ظفر قریشی کی عالمی کہانیاں
گلابی انقلاب کے دوران سول نافرمانی کی تحریک میں ایک رہنما کی حیثیت سے ابھرے
ظفر قریشی کا شمار صحافیوں کی اس نسل سے ہے جس نے ترقی پسند نظریات کوحقیقی طور پر اپنایا اور اپنے قلم کو مظلوم طبقات کے لیے وقف کردیا۔ ظفر قریشی آج کل امریکا کے سب سے بڑے شہر نیویارک میں مقیم ہیں۔ انھوں نے صحافت کا آغاز روزنامہ مشرق سے کیا، پھر حریت میں ملازم ہوئے۔ صحافیوں کی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس میں متحرک رہے۔ کراچی پریس کلب کے سیکریٹری منتخب ہوئے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور آمریت میں ملک چھوڑ کر امریکا چلے گئے۔ ظفر قریشی ہمیشہ سے ترجمے کے ماہر تھے۔ انھوں نے دنیا بھر کی بہترین کہانیوں کو چنا جن میں انسانی رویوں اور تعلقات کو بنیاد بنایا گیا تھا۔
ظفر قریشی کی پہلی کہانی معروف امریکی مصنف ٹوکوراکھیان کی تخلیق بوائل دیوہیکل کے عنوان سے شایع ہوئی ہے۔ ٹی کوراکھیان کا شمار حقیقت پسندانہ جادوئی فکشن لکھنے والوں میں ہوتا ہے۔ وہ مختصرکہانیوں کے 9 مجموعوں اور 13 ناولوں کے مصنف ہیں۔ بوائل دیوہیکل میں لکھتے ہیں کہ ایک مہینے کے اندر اندر بے چینی کی ابتدائی افواہیں پھیلنا شروع ہوگئیں۔ ابتداء میں ہم سمجھے تھے کہ ہم جنت میں ہیں، دن بھر ہمارے پاس کوئی کام نہ ہوتا۔ انھیں ہم سے کوئی توقع بھی نہیں تھی۔ صرف چند بنیادی کام کرنے ہوتے تھے جو ہماری بیزاری کا سبب بننے لگے تھے۔ ظفر نے دوسری کہانی مشرقی یورپ کے ملک جارجیا کے ادیب ڈیوڈ ڈیفی کی چنی ہے جس کا ''عنوان اختتام سے پہلے ''ہے۔ ڈیوڈ ڈیفی گوگی بیداشوبلی 1968ء میں نیلسی جارجیا میں پیدا ہوئے۔ وہ بنیادی طور پر شاعر ہیں۔ ناول لکھتے ہیں اور اداکار ی ان کا شغل ہے۔
گلابی انقلاب کے دوران سول نافرمانی کی تحریک میں ایک رہنما کی حیثیت سے ابھرے۔ اسٹاپ ایشیا کا نعرہ ان کے نام سے منسوب ہے۔ روس کے حملے کے دوران انھوں نے رضاکار فوج میں شمولیت اختیارکی۔ وہ کہانی ''اختتام سے پہلے ''میں لکھتے ہیں کہ فوجیوں کی پشت پر مجھے اپنا بچپن دکھائی دے رہا ہے۔ میں اپنے صحن میں کھیل رہا ہوں۔ ایک جھینگر میری ہتھیلی پر ہے اور میں ہولے سے اس پر اپنی انگلیاں پھیرتا ہوں۔ گولیاں اب مجھ سے دو قدم کے فاصلے پر ہیں، وہ میری طرف اب بھی سست روی سے بڑھ رہی ہیں۔ میں بھگوڑا نہیں، مجھے معلوم ہے نہ میں غدار ہوں پھر یہ مجھے اس طرح کیوں مار رہے ہیں؟ یہ جنگ کا زمانہ ہے، ہوسکتا ہے کہ انھیں غلط فہمی ہوئی ہو، کوئی بھی ذمے دار نہیں، اس سے کیا فرق پڑتا ہے ۔
ظفر قریشی نے ایک اورکہانی آرمن کومیجی کی منتخب کی ہے۔ آرمن کومیجی 1969ء میں مولددوا میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ٹالن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی سے معاشیات کی ڈگری حاصل کی۔ ان کا پہلے ناول بھگوڑے کا شمار 2009ء کے بہترین ناولوں میں ہوا تھا ۔ اس کہانی کا عنوان انجمن نامعلوم منطقیان تھا۔ اس کہانی میں وہ ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ میرے دادا مجھے چرچ لے گئے۔ اس سے قبل میں کبھی چرچ نہیں گیا تھا یا کم ازکم اس چرچ میں نہیں گیا تھا بلکہ میں توکہوں گا کہ کسی چرچ کے اندر داخل نہیں ہوا تھا ۔
