اسٹوڈیو سے نکال کر لوگوں کے درمیان لے جایا گیا۔ میں جس چینل کی بات کر رہا ہوں اُس کے پریزنٹرز Physically لوگوں کے درمیان جاکر کھڑ ے ہوتے تھے اور پروگرام کرتے تھے۔ مثلاً پیٹرول پمپ پر یہ سلسلہ چل رہا تھا وہاں لوگ آتے تھے ان سے بات کرتے تھے ان کی آواز سنی جاتی تھی یہ ایک نیا ٹرینڈ تھا اس طرح نیا سے نیا ٹرینڈ ایف ایم لیکر آیا جس کی وجہ سے اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔

3 ۔ ہاں اس میں کوئی شک نہیں۔ اگر آپ غور کریں تو پاکستانی ایف ایم میں نیوز بیسڈ ریڈیو چینل نہیں ہے جو سارا دن نیوز ہی سناتا رہے۔ ناں ہی آپ کو ایسے ریڈیو چینل ملیں گے جس میں ٹاک شوز ہی ہوتے رہیں۔کسی کا جھکاؤ ایک طرف ہے تو کسی کا دوسری طرف۔ چند ایک کا مزاج یہ ہے کہ وہ سارا دن موسیقی پیش کرتے ہیں اس میں کوئی پریزنٹر نہیں آتا اور متواتر موسیقی چلتی رہتی ہے۔ اور اگر پریزنٹر آتا ہے تو وہ بھی تھوڑی دیر کے لئے۔ جبکہ اکثر کا ٹرینڈ کمرشل ہے۔ اس میں جو پریزنٹر ہیں وہ زیادہ تر نوجوان ہیں۔ وہ اپنی قابلیت اور پس منظر کے مطابق بات چیت کر رہے ہوتے ہیں لیکن جس طرح سے بڑے پروڈیوسرز ریسرچ کر کے پروگرام کرتے ہیں تو ایسا ٹرینڈ ان میں نہیں کہ بڑا تحقیق شدہ پروگرام ہو۔ انفارمیشن اور نالج سے لبریز ہو۔ وہ فقط ایک عام فہم انداز میں گانوں کے دوران بات چیت کرتے ہیں۔ انفارمیشن بھی دیتے ہیں اور نالج بھی اور موسیقی کی مدد سے انٹرٹینمنٹ بھی فراہم کرتے ہیں۔

4 ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مقامی زبانوں اور اردو کے فروغ میں مثبت کردار ادا کر رہے ہیں۔ کئی دفعہ اس بات پر لے دے ہوتی ہے کہ جو پریزنٹر ہیں ان کا تلفظ درست نہیں ہے یا وہ جو بات کر رہے ہوتے ہیں وہ اتنی گہری نہیں ہوتی۔ تو ظاہر ہے ان کو جو hire کرتے ہیں یعنی انتظامیہ hire کرتی ہے ان کو جو پے منٹس دی جاتی ہیں تو اُس حساب سے ہی اُن کی قابلیت ہوتی ہے۔ مگر چونکہ وہ مقامی لوگوں میں سے ہی چنے ہوئے ہوتے ہیں۔ وہ اُن ہی کی زبان بولتے ہیں۔ اُن ہی کی آواز ہوتے ہیں اس لئے پسند کئے جاتے ہیں۔ اردو کے پروگراموں میں انگلش کا تڑکہ بہت زیادہ لگایا جاتا ہے۔ صحیح اور غلط بھی لگا یا جاتا ہے۔ لیکن لوگ اُسے اب پسند کرتے ہیں اور مینگلش کو سننا چاہتے ہیں خصوصاً یو نیورسٹیز اور میڈیکل کالجز کے اسٹوڈنٹس۔ تو across the board ایف ایم سب کو cater کر رہے ہیں۔

5 ۔ بالکل مجھے تو کوئی پرابلم نظر نہیں آتی۔ ہاں بہتری چونکہ ہر چیز میں ممکن ہے اس لئے اسے مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

