تین طلاقوں کا مسئلہ
آج کے معاشرے میں طلاق کی حد سے بڑھتی شرح ایک بڑا المیہ اور لمحہ فکریہ ہے۔
ISLAMABAD:
پاک و ہند میں مسلمانوں کی شادی، طلاق، وراثت ودیگر خاندانی معاملات سے متعلق اسلامک لاء کوڈ رائج تھا۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں نکاح، طلاق، جہیز، مہر اور بچوں کی شادیوں وغیرہ سے متعلق کئی قوانین بنائے گئے جن میں بہت سی خامیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ آئین کے تحت تشکیل کردہ اسلامی نظریاتی کونسل ان قوانین پر نظر رکھتی ہے اور وقتاً فوقتاً اپنی سفارشات پیش کرتی رہی ہے۔ اس کی پیش کردہ بہت سی اہم اور بنیادی نوعیت کی سفارشات اور اعتراضات التوا میں پڑے ہوئے ہیں۔
گزشتہ دنوں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے بی بی سی کوانٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں بیک وقت تین طلاقوں کی ممانعت کی جائے گی اور اسے قابل سزا جرم قرار دیا جائے گا۔ اس سلسلے میں ایک بل تیار کیا جارہا ہے جو جلد وزارت قانون کو بھیجا جائے گا جو بیک وقت تین طلاقوں کی صورت میں سزا تجویز کریگی۔ اس بل کو جلد پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔
دوسری جانب ہندوستان میں بھی تین طلاقوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے اور حکومت کی جانب سے مسلم پرسنل لاء میں تبدیل کرکے یونیفارم سول کورٹ کی راہ ہموار کرنے کے لیے حکومت اور لاء کمیشن نے کوششیں شروع کردی ہیں جنھیں مسلم پرسنل لا بورڈ نے مسلمانوں ودیگر مذاہب اور ملک کے خلاف سازش قرار دے کر رد کردیا ہے۔ یہ مسئلہ گزشتہ کئی ماہ سے وسیع پیمانے پر بحث و تمحیث اور ٹاک شوز کا موضوع بنا ہوا ہے۔
مسلم پرسنل لاء بورڈ کے عہدیداران نے حکومت اور لاء کمیشن کی جانب سے جاری کردہ سوالنامہ کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت اس اقدام سے تمام مذاہب کو ایک لاٹھی سے ہانکنے کی کوششیں کر رہی ہے جو مسلمانوں سمیت کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کو قبول نہیں ہوگی۔ ہم یونیفارم سول کورٹ کی مخالفت کرینگے۔ مودی سرکار اپنی ناکامیوں کو چھپانے اور اصل مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے سازشیں کر رہی ہے اس سے سرحدیں تو سنبھل نہیں رہی ہیں ملک میں ایک نئی جنگ چھیڑدی ہے۔
بورڈ کا کہنا ہے کہ 3 طلاقوں پر مکمل پابندی کے قانون کی سخت مزاحمت کی جائے گی۔ ایک ساتھ 3 طلاقیں دینا شریعت کی نظر میں ناپسندیدہ اور بیجا ہے اور یہ قانون شریعت کا غلط استعمال ہے لیکن قانون کے غلط استعمال کی وجہ سے سرے سے اس قانون کو ہی ختم کردینا نامعقول بات ہے، اگر حکومت نے اعلان کے مطابق قانون بنانے کی کوششیں کی تو پارلیمنٹ کے ذریعے روکنے کی کوشش کی جائے گی اور اسے عدالت میں بھی چیلنج کیا جائے گا۔