میرے دادا کا چرچ سے کیا تعلق تھا، ہاں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ میرے دادا کو چرچ آرگن کی موسیقی بہت پسند تھی جو انھیں سکون بخشتی تھی اور وہ جوگھر پر سنا کرتے تھے لیکن ایک معصوم اور ذی عقل شخص تھے۔ ظفر قریشی نے برطانیہ کے ادیب ڈنکن بش کی کہانی ''دو بیویوں والا'' کا ترجمہ کتاب میں شامل کیا ہے۔ ڈنکن بش 1946ء میں کارڈیف ویلز میں پیدا ہوئے ۔ انھوں نے وارک یونیورسٹی ، ڈیوک یونیورسٹی اور وارڈم کالج آکسفورڈ میں تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے تین ناول لکھے، کئی شعری مجموعوں پر انھیں ایورڈ مل چکے ہیں ۔ دو بیویوں والا کا آغاز یوں ہوا کہ اس بڈھے کے بارے میں اس اخبار میں ایک خبر تھی ۔ ایک ٹرک یا لاری کا ڈرائیور تھا جس کی دو بیویاں تھیں ، دو باقاعدہ گھرانے تھے۔ دونوں گھرانوں میں مجموعی طور پر چھ بچے تھے۔ ایک جتھہ بین بیری میں رہتا تھا دوسرا بیڈفورڈ میں، اس نے یہ ڈراما 14 سال تک جاری رکھا ۔ دوخاندانوں کا شوہر اور باپ تھا لیکن دونوں میں سے کسی ایک خاندان کو شبہ بھی نہیں ہوا کہ وہ کیا ڈراما کر رہا ہے۔
عالمی کہانیاں نامی اس کتاب میں ایک اورکہانی پرتگال کے ادیب روئی زنک کی ہے۔ روئی زنک 1961ء میں نربن پرتگال میں پیدا ہوئے ۔ نیو یونیورسٹی آف برلن سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ انھوں نے 20 کتابیں تحریرکیں۔ روئی زنک نے ایک معرکتہ الآراء کتاب ''سیاحوں کی حیثیت'' کے عنوان سے تحریر کی۔ وہ لکھتے ہیں کہ سگنل بند ہوگیا تو اس نے پھرکال کرنے کی کوشش نہیں کی۔ گو وہ بات کو طول دینے کا خواہش مند تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اس کی باقی ماندہ گفتگو کیا ہوئی ، مثال کے طور پرکیا اس کی بیوی جانتی تھی کہ کلسٹر بم کے پس پشت کتنا نیک جذبہ تھا ۔ مقصد یہ تھا کہ انسانی جسم کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جائے ۔
ایک کہانی جنوبی کوریا کے ادیب یی من یول کی ہے جس کا عنوان '' نامعلوم جزیرہ '' ہے ۔ چخ چخ میرے شوہر نے اپنی زبان تالو سے لگا کر آواز نکالی، ایک طویل شام کا آخری حصہ ہے اور میر سرتاج ٹیلی وژن دیکھ رہے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے ٹی وی پر انھوں نے کوئی بہت ہی نفرت انگریز منظر دیکھ لیا ہو ۔ ٹیلی وژن پرکسی تھانے کی انتظارگاہ دکھائی جارہی تھی جس کے ایک کونے میں مردوں اور عورتوں کا ایک گروہ جھکا ہوا بیٹھا تھا ۔ ٹی وی کیمرہ انھیں مختلف زاویوں سے دکھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ ان میں سے چند نے اپنے ہاتھوں سے اورکچھ نے اپنے لباس سے چہرے چھپا رکھے تھے ۔