6 ۔ پیمرا کا کردار اچھا ہے اور Perfect ہے۔ اور انھوں نے کوئی بھی قدغن نہیں لگائی اور کوئی آزادی سلب نہیں کی ہوئی۔ پیمرا کے کردار سے میں ذاتی طور پر مطمئین ہوں۔ مگر یہ ایک Debatable Issue ہو سکتا ہے۔ کیونکہ پاکستان میں تو ہمیشہ سے ہی یہ مسئلہ رہا ہے کہ ہمارے میڈیا کو کچھ ضرورت سے زیادہ ہی آزادی ہے۔

7 ۔ بالکل تیار کر رہے ہیں۔ وہاں ان کو یہ موقع دیا جاتا ہے کہ وہ پروگرامز خود تیار کریں۔ خود پروڈیوس کریں اور ان کو پریذنٹ کریں۔ میں کئی ایک ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جنھوں نے جامعات سے سیکھا اور آج Main stream media میں کام کر رہے ہیں۔

8 ۔ جی مندرجات بہتر ہو سکتے ہیں۔ مگر جو لوگ مندرجات کو دیکھتے ہیں وہ اس میں اتنی دلچسپی نہیں لیتے۔ مگر یکسر یہ بات نہیں کہی جاسکتی کہ وہ کر ہی نہیں رہے۔ ایک سطح تک وہ کر رہے ہیں مگر اُس سطح کو مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے ۔

9 ۔ زمانہ ایک سا نہیں رہتا مختلف ادوار میں مختلف چیزیں top پر پہنچتی ہیں پھر تبدیل ہوتی ہیں۔ تحلیل ہوتی ہیں۔ اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے جب ہم ایف ایم کی بات کرتے ہیں تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس نے اپنی مقبولیت برقرار رکھی ہے کہ نہیں۔ بلکہ یہ تحلیل ہو رہا ہے تبدیل ہو رہا ہے۔ کیونکہ اب لوگوں کے پاس چوائس بہت آگئی ہیں۔ ٹی وی کے کئی ایک چینلز آگئے۔ ایف ایم کے بے شمار چینلز اب کام کر رہے ہیں اور سب سے بڑھ کر سوشل میڈیا آگیا۔ اب ہر ریڈیو چینل جو مقبولیت حاصل کر رہا ہے اُس نے اپنا فیس بک پیج بنا یا ہوا ہے۔ ویب سائٹ بنائی ہوئی ہے۔ جہاں وہ Live Streaming کے ذریعے براڈکاسٹ کر رہا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ لوگ اب منتشر ہوکر سوشل میڈیا پر چلے گئے ہیں۔ جتنے گھنٹے وہ پہلے ٹی وی دیکھتے یا ریڈیو سنتے تھے۔ اب ایسی صورت نہیں ہے بلکہ وہ انٹرنیٹ پر موبائل میڈیا پر زیادہ وقت صرف کرتے ہیں۔ لیکن جن کو ابھی بھی آواز کی دنیا کا شوق ہے وہ ریڈیو سنتے ہیں۔
۔۔۔
:1 کیا پاکستان میں ریڈیو لسننگ کا احیاء ایف ایم کی وجہ سے ہوا ہے؟

:2 آپ کے خیال میں ایف ایم ریڈیو کی مقبولیت کی کیا وجوہات ہیں؟

:3 کیا ایف ایم ریڈیواسٹیشنز لوگوں کو تعلیم، تفریح اور معلومات تینوں چیزیں مہیا کر رہے ہیں؟

:4 آپ کے خیال میں اردو اور مقامی زبانوں کے فروغ میں ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز مثبت کردار ادا کر رہے ہیں؟

:5 کیاآپ ایف ایم ریڈیوکے مندرجات اور کردار سے مطمئن ہیں؟

:6 کیا پیمرا نے ایف ایم ریڈیوکے کردار کو محدودکیا ہوا ہے؟

:7 کیاجامعات میں کام کرنے والے ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز اورشعبہ ابلاغیات میں پڑھایا جانے والا ریڈیو کا نصاب مارکیٹ کی ضرورت کے مطابق طالب علم تیار کر رہا ہے؟

:8 کیا کمرشل ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز پبلک سروس براڈ کاسٹنگ کی ذمہ داری پوری کر رہے ہیں؟

:9 ایف ایم ریڈیو نے اپنے آغاز میں قارئین کی تعداد حاصل کی تھی کیا وہ اسے برقرار رکھنے میں کامیاب ہیں؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں