وزارت عظمیٰ کا عہدہ ایک سوال
اقتدار سے محرومی کے بعد بھی ماضی سے سبق نہیں سیکھا جاتا۔
تین بار ملک کے وزیر اعظم اور سب سے طویل عرصہ اقتدار میں رہنے والے میاں نواز شریف کا کہنا ہے کہ آج وزیراعظم کا عہدہ مفلوج ہوچکا ہے اور جب بھی جمہوریت پر یلغار ہوئی آمروں کا ساتھ دیا گیا ۔ ریاست کا ایک ستون دوسرے ستون کو مفلوج کردے تو نظام کیسے چلے گا۔
اقتدار سے محروم ہونے کے بعد کسی بھی حکمران کو یہ پتا چل جاتا ہے کہ انصاف کا حصول بہت مہنگا ہے اور وکیلوں کو بھاری فیسیں ادا کرکے مقدمات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اقتدار میں رہتے ہوئے کسی بھی حکمران کو آٹے دال کا بھاؤ معلوم نہیں ہوتا نہ انھیں علم ہوتا ہے کہ اسے منتخب کرنے والے کروڑوں عوام کن مسائل سے دوچارہیں اور انھیں سرکاری اداروں کے ہاتھوں کتنی پریشانی حاصل ہوتی آرہی ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ 70 سالوں میں آج تک کوئی ایک بھی وزیراعظم اپنی آئینی مدت پوری نہ کرسکا وہ کبھی غیر سویلین، سویلین صدرکے ہاتھوں معزول ہوا اورکبھی عدالت کے ذریعے نااہل قرار پاکر اقتدار چھوڑنے پر مجبور ہوا ۔ عدالت عظمیٰ نے سویلین صدرکے ہاتھوں برطرف ہونے پر نواز شریف کو وزیراعظم کے عہدے پر بحال بھی کیا تھا جس کے چند ماہ ہی میں نواز شریف اور صدر غلام اسحاق کو مستعفی ہونے پر مجبور بھی ہونا پڑا تھا جس کے ذمے دار بھی وہی دونوں تھے اور دونوں کے درمیان انا اور ضد کے ساتھ اپنے اقتدار اعلیٰ کا مسئلہ بھی تھا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک کا کوئی بھی غیر سویلین یا سویلین صدر اقتدار سے محروم نہیں ہوا۔ غیر سویلین خود مستعفی ہوئے یا جنرل ضیا اپنی شہادت کے بعد اقتدار سے گئے اور صرف صدر فاروق لغاری سویلین دور ہی میں مستعفی ہوئے تھے۔
ایک بے اختیار سویلین صدر چوہدری فضل الٰہی اپنی مدت ضرور پوری کرنے میں کامیاب ہوئے تھے اور انھی کے اپنے مکمل بااختیار وزیر اعظم بھٹو کو جنرل ضیا کے ہاتھوں برطرف ہونا پڑا تھا جن کی پیپلز پارٹی کے منتخب صدر آصف زرداری اپنی ہی پارٹی کی حکومت میں پونے پانچ سال بااختیار صدر رہے اور نواز شریف کے اقتدار میں آنے کے بعد تین ماہ اپنی بقایا مدت گزار کر وزیر اعظم کے دیے گئے عشائیے سے رخصت ہوئے تھے اور اب ایک سویلین صدر مملکت اپنی مدت پوری کرنے میں مصروف ہیں۔
غیر سویلین، اپنے ہی سویلین صدور اور عدالت کے ذریعے جتنے بھی وزرائے اعظم اقتدار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ان میں ایک بھی مفلوج نہیں تھا مگر کسی نے بھی اپنی معزولی کی وجوہات پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا اور نواز شریف ہی ایسے بااختیار وزیر اعظم تھے جنھیں پانامہ کی بجائے اقامہ پر برطرف کیا گیا اور وہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی کہہ رہے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا۔
غیر سویلین صدور کی موجودگی میں جتنے لوگ وزیر اعظم رہے وہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ مکمل بااختیار نہیں تھے مگر وہ اتنے بھی مفلوج نہیں تھے جس کی کبھی کسی نے شکایت نہیں کی۔ 1973 کے آئین کے تحت وزیر اعظم مکمل بااختیار اور صدر مملکت کا عہدہ آئینی ہے۔ جنرل ضیا نے 58-2/B کا اختیار خود حاصل کیا تھا اور آئین میں ترمیم کرائی تھی جس کے بعد سویلین صدور غلام اسحاق اور فاروق لغاری نے اپنے اس اختیار کو استعمال کرکے اپنی ہی دو حکومتوں کر برطرف کیا تھا اور وہ یہی حکومتیں تھیں جنھوں نے ہی دونوں کو صدر منتخب کرایا تھا۔
صدر اسحاق نے تو پہلے نواز شریف اور بعد میں بے نظیر بھٹو کی حکومت برطرف کی تھی مگر وہ بااختیار صدر ہوکر بھی اپنی مدت پوری نہیں کرسکے تھے حالانکہ وہ 58-2/B کے اختیار کے ساتھ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں ہی کے ذریعے صدر مملکت منتخب ہوئے تھے۔
میاں نواز شریف کی پہلی برطرفیوں میں ان کی اپنی غلطیاں بھی شامل ہو سکتی تھیں۔الزام لگایا جاتا ہے کہ وزیر اعظم منتخب ہوکر انھوں نے کبھی پارلیمان کو اہمیت دی نہ اپنی ہی کابینہ کو۔ وہ کچن کابینہ میں فیصلے زیادہ اور مشورے کم کرتے تھے اور اپنے فیصلوں میںکسی کو بھی شامل نہیں کرتے تھے اور عوام میں وہ مقبول مگر دور بھی رہتے تھے۔حکمرانوں کے شاہانہ مزاج سے صرف جی حضوری کرنے والے ہی خوش یا مجبور ہوتے ہیں۔ میاں صاحب کے تینوں ادوار میں ملک میں بلاشبہ ترقی ہوئی جو غیر ملکی قرضوں کی مرہون منت تھی جس کا بوجھ حکمرانوں کو نہیں عوام کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف اپنے تینوں ادوار میں کبھی بھی مفلوج نہیں رہے اور وہ جو چاہا کرتے رہے۔ انھیں ایک سال تک سینیٹ میں جانے سے کسی نے نہیں روکا تھا۔ اپنے عزیز اسحاق ڈار کو اپنا ڈپٹی پرائم منسٹر خود انھوں نے ہی بنا رکھا تھا ۔ عمران خان تو نواز شریف کے سیاسی دشمن سہی مگر ہر مشکل میں حکومت کا ساتھ دینے والوں کو ساتھ لے کر چلنے کی آصف زرداری جیسی صلاحیت کا اظہار میاں صاحب نے نہیں کیا۔
اقتدار میں ارکان اسمبلی اور میڈیا کو اعتماد میں لینے کے وہ کبھی عادی نہیں رہے۔ ان کی حکومت میں اہم سرکاری اداروں کے سربراہ مہینوں کیا سالوں مقرر نہیں ہوئے تو کیا کسی نے انھیں اہم تقرریوں سے روک رکھا تھا۔ اقتدار سے محرومی کے بعد بھی ماضی سے سبق نہیں سیکھا جاتا۔ پانامہ کو اہمیت نہ دے کر غیر اہم اقامہ میں جا پھنسے تو اب یہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم کا عہدہ مفلوج ہوچکا ہے۔