منظر دیکھتے ہی میں سوچ رہی ہوں کہ ان لوگوں کو شاید جوا کھیلتے ہوئے پکڑا گیا، لیکن ایک سرسری نظر بتاتی ہے کہ انھیں کسی خفیہ اور تنگ وتاریک تہہ خانے سے نکال کر دن کی روشنی میں لایا گیا۔ شاید یہ لوگ تہہ خانے میں ناچ رہے ہوں مگر اناؤنسر نے بتایا کہ وہ تہہ خانے میں ناچ نہیں رہے تھے بلکہ وہ ذو معنی جملہ استعمال کرتا ہے۔ یہ لوگ اپنے جسم کو ... ایک اورکہانی روسی ادیب سرگے ڈوناٹو وچ رولتوف کی ہے جس کا عنوان ''افسرکی بیٹی'' ہے۔ رولتوف کی یہ کہانی پہلی بار 1986ء میں شایع ہوئی تھی۔ رولتوف کی کہانیاں اس کی سوانح کا درجہ رکھتی ہیں ۔ امریکی مصنف مارک ٹوپین کی تحریریں پسند کرنے والا قلم کار نصف آرمینائی اور نصف یہودی تھا، وہ اوفا میں پیدا ہوا ، لینن گراڈ میں پلا بڑھا۔ 1962ء میں جب اس سے یونیورسٹی سے نکال دیا گیا تو اس نے فوج میں شمولیت اختیار کر لی۔ سابق سوویت یونین کے دور میں اس نے اپنی کہانیاں چھپوانے کی بہت کوشش کی لیکن ہر بار ناکام رہا۔ 1975ء میں اس کی پہلی کتاب کے جی پی کے احکامات پر ضایع کردی گئی ۔
ایک سال بعد اس کی کئی کہانیاں مغربی ممالک میں شایع ہوئیں۔ صحافیوں کی یونین سے نکالے جانے کے بعد اسے برطانوی علاقے میں جانے والی کشتی پرگارڈ کی ملازمت مل گئی۔ 1978ء میں وہ پہلے ویانا پھر نیویارک چلا گیا جہاں اس کا انگریزی اور روسی زبانوں کی کتابیں شایع بوئیں۔ افسر کی بیٹی کا آغاز یوں ہوتا ہے کہ شرابی کے لیے سب سے بری چیز وہ احساس ہوتا ہے جب وہ ہوش میں آنے کے بعد خود کوکسی اسپتال کے بستر پر پایا جاتا ہے۔ ابھی آپ پوری طرح پیدا بھی نہیں ہوئے ہیں کہ حقیقت سر پرکسی ہتھوڑے کی طرح لگتی ہے، بس بہت ہوگیا ۔ سینئر صحافی رشید بٹ ظفر قریشی کی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ظفر قریشی پاکستان کے ایک ممتازاور سینئر صحافی ہیں ۔کم و بیش تین عشروں سے امریکا میں آباد ہیں لیکن وہاں بھی صحافت اور ادبی ترجموں کی وادئ پرخار سے دامن نہیں بچا سکے۔
2011ء میں بہترین امریکی کہانیوں کا انتخاب شایع ہوا تو ان میں ایک کہانی ''چھت'' نائیجیریا کے پس منظر میں تھی جسے ایک نائیجیرین ادیبہ نے ہی الفاظ کا روپ دیا تھا ۔ یہ کہانی اس کتاب میں بھی شامل ہے اور اسے پڑھتے ہوئے یہ احساس جڑ پکڑتا چلا جاتا ہے کہ معاشرتی اعتبار سے نائیجیریا پاکستان ہی کا دوسرا نام تو نہیں؟ ظفر قریشی نے غالباً اسی احساس کے تحت اس کہانی کو اردوکے قالب میں ڈھال دیا ۔ نو دولتیاپن، فرنٹ مین، ریاستی املاک اور اداروں کی اونے پورے غتر بود، مفاد پرستی، سفید چمڑی والوں کے مقابلے میں احساسِ کمتری، ذاتی مفاد کے حصول کی خاطر، ملکی اور قومی مفادات کی قربانی دے کر مہنگے داموں درآمدات ۔ نوع بہ نوع بدعنوانیاں ! کیا پسماندہ یا نام نہاد ترقی پذیر ممالک اور معیشتوں کا المیہ ایک ہی ہے؟ مفاد پرستوںکے مفادات مشترک ہیں؟ کہانی پڑھیے اور خود ہی فیصلے کیجیے۔