بورڈ کا کہنا ہے کہ جو لوگ شریعت کے مطابق طلاق نہیں دینگے یا بغیر شرعی وجہ کے طلاق دینگے ان کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔ شریعت کے مطابق طلاق نہ دینے والوں کا حقہ پانی بند کردیا جائے گا۔ جہیز کی مخالفت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ والدین جہیز کے بجائے شادی کے موقع پر بیٹی کو جائیداد کا حصہ دے دیں۔ہندوستان میں بیک وقت 3 طلاقوں پر پابندی کا قانون زیر بحث ہے تو پاکستان میں بیک وقت تین طلاقوں کو روکنے کے لیے قابل سزا جرم قرار دینے سے متعلق پیش رفت ہورہی ہے۔
دنیا کے کئی اسلامی ممالک مثلاً مصر، سوڈان، اردن، شام اور مراکش وغیرہ میں تین طلاقوں کو ختم کرکے ایک ہی شمار کرنے کا قانون نافذ ہے۔ سنن ابو داؤد میں عہد نبوی کا ایک واقعہ تحریر ہے کہ حضرت رکانہؓ نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اس کے بعد بڑے مغموم اور رنجیدہ ہوئے، معاملہ حضورؐ کے سامنے پیش کیا، آپؐ نے فرمایا کہ تم نے کیسے طلاق دی؟ صحابیؓ نے کہاکہ میں نے تین طلاقیں دیں، پھر دریافت فرمایا کہ ایک ہی مجلس میں؟
صحابی نے کہا ہاں ایک ہی مجلس میں، آپؐ نے فرمایا کہ ایک طلاق واقع ہوئی ہے تم اگر چاہتے ہو تو اس سے رجوع کرلو۔ ان صحابی نے رجوع کرلیا۔ لیکن ہمارے عوام، علما اور وزارت قانون اس مسئلہ غفلت، مصلحت اور ابہام کا شکار ہیں، بعض مولوی حضرات طلاق کے بعد دوبارہ رجوع کرنے کے لیے حلالہ یعنی مختصر دورانیہ کے مشروط نکاح کا مشورہ دیتے ہیں۔ حضورؐ نے اس عمل پر لعنت فرمائی ہے اور اس کے کرنے والے کو ''تعیس مستعار'' یعنی کرایہ کا سانڈ قرار دیا اور اس عمل پر حضرت عمرؓ نے رجم کی سزا مقرر فرمائی تھی۔
آج کے معاشرے میں طلاق کی حد سے بڑھتی شرح ایک بڑا المیہ اور لمحہ فکریہ ہے، طلاق کے عمل کو حلال کاری میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔ شیطان کو سب سے زیادہ خوشی شوہر اور بیوی کے درمیان علیحدگی کرانے سے ہوتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے ایک وقت میں صرف ایک طلاق دینے کی تلقین فرمائی ہے اور بیک وقت ایک سے زائد طلاقیں دینے سے منع فرمایا ہے تاکہ شاید اﷲ کوئی نئی راہ پیدا کر دے اور فریقین رجوع کرلیں۔ اسی لیے طلاق کے بعد شوہر کے گھر میں ہی رہائش اور نان نفقہ کی ذمے داری بھی شوہر کے ذمے قرار دی گئی ہے۔
ہاروت و ماروت بنی اسرائیل کو جادو سکھایا کرتے تھے اور پہلے بتادیا کرتے تھے کہ اگر تم جادو سیکھوگے تو آخرت میں تمہارا کوئی حصہ نہ ہوگا، لیکن یہ لوگ خوشی خوشی اپنی آخرت کا سودا کردیا کرتے تھے، اس جادو کو سیکھنے کا سب سے مذموم پہلو جادو کے ذریعے شوہر اور بیوی میں علیحدگی کرانے کا بتایا گیا۔
بیک وقت تین طلاقیں دینے کے مسئلے پر تو مختلف مسالک کے درمیان کچھ اختلاف رائے پایا جاتا ہے لیکن طلاق کے بعد پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کے مسئلے میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے مگر اس کے لیے بعض لوگ غیر شرعی طریقہ کار اختیار کرتے ہیں، عام لوگ ان طریقوں کو اختیار کرکے ساری زندگی گناہ کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں، حق اور وراثت مذہبی امور کو اس سلسلے میں آگہی مہم چلانا اور ایسے کاروبار میں ملوث افراد کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے چاہئیں۔
ایک بڑا شرعی اور قانونی مسئلہ یہ ہے کہ خلع کے کیسز میں فیملی کورٹ عام طور پر شرعی حدود و قیود کی رعایت نہیں کرتے بلکہ صرف قانونی تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ عموماً فیصلہ خلع کے مقدمات یکطرفہ ہوتے ہیں۔ علما کرام اور اسلامی نظریاتی کونسل یہ قرار دے چکی ہے کہ کورٹ کی یکطرفہ تنسیخ کی ڈگری سے تنسیخ نکاح نہیں ہوتا، اس میں طرفین کی رضامندی ضروری ہوتی ہے، عدالت کو چاہیے کہ اگر بیوی کسی معقول وجہ سے اپنے شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ہو تو شوہر کو اس بات پر آمادہ کرے کہ اپنی بیوی کو طلاق دے۔
فیملی کورٹس کو مسخ نکاح کو آخری اور ناگزیر صورت کے طور پر اختیار کرنا چاہیے، پہلی ترجیح مصالحت، دوسری ترجیح شوہر کو رضاکارانہ طور پر طلاق دینے پر آمادہ کرے، تیسری ترجیح دونوں کو خلع پر آمادہ کرنے کی ہونی چاہیے۔
حضرت عمرؓ نے اپنے دور خلافت میں مسلمانوں میں پیدا ہونے والی ان بد عادات کو ختم کرنے کے لیے تین قسم کے اقدامات کیے تھے (1) وہ ایک وقت میں تین طلاقیں دینے والوں کو سزائیں دیتے تھے۔ (2) ایک وقت میں دی گئی تین طلاقوں کو 3 طلاقیں ہی شمار کرتے تھے لیکن (3) حلالہ کرنے والوں کے لیے رجم کی سزا مقرر کی گئی تھی۔
حضرت عمرؓ کے دور میں جب کثرت سے ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دینے کا رجحان بڑھنے لگا تو آپؓ نے بطور سزا اور ڈرانے دھمکانے کے لیے وقت، سیاسی اور تعزیری طور پر ایک ہی وقت میں دی گئی تین طلاقوں کو تین طلاقیں شمار کرنے کا قانون نافذ کیا تھا۔ اس لیے علما کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کا فیصلہ سیاسی، تہدیدی طور پر لاگو کیا گیا تھا۔
معاملہ اس وقت کے حالات وواقعات میں ان کے اجتہاد کا تھا اور اس کی حیثیت وقتی سیاسی اور تعزیری تھی، جیسا کہ آج کل کے نظام میں کسی آرڈیننس کی ہوتی ہے، لہٰذا قرآن و سنت اور نبی اکرمؐ کے فیصلے کے مطابق ازلی اور صحیح طریقہ وہ ہی ہے جو حضور اکرمؐ، حضرت ابو بکرؓ اور خود حضرت عمرؓ کے ابتدائی دور خلافت میں مروج رہا۔
پاکستان میں عوام الناس عائلی قوانین، طلاق و خلع اور حلالہ جیسے امور لا علمی اور ابہام کا شکار ہیں جب کہ علما پر فقہی جمود طاری ہے۔ علما، وزارت قانون اور عدالتیں اپنا موقر کردار ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں جس کی وجہ سے لوگ لا علمی اور غلط مشوروں کی وجہ سے حلال و حرام کی تمیز کیے بغیر کچھ کا کچھ کررہے ہیں، اس لیے علما وقت، حکومت اور سیاسی و سماجی تنظیموں کو اس گمبھیر مسئلے پر جو ان کی توجہ یا نظروں سے اوجھل ہے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ورنہ من مانے، لاعلمی اور غیر شرعی اعمال کی ذمے داری ان ہی کی گردنوں پر ہوگی